• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: محمد ہمایوں ظفر، سلیم اللہ صدیقی

صدرِ مملکت عارف علوی نے 11ستمبر 2022ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینر، معروف کاروباری شخصیت، کامران خان ٹیسوری کی سندھ کے 34ویں گورنرکی حیثیت سے تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، تو سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ خبر نہ صرف حیرانی سے سُنی گئی، بلکہ مختلف حوالوں سے چہ میگوئیاں بھی ہوئیں۔ 

اُن سے متعلق بہت کچھ کہا گیا، بھانت بھانت کے تبصرے سننے کو ملے، حتیٰ کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے تو ’’مولاجٹ‘‘ سے تشبیہ دے دی۔ تاہم، اُن سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ انتہائی نرم گو، حسّاس، خوش گفتارو خوش اطوار، متاثر کُن اور عوامی شخصیت کے حامل ہیں۔ فلاحی و رفاہی کاموں میں خصوصی دل چسپی کے ساتھ مذہبی اقدار و روایات، اخلاقیات، سماجی بہبود اور عوامی خدمت پر یقین رکھنے والے کامران ٹیسوری بہت مہذّب و شائستہ اور دوستانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ 

ہم نے ایک تفصیلی نشست میں اُن سے جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے اُن کی عوامی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س: آباء و اجداد، والدین اور کاروباری مصروفیات کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

ج: ہمارا آبائی تعلق بھارت کے شہر جے پور سے ہے، جو پنک سٹی (گلابی شہر) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد 1947ء میں ہمارا خاندان پاکستان ہجرت کرکے کھارادر،کراچی میں آکر آباد ہوا۔ میرے دادا، اسماعیل خان جوہری کے نام سے مشہور تھے۔ وہ مائننگ کے کام میں والئ سوات اورنگ زیب خان کے پارٹنربھی رہے اور میرے والد، محمد اخترخان ٹیسوری جیمز اینڈ جیولری یعنی جواہرات کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

قیامِ پاکستان سے قبل بھی ہمارا خاندان یہی کاروبار کرتا تھا اور الحمدللہ، آج ہماری تیسری نسل اسی کاروبار سے منسلک ہے۔ جواہرات کے کاروبار کےعلاوہ ہمارا کنسٹرکشن کا بھی ایک وسیع نیٹ ورک ہے اور ہمارا خاندان ’’ٹیسوری گروپ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹیسوری گروپ کو 2010ء کی دہائی میں تین مرتبہ ’’بزنس مین آف دی ایئر سوشل اینڈ ویلفیئر ایوارڈ‘‘ ایوارڈ کے علاوہ نو مرتبہ ’’لارجسٹ ایکسپورٹ ٹرافی‘‘ اور دیگر متعدّد ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے، جب کہ سابق صدرجنرل پرویز مشرف نے مجھے ’’گولڈن سَن آف پاکستان‘‘ عطا کیا۔

س: آپ کی پیدائش کب اور کہاں کی ہے، تعلیم وتربیت کہاں ہوئی؟

ج: مَیں 17مئی 1974ء کو کراچی میں پیدا ہوا۔ کراچی کے مختلف اسکولوں سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام اسکول سے میٹرک کیا اور پھر سینٹ پیٹرکس کالج سے انٹر کے بعد بیچلرآف کامرس کا امتحان پاس کیا۔

س: کتنے بہن بھائی ہیں؟

ج: الحمدللہ، ہم پانچ بہن، بھائی ہیں۔ مَیں سب سے بڑا ہوں، میری اکلوتی بہن، شہلا صدیقی کے بعد تین بھائی، عمران ٹیسوری، عرفان ٹیسوری اور فرحان ٹیسوری ہیں۔ مجھ سمیت میری بہن اور دو بھائی شادی شدہ ہیں، جب کہ سب سے چھوٹا بھائی، فرحان حال ہی میں لندن سے تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹا ہے، وہ ابھی غیر شادی شدہ ہے۔

نمایندگانِ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمایندگانِ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے 

س: آپ کا بچپن کہاں اور کیسے گزرا، کوئی ایسی یاد ہے، جو آج بھی ذہن کے نہاں خانے میں محفوظ ہے؟

ج: میری پیدائش کراچی کے مشہور علاقے کھارادرکی ہے۔ مَیں جس گھر میں پیدا ہوا، وہ آج بھی ہماری ملکیت ہے، تو میرا بچپن زیادہ تر کھارادر کی گلیوں ہی میں گزرا۔ یوں تو بچپن کے لاتعداد واقعات ہیں، جو میری حسین یادوں میں محفوظ ہیں اور جنھیں یاد کرکے آج بھی لبوں پر ہنسی آجاتی ہے، مگر اپنے پتنگ بازی کے شوق کو کبھی نہیں بھولتا۔ 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دُھوپ میں پتنگ اُڑانے پر والدہ اکثر ٹوکتی تھیں کہ ’’دھوپ میں مت پھرو، رنگ کالا ہوجائے گا۔‘‘ مگر میرا یہ حال تھا کہ اکثرو بیش تر تو اندھیرا چھاجانے کے باوجود پتنگ اُڑانے میں مگن رہتا۔ آج سوچتا ہوں تو بے اختیار ہنسی آجاتی ہے کہ دن میں تو سب ہی پتنگیں اُڑاتے ہیں، مگر اندھیرے میں بھلا سفید پتنگ کون اُڑاتا ہے۔ لیکن آپ اس سے میرے پتنگ بازی کے شوق کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

س: آپ کا خاندان جے پور سے ہجرت کرکے کھارادر میں کیوں آباد ہوا؟

ج: پاکستان ہجرت کے بعد اس علاقے میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ تو بزرگوں کا تھا اور وجہ شاید یہ تھی کہ کھارادر، میٹھادر کے پرانے محلّے ’’گولڈ بلین‘‘ کے نام سے مشہور اس علاقے میں آج بھی سونے کا کاروبار ہوتا ہے۔ 

ہم نے اس علاقے میں اپنی زندگی کا بہت خُوب صُورت وقت گزارا۔ اور پھر ویسے بھی شروع میں ڈیفینس، کلفٹن وغیرہ منتقل ہونا تھوڑا عجیب سا لگتا تھا اور ہم اپنا یہ علاقہ چھوڑنا بھی نہیں چاہتے تھے، مگر1987ء میں والد صاحب کو اچانک دل کا شدید دورہ پڑا، تو ڈاکٹرز نے انہیں سیڑھیاں چڑھنے اُترنے سے سختی سے منع کردیا اور اُس زمانے میں ہماری رہائش بلڈنگ کے تیسرے فلور پر تھی، لہٰذا فوری طور پر اُسی سال ہم زم زمہ اسٹریٹ، ڈیفینس منتقل ہوگئے۔

س: آپ کاروبار سے سیاست کی طرف کیسے آئے؟

ج: کبھی کبھی زندگی میں کچھ ایسے اتفاقات پیش آجاتے ہیں کہ انسان اپنی فطرت و طبیعت کے برعکس فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ حکومتِ پاکستان نے ہمارے خاندان کو کاروبار کے حوالے سے نمایاں خدمات پر مختلف اعزازات سے نوازا۔ مَیں چار سال پاکستان بھر کی جیولرز ایسوسی ایشن کا چیئرمین رہا، 23سال کی عمر میں فیڈریشن کا انتخاب جیت کر منیجنگ رکن منتخب ہوا۔ 

اس کے علاوہ اوورسیز انویسٹمنٹ سمیت چیمبر آف کامرس فیڈریشن کی بینکنگ اینڈ فنانس کا بھی چیئرمین رہا۔ لیکن 2008ء میں جب پیپلزپارٹی برسرِاقتدار آئی، تو سندھ کے نومنتخب وزیر داخلہ، ذوالفقارمرزا نے مجھ پر موبائل فون اور موٹرسائیکل چوری سمیت تین چار بے بنیاد، جھوٹے کیسز بنادیئے۔ اُس وقت ہمیں احساس ہوا کہ پاکستان میں کاروباری طبقے کو تحفّظ میسّر نہیں۔ سراسر جھوٹے اور لغو مقدمات کے حوالے سے ہم جس سے بھی مدد کی درخواست کرتے، تو یہی کہا جاتا کہ ’’اگر آپ کی کوئی سیاسی وابستگی ہے، تو وہاں بات کریں، بصورتِ دیگر کوئی آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔‘‘ 

اگرچہ پیپلز پارٹی کو بھی بعد میں احساس ہوا کہ جس شخص کو وزیرداخلہ بنایا ہے، اُس نے نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، بلکہ شہر کے متعدد کاروباری افراد کے خلاف ایسے اوچھے ہتھکنڈے اور گھنائونے اقدامات کیے کہ جن کی وجہ سے لوگوں کو سخت پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔بہرحال، اس دوران میرے خاندان نے بے پناہ تکالیف و مصائب اور پریشانیوں کا سامنا کیا۔ مجھے آج تک یاد ہے، میری نئی نئی شادی ہوئی تھی، میری اہلیہ اُمید سے تھیں اور میرے گھرچھاپے مارے جارہے تھے۔ وہ انتہائی تکلیف دہ لمحات تھے۔ مجھے یہ سوچ کر بہت دُکھ ہوتا تھا کہ جس ملک کے لیے ہم نے اتنا سب کچھ کیا، وہاں ہمارے ساتھ کس قسم کا سلوک ہورہا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں پہلی ’’آئیڈیاز نمائش‘‘، پہلے ’’سارک گیمز‘‘ لاہور میں منعقدہ ’’بھارت اور پاکستان کے مابین پولو میچ‘‘ کے علاوہ ’’برائیڈل ایشیا‘‘ (جس کا اسپانسر ’’جیو ٹی وی‘‘ تھا) وغیرہ کے روحِ رواں ہم ہی تھے، جس مُلک کی تعمیر و ترقی کے لیے اتنی خدمات انجام دی ہوں، جس دھرتی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کر رکھا ہو، وہاں ایک جھوٹا موٹر سائیکل چوری کا کیس بنادیا جائے، تو خود سوچیں، اُس فیملی کا حال کیاہوگا۔ تو بس، اِن ہی وجوہ کی بنا پر مجھے احساس ہوا کہ مجھے بھی اس سسٹم اور سیاست میں آنا چاہیے، تاکہ مَیں بھی اپنے طور پر کم از کم ان بے گناہ و مظلوم لوگوں کی مدد کرسکوں، جونام نہاد سیاسی گرگوں کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔

س: بے بنیاد کیس بنانے کی کیا وجہ تھی؟

ج: دراصل وہ ہمارے خاندان کی زمینوں میں سے حصّہ مانگ رہے تھے۔ اس کے لیے باقاعدہ دبائو ڈال رہے تھے کہ نصف شیئر دے دیں، تو ہم چھوڑ دیں گے، لیکن ہمارے انکار پر انہوں نے بدترین انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ بعدازاں، پاکستان پیپلز پارٹی کے اس وقت کے کو چیئرمین، آصف زرداری نے بھی ناراضی کا اظہار کیا۔ 

مجھے سوفی صد یقین ہے کہ مرزا صاحب اپنے طور پر اپنے ذاتی مفادات کے لیے لوگوں کو بے جا تنگ کررہے تھے اور ان سے املاک میں اپنا حصّہ مانگ رہے تھے، لیکن ہم نے اُنھیں کچھ نہیں دیا۔ اور الحمدللہ، ان کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود تمام تر کیسز سے باعزت بَری ہوئے۔

جنگ: آغازِ سیاست کے لیے مسلم لیگ (فنکشنل) ہی کا انتخاب کیوں کیا؟

ج: مسلم لیگ (فنکشنل) جوائن کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میرا سیاسی رجحان پیرصاحب پگارا کی طرف تھا۔ نیز، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان کے اُس وقت کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار بھائی سے بھی میرے دیرینہ تعلقات تھے، تو 2018ء میں، مَیں اُن کے ساتھ شامل ہوگیا۔

س: ایم کیو ایم جوائن کرنے پر پیر صاحب پگارا ناراض نہیں ہوئے؟

ج: ایم کیو ایم جوائن کرنے سے قبل مَیں نے اُن سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔ آج بھی اُن سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے بھی اُن سے دو بار مِلا ہوں۔

س: والدین کی کون سی نصیحت آج بھی گرہ سے باندھ رکھی ہے؟

ج: ہمارے والدین نے ہمیں ہمیشہ امن و محبّت، خلوص و رواداری کا سبق دیا۔ مَیں نے جب سے ہوش سنبھالا، اس بات پر بہت فخر محسوس کرتاہوں کہ والد صاحب نے ہمیں کبھی کسی غلط بات پر سپورٹ نہیں کیا۔ اُنھوں نے ہمیشہ کہا کہ ’’کبھی کسی سے بلاوجہ لڑنا جھگڑنا نہیں، بڑوں کے سامنے ادب سے رہنا ہے اور اگر کبھی کوئی غلطی سرزد ہوجائے، تو فوراً معافی مانگ لو۔‘‘ اور مَیں اپنے بچپن کی اس تربیت پر آج بھی عمل پیرا ہوں۔ مجھ سے جہاں کوئی غلطی ہوتی ہے، فوراً معافی مانگ لیتا ہوں۔

س: بطور گورنرسندھ نام زدگی کا علم ہوا، تو کیا جذبات تھے؟

ج: بڑے عجیب و غریب سے احساسات تھے۔ وہ اتوار 12ربیع الاوّل کا مبارک دن تھا،صبح، اہلیہ کے ساتھ ناشتا کررہا تھاکہ اچانک ’’جیوٹی وی ‘‘پر بحیثیت گورنر سندھ تعیناتی کی بریکنگ نیوز آگئی۔ مَیں توقع کررہا تھا کہ تعیناتی کا اعلان پیر یا منگل کو ہوگا، مگر عین 12ربیع الاول کے مبارک دن مجھے یہ خوش خبری ملی، تو آنکھیں بھر آئیں۔ 

میری اہلیہ نے کہا کہ’’ آپ فوراً دو رکعت نماز شکرانہ ادا کریں کہ اس مبارک دن پر اللہ تعالیٰ نے یہ مقام و مرتبہ آپ کو دیا ہے۔‘‘ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اُس دن کی مناسبت سے میرے کیا جذبات و احساسات ہوں گے۔ مَیں اللہ تعالیٰ کا بے حد شُکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے انتہائی مبارک موقعے پر اس منصب پہ فائز ہونے کی نوید دی۔ اور مَیں تو سمجھتا ہوں کہ اس عہدے کے لیے مجھے اللہ کی طرف سے منظوری ملی۔

اہلیہ نبیہہ، بیٹی انوشہ اور بیٹوں زید اور تیمور خان کے ساتھ… ( عکّاسی: اسرائیل انصاری)
اہلیہ نبیہہ، بیٹی انوشہ اور بیٹوں زید اور تیمور خان کے ساتھ… ( عکّاسی: اسرائیل انصاری) 

س: آپ کے اس عہدے تک پہنچنے سے متعلق کئی کہانیاں، چہ میگوئیاں سننے میں آئیں۔ ذرا آپ خود اصل قصّہ ہمارے گوش گزار کردیں؟ 

ج: ایم کیوایم، پاکستان نے اتحادی حکومت سے معاہدے کے تحت گورنر سندھ کے لیے کُل پانچ نام دیئے تھے، اُن میں میرا نام نہیں تھا۔ پہلا نام، نسرین جلیل باجی کا، پھر عامر خان بھائی، وسیم اختر بھائی، کشور زہرا باجی اور عامر چشتی کے نام تھے۔ پانچ ماہ ہوگئے تھے، لیکن کسی وجہ سے اُن میں سے کوئی نام فائنل نہیں ہو رہا تھا۔ اس دوران چھے ماہ کی معطلی کے بعد میری رکنیت بحال ہوچکی تھی اور مَیں نے دوبارہ پارٹی جوائن کرلی تھی۔ 

اُن ہی دنوں رابطہ کمیٹی میں یہ بات ہوئی کہ گورنر کے لیے دیئے گئے ناموں میں سے کوئی نام فائنل نہیں ہورہا، تو کنوینر اورڈپٹی کنوینرز کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ مشاورت سے مزید دو نام شامل کرلیں۔ اس حوالے سے رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا، تو خواجہ اظہار بھائی نے میرا نام تجویز کیا، جسے عامر خان بھائی نے سیکنڈ کیا۔ 

پھر ڈپٹی کنوینرز، کیف الوریٰ اور عبدالوسیم بھائی نے مذکورہ تجویز کنوینر کو بھیجی، تو انھوں نے منظورکرکے صدر پاکستان کو بھیج دی، اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، مرتبہ اور عزت بخش دیتا ہے۔ تو بس، مَیں اپنے ربّ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس منصب کا اہل سمجھا اور اس مقام تک پہنچایا۔

س: بحیثیت گورنر نام زدگی کے بعد آپ کی تصاویر سامنے آئیں تو آپ کی مونچھوں اور ’’مولاجٹ اسٹائل‘‘ کا بھی بڑا چرچا رہا، اس پر کیا کہیں گے؟

ج: گورنر کا منصب سنبھالتے ہی میری ایک تصویر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جس پر مختلف انداز سے تبصرے کیے گئے، لیکن میں نے قطعی بُرا نہیں منایا اور سب کو یہی جواب دیا کہ کچھ عرصہ میرا کام اور میرا عمل دیکھیں، اگراس سے مطمئن نہ، ہوں، تو پھر آپ تنقید کا حق رکھتے ہیں، لیکن محض کسی کی شکل و صُورت، مونچھوں یا اس کے ذاتی کردار سے متعلق بات کرنا مناسب نہیں۔ 

وائرل ہونے والی وہ تصویر دراصل کراچی سے پیر جو گوٹھ تک کے آٹھ گھنٹے کے سفر کی ہے۔ مسلسل سفر، تھکن اور دھول مٹّی کے باعث تصویر اچھی نہیں آئی، جس پر سابق وزیراعظم صاحب نے ’’مولا جٹ‘‘ کی پھبتی بھی کس دی، تو مَیں نے تو اُن کا بھی شُکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان میں مولاجٹ کا کردار بہت اچھا اور مثبت ہے، تو اگر ایک مولاجٹ سندھ میں آگیا ہے، تو پہلے اس کا کام دیکھیں، پھر تنقید کریں، لیکن تنقید کام پر ہونی چاہیے، شکل و صُورت پر نہیں۔

س: آپ کے خیال میں صوبہ سندھ کے اہم، بنیادی مسائل کون سے ہیں؟

ج: یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ نااتفاقی ہے۔ سندھ وہ واحد صوبہ ہے، جہاں ایک طویل عرصے سے شہری اور دیہی آبادی کی بنیاد پر کوٹا سسٹم نافذ ہے۔ 60 اور 40 فی صد شہری اور دیہی تناسب کے باعث بہت سے کام نہیں ہوپاتے۔جہاں تک صوبے کے اہم اور بنیادی مسائل کی بات ہے تو فی الحال، ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سیلاب زدگان کی بحالی ہے۔ سیلاب متاثرین کو دوبارہ آباد کرنا، ہماری اوّلین ترجیح ہے۔ 

صوبے میں تعلیم، صحت اور اسپورٹس کے حوالے سے بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پارکس اور میدانوں کے فقدان کے سبب بہت بڑی آبادی کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصّہ لینے سے قاصر ہے۔ ہم سے پہلے یہاں جو لوگ تھے، اُن کے درمیان آپس میں ہم آہنگی کا سخت فقدان رہا، لیکن میری بھرپور کوشش ہے کہ سندھ حکومت کے ساتھ بھرپور اتحاد کی فضا قائم رکھتے ہوئے مل جل کر کام کریں۔

والد محمّد اختر خان ٹیسوری کے ساتھ
والد محمّد اختر خان ٹیسوری کے ساتھ 

س: صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ کس طرح کو آرڈینیٹ کررہے ہیں؟

ج: بہ حیثیت گورنر سب کو ساتھ لے کر چلنا میری ڈیوٹی میں شامل ہے۔ میری کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی اور باہمی اتفاق کے لیے پُل کا کردار ادا کروں۔ اسی امر کے پیشِ نظر تمام جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کررہا ہوں، اُن کے مسائل بھی سنتا ہوں۔ میری کوشش یہی ہے کہ سب کو ساتھ لے کرچلوں۔ الحمدللہ، وزیرِاعلیٰ سندھ، مراد علی شاہ بھی ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں۔ اور مَیں اس منصب پر فائز ہونے کے بعد متعدّد مسائل کے حل کے ضمن میں اُن سے کئی ملاقاتیں کرچُکا ہوں۔

س: سندھ کی سرکاری جامعات میں گورنر کے اختیارات بہ حیثیت چانسلر محدود کردیے گئے ہیں، اور زیادہ اختیار وزیرِاعلیٰ سندھ کو دے دیا گیا ہے، تو اس صورتِ حال کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

ج: جی، اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ سے بات چیت ہوچُکی ہے اور انھوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ کولیشن پارٹنر کی حیثیت سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے معاہدے کے مطابق جلد ہی جامعات کے اختیارات گورنر کو واپس کردیئے جائیں گے۔

س:حال ہی میں آپ نے تعلیمی اداروں میں قرآنِ مجید کی لازمی تعلیم سے متعلق وزیراعلیٰ سندھ کو ایک خط لکھا ہے، تو اس حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی؟

ج: جی ہاں، خط کے بعد وزیرِاعلیٰ صاحب سے باقاعدہ بات چیت ہوئی ہے اور اِن شاء اللہ آنے والے چند دنوں میں آپ سندھ ٹیکسٹ بُک کے نصاب میں قرآنِ مجید کی لازمی تعلیم کو شامل دیکھیں گے۔

س: موجودہ سیاسی صورتِ حال پرکوئی تبصرہ کرنا چاہیں گے؟

ج: بدقسمتی سے اس وقت مُلک میں معاشی و سیاسی طور پر ایک انتشار کی صورتِ حال ہے، حالاں کہ یہ وقت سیاست کا نہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تحریکِ انصاف کے سربراہ، عمران خان مُلک کو جس طرف لے جارہے ہیں، مُلک اس کا متحمّل نہیں ہوسکتا۔ اُنھوں نے افواجِ پاکستان کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ 

پاکستان کے عوام اپنی پاک فوج سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں، اُن سے بے حد پیار کرتے ہیں، وہ ہماری سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہیں، لیکن جس طرح پی ٹی آئی کی قیادت، کارکنان اور ووٹرز پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، یہ انتہائی خطرناک بات ہے، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ باشعور عوام جلد اِن کی باتیں رد کردیں گے اور ملک دشمن قوتوں کے عزائم کام یاب نہیں ہونے دیں گے۔

س: آپ کی پسندیدہ سیاسی شخصیت کون ہے،سیاسی رہنماؤں میں سے کون آپ کے دل کو بھایا؟

ج: ہم سب کے لیے مثالی سیاسی شخصیت، بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ہیں۔ جب کہ موجودہ سیاسی رہنماؤں میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔

س: کبھی کوئی سچّا دوست ملا، جس کی دوستی پر فخر محسوس ہو؟ فاروق ستار سے کیسے دوستی ہوئی؟

ج: میرے سب ہی دوست سچّے اور اچھے ہیں۔ فاروق ستار بھائی کے ساتھ 25 سے 30 سال پرانی رفاقت ہے۔ اُن کی اہلیہ، افشاں باجی اور میری اہلیہ کے خاندان کے امریکا سے دیرینہ تعلقات تھے، پھر دونوں خاندان پاکستان آگئے، تو یہاں بھی خاصا ملنا ملانا رہا۔ 

فاروق ستار بھائی ہردل عزیز شخصیت کے حامل ایک نفیس انسان ہیں۔ اُن سے سیاسی ہم آہنگی اور خاص طور پر کراچی اورصوبے کے لیے اُن کا کام کرنے کا جذبہ دیکھ کر ہی مَیں نے 2018ء میں ایم کیو ایم پاکستان جوائن کرنے کا فیصلہ کیا۔

س: ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور منہگائی کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

ج: جس رفتار سے منہگائی بڑھ رہی ہے، اُسی رفتار سے ملازمت پیشہ افراد، خصوصاً مزدوروں کی اجرت بڑھانی چاہیے اور میرے خیال میں موجودہ منہگائی کے حساب سے مزدور کی کم از کم اجرت پچاس ہزار روپے ماہانہ ہونی چاہیے۔

س: زندگی میں اگر اپنے ملک کے علاوہ کہیں اور جابسنے کا موقع ملے تو کہا رہناپسند کریں گے؟

ج: ترکیہ، استنبول۔

س: کھانا پکانے میں دل چسپی ہے، کون سی ڈشز اچھی لگتی ہیں یا خود بناسکتے ہیں؟

ج: تھوڑی بہت دل چسپی ہے۔ مَیں بریانی اور باربی کیو کے علاوہ مزے دار کڑاہی بھی بناسکتا ہوں۔

س: کس مصنّف یا شاعرکو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟

ج: ویسے تو بہت سے ہیں، لیکن شاعر، حکیم ناصر اور راغب مراد آبادی سے بہت قربت رہی۔ حکیم ناصر کے ساتھ بہت وقت گزارا، کئی سفر ساتھ کیے، عمرہ کیا، مختلف ممالک بھی ساتھ گئے۔ اسی طرح راغب مراد آبادی کے ساتھ بھی کافی وقت گزرا۔ اور مَیں ان دونوں کے کلام بہت پسند کرتا ہوں۔

س: لباس کون سا پسند ہے؟

ج: قومی لباس شلوار قمیص۔ مَیں زیادہ تر شلوار قمیص ہی پہنتا ہوں۔ تاہم، سرکاری مصروفیات اور تقریبات میں مجبوراً سوٹ پہننا پڑتا ہے۔

س: موسیقی کا شوق کس حد تک ہے اور پسندیدہ گلوکار کون ہے؟

ج: مجھے غزلیں سننے کا بہت شوق ہے۔ مہدی حسن اور غلام علی کی غزلیں سننے میں بڑا لُطف آتا ہے۔ ان کے علاوہ نورجہاں، لتامنگیشکر اور تصورخانم کے گانے بھی شوق سے سنتا تھا۔ جب بھی فرصت کے لمحات میسّر آتے ہیں، ان ہی کے گانے سنتا ہوں۔

س: اسپورٹس سے دل چسپی ہے، کون سے کھیل، کھلاڑی اچھے لگتے ہیں؟

ج: بچپن ہی سے مجھے ہاکی بہت پسند تھی اور حسن سردار کو بہت پسند کرتا تھا، جب کہ کرکٹ میں عمران خان اور جاوید میاں داد میرے پسندیدہ کھلاڑی رہے۔

س: کس بات پر غصّہ آتا ہے اور اگر آئے، تو ردِّعمل کیا ہوتا ہے؟

ج: جب سے اس منصب پر فائز ہوا ہوں، غصّہ ختم ہوگیا ہے، پہلے بہت آتا تھا، لیکن اب حیرانی ہوتی ہے کہ میرا غصّہ کہاں چلا گیا، مَیں تو اُسے اب ڈھونڈ رہا ہوں۔ ویسے مجھے بہت اچھی ٹیم مل گئی ہے، جس میں سرِفہرست میرے پرنسپل سیکریٹری، ڈاکٹر سیف الرحمن ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے، تو شاید غصّہ ختم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر سیف میرے ساتھ ہوتے ہیں۔

س: والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گے خصوصاً ماں کی محبت کو؟

ج: انسان کی زندگی میں یہ دو شخصیات ایسی ہیں کہ جن کی محبت و خلوص، ایثار و چاہت بیان نہیں کیے جاسکتے۔ مَیں نے تو انہیں ہمیشہ اپنی رُوح میں محسوس کیا ہے۔

س: آپ کا کوئی راز؟

ج: زندگی تو رازوں سے بھری پڑی ہے۔ اُنھیں راز ہی رہنے دیں، ویسے بھی لوگ دوسروں کے رازوں سے تو پردے اٹھاتے ہیں، مگر اپنے راز کبھی ظاہر نہیں کرتے۔

س: کس کے ساتھ شاپنگ کرنا پسند کرتے ہیں اورکیا بھائو تائو بھی کرتے ہیں؟

ج: بیگم کے ساتھ شاپنگ کرتا ہوں اور بھائو تائو بھی بہت کرتا ہوں، مَیں نے کبھی کوئی چیز ڈسکائونٹ کے بغیر نہیں خریدی۔

س: کیا اب بھی بیگم کے ساتھ شاپنگ کرتے ہیں؟

ج: جی، ابھی چند روز قبل ہی بیگم کی فرمائش پر طارق روڈ گیا تھا۔

س: گورنر بننے کے بعد آپ میں کیا بڑی تبدیلی آئی؟

ج: سب سے بڑی تبدیلی تو یہی ہے کہ میرا غصّہ ختم ہوگیا ہے، دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ زندگی کے روز مرّہ معمولات میں باقاعدگی آگئی ہے، بچپن میں جس طرح اسکول اور کالج جاتے تھے، تو لگتا ہے، وہ وقت دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔صبح ساڑھے دس بجے آفس پہنچنا، اہم امور نمٹانے کے بعد لوگوں سے ملنا ملانا، یوں سمجھ لیں تعلیمی دَور کی طرح ایک طرح سے روٹین میں آگئے ہیں۔

س: عوام النّاس خصوصاًسندھ کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: بس، مَیں چاہتا ہوں، سب امن و امان، یک جہتی کے ساتھ رہیں، ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ یقین کریں، جب آپ ایک دوسرے کے حقوق تسلیم کریں گے، اور مل جل کر چلیں گے، تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر نہ چل نکلے۔

’’بہت منکسر المزاج ہیں، اِن کی کوئی بات مجھے بُری نہیں لگتی‘‘، اہلیہ نبیہہ قریشی

گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی اہلیہ ،نبیہہ قریشی کا تعلق یوپی، بھارت سے ہے، دادا علی گڑھ سے تھے، جب کہ دادی کا تعلق دہلی سے تھا۔ انھوں نے اپنی شادی سے متعلق بتایا کہ ’’ہماری مکمل ارینجڈ میرج ہے، مَیں نے اے لیول تک تعلیم حاصل کی، جس کے بعد 2006ء میں نکاح اور 2008ء میں رخصتی ہوئی۔ 

میرے تین بچّے ہیں، ایک بیٹی دو بیٹے۔ بیٹی انوشہ خان تیرہ برس کی، جب کہ بیٹا زید خان ٹیسوری بارہ برس اور اس سے چھوٹا تیمور خان ٹیسوری پانچ برس کا ہے۔‘‘ شوہر سے متعلق کہتی ہیں کہ ’’اِن کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگتی، بہت عاجزانہ مزاج کے انسان ہیں، میرا بہت خیال، دھیان رکھتے ہیں۔ ہر ایک سے ہمیشہ عزت و احترام سے ملتے ہیں۔ گورنر کا منصب سنبھالنے سے پہلے بہت گھمایا پھرایا، لیکن گورنر بننے کے سوائے طارق روڈ پر شاپنگ کروانے کے اور کہیں لے کر نہیں گئے۔‘‘

’’ ٹیسوری‘‘ کا مطلب.....؟؟

موجودہ گورنر سندھ کامران خان کا خاندان ’’ٹیسوری خاندان‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ’’ٹیسوری دراصل اٹالین لفظ ہے، جس کے معنی ’’خزانہ‘‘ کے ہیں۔ یہ نام میرے والد کا تخلیق کردہ ہے۔ جب وہ 1965ء میں ہانگ کانگ گئے، تو وہاں اُنھوں نے جیولری کے علاوہ قلم، پرفیومز، والٹ اور لیدر کی دیگر مصنوعات کا بھی کاروبار کیا۔ 

اُس وقت تک ہماری کوئی کاروباری شناخت نہیں تھی، پھر جیسے جیسے ہماری مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا تو والد صاحب، جو ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کے بھی مالک ہیں، تو انہوں نے 1996ء میں اپنے تمام مصنوعات ’’ٹیسوری‘‘ کے نام سے متعارف کروانے کا آغاز کیا اور پھر جس طرح مختلف کاروبار سے کچھ کاروباری نام جُڑ جاتے ہیں، اسی طرح ہمارا کاروباری نام ’’ٹیسوری‘‘ معروف ہوگیا اور اب ہم اسی نام سے دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید