• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈسلیکسیا، بچوں کے سیکھنے میں دشورای کا عارضہ

بطور والدین، استاد یا کوئی بھی فرد جب بچوں کو کچھ سکھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو چیز اس کے ذہن میں ہے، بچہ اسی طرح سے اس بات یا عمل کو سیکھ یا سمجھ لے گا۔ بظاہر ہمیں آسان لگنے والی چیز بچوں کے لیے مشکل ہوسکتی ہے کیونکہ ہمارا ذہن پختہ ہوتا ہے اور ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ زندگی میں بہت سی چیزیں سیکھ رکھی ہوتی ہیں۔ 

دوسری جانب بچوں کا ذہن تروتازہ ہوتا ہے، انھیں چیزیں اس طرح آسانی سے سمجھ نہیں آتیں جس طرح بڑوں کو آتی ہیں۔ تاہم، کچھ بچے جلدی سیکھ جاتے ہیں جبکہ کچھ کو تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ مگر کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اپنی آنکھوں کے سامنے حروف گھومتے نظر آتے ہیں یا وہ حروف کے درمیان فرق نہیں سمجھ پاتے۔ 

یہ مسئلہ دنیا کی 5سے 10فیصد آبادی کو درپیش ہے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس عارضے کو ڈسلیکسیا کہا جاتا ہے، جس میں بولنے کی آوازوں کی شناخت اور سیکھنے میں دشواری کی وجہ سے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے کہ وہ حروف اور الفاظ سے کیسے تعلق رکھتے ہیں (ڈی کوڈنگ)۔ 

ڈسلیکسیا کئی طرح کا ہوسکتا ہے؛ ڈویلپمنٹل (جینیاتی) یا حاصل شدہ (دماغ کی تکلیف دہ چوٹ یا بیماری کے نتیجے میں)، فونولوجیکل ڈسلیکسیا، تیزی سے نام دینے والا ڈسلیکسیا، ڈبل ڈیفیسٹ ڈسلیکسیا، سطحی ڈسلیکسیا اور بصری ڈسلیکسیا۔ ڈسلیکسیا دماغ کے ان حصوں میں انفرادی اختلافات کا نتیجہ ہوتا ہے، جو کسی بھی زبان (language)کو پروسیس کرتے ہیں۔

ایسے بچوں پر اکثر سیکھنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا اور انھیں دوسرے بچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اگر آپ کے بچے کو سیکھنے کے عمل میں مشکل پیش آتی ہے یا وہ پڑھنے لکھنے میں کم صلاحیت کا حامل ہے یا اس کی اسکول میں کارکردگی بہتر نہیں ہے تو یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں آپ کے بچے کو ڈسلیکسیا تو نہیں۔ 

یہ کوئی ذہنی بیماری یا معذوری نہیں ہے بلکہ اس کے شکار افراد کو الفاظ پڑھنے، پہچاننے، سمجھنے، یاد رکھنے اور لکھنے کے عمل میں دشواری محسوس ہوتی ہے، تاہم انہیں کند ذہن یا نکما نہیں کہا جاسکتا۔ دراصل ہم بچے کی ذہنی استعداد کے مطابق اس کے سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ نہیں لگا پاتے اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اسے پڑھانے لکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اکثر اوقات ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر سارا الزام ہم بچے پر ڈال دیتے ہیں کہ اسے پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہے۔

ذرا تصور کریں کہ اگر بچہ حرف ’ب‘ اور ’پ‘ کے درمیان فرق نہیں کرپاتا تو وہ کیسے بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے یا آپ کی بات سمجھ سکتا ہے؟ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شعوری طور پراس عارضے میں مبتلا لوگوں کی زندگی اور ان کو درپیش صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ 

ایک ہی عمر اور جماعت کے بچوں کو ایک جیسا ہی لکھنا پڑھنا سکھایا جائے تو سب بچے ایک جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن دیر یا بدیر ہر بچہ بالآخر لکھنا پڑھنا سیکھ ہی جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ سیکھنے کے اس عمل میں ایک بچے کو دوسرے سے زیادہ وقت لگے، ایسی صورت میں والدین اور اساتذہ کو صبر واستقامت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو ڈانٹنے یا سزا دینے کے بجائے اس کے نہ سیکھنے یا اسے درپیش مشکل کی وجہ تلاش کرنی چاہیے۔

علامات

ڈسلیکسیا کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ بچے ہجے کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں تو کچھ لکھنے میں جدوجہد کررہے ہوتے ہیں، کچھ بچے اس کشمکش میں بھی جلدی لکھنا سیکھ نہیں پاتے کہ انھیں دائیں ہاتھ سے لکھنا ہے یا بائیں ہاتھ سے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض لوگوں سے عمر بھر املا اور گرامر کی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے کے سیکھنے میں آنے والی کسی بھی قسم کی رکاوٹ کووالدین بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اور بسا اوقات تو وہ ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچہ سمجھنے لگتاہے کہ اسے کچھ نہیں آتا اور نہ ہی وہ اچھی طرح سیکھ سکتا ہے۔ 

اس طرح بچہ نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے، اسے لگتاہے کہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے، اسے اہمیت نہیں دی جاتی، لہٰذا وہ اپنی بات کرنے یا دوسروں سے مدد مانگنے میں ہچکچانے لگتا ہے۔ بار بار پوچھنے پر جب ایسے بچوں کو سرزنش کی جاتی ہے توان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ یاد کرنے یا سیکھنے کے عمل میں مزید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کا نتیجہ ذہنی دبائو کی صورت نکلتا ہے۔

بچے کو ڈسلیکسیا سے نکالنا

بچوں کو اس مشکل سے نکالنے کے لیے والدین کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے۔ والدین کو اپنے بچے پر ابتدا ہی سے نظر رکھنی چاہیے کہ اس کے لکھنے پڑھنے کی کیفیت، منہ سے نکلنے والے عام بول چال کے الفاظ، ڈرائنگ کرنے کا انداز، لفظ جوڑنے اور توڑنے اور حروف کو پہچاننے کے عمل میں اس کی کارکردگی کیسی ہے تاکہ جلد از جلد یہ پتہ لگایا جاسکے کہ بچے کو کس جگہ ناکامی یا کمزوری کا سامنا ہے۔ اس کے لیے والدین کو بچے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ڈسلیکسیا کے ماہرین اس عارضے میں مبتلا بچوں کو اسپیچ تھراپی یا گفتگو کے مراحل سے شناخت کرتے ہیں اور ان کی کمزوریاں جان کر انھیں درست کرنے کے مشورے دیتے ہیں۔ ان کا مشورہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ بچوں کو ان کی عمر کی مناسبت سے ایسے کھلونے لا کردیے جائیں، جن کے ذریعے وہ کھیل کھیل میں رنگوں یا اشکال کی مدد سے حروف پہچاننے لگیں۔ اس کے علاوہ انہیں دلچسپ ، رنگ برنگی ،تصویروں سے مزین کہانیاں، کتابیں اور رسائل لا کر دیں۔ اگر کسی بچے میں ڈسلیکسیا کی شناخت ہوجائے تو ٹیچرز کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور سب مل کر بچے کو اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش کریں۔

ڈسلیکسیا میں مبتلا افراد بہت کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے کامیاب شخصیات کی ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں، جو اپنے بچپن میں ڈسلیکسیا کا شکار تھیں۔ امریکا کی بہترین اداکارہ جینیفر آنسٹن، ہالی ووڈ کے چوٹی کے فلم میکر اسٹیون اسپیل برگ اور لیجنڈری ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن محمد علی مرحوم بھی کم عمری میں ڈسلیکسیا کا شکار تھے مگر انھوں نے اپنی انتھک محنت، عزم اور کوششوں سے معاشرے میں ایک نام بنایا۔

صحت سے مزید