پاکستان کے سیاسی اُفق پر اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت کا ستارہ عروج پر ہے۔انکے مخالفین کی تمام تدبیریں الٹی پڑ رہی ہیں۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی ساری جماعتیں مل کر بھی عمران خان کی مقبولیت میں کوئی بڑا شگاف نہیں ڈال سکیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے بعض اقدامات کی وجہ سے عمران خان کا کرپشن کے خلاف بیانیہ مزید تقویت پکڑ رہا ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے جس تیزی سے اپنے مقدمات ختم کروائے ہیں، اس سے عمران خان عوام کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب رہے ہیں کہ اس حکومت کے اقتدار میں آنے کا واحد مقصد اپنے مقدمات ختم کرانا تھا،رانا ثناء اللہ کے منشیات کیس کی مثال تازہ ترین ہے۔
ان مقدمات کے سچا یا جھوٹا ہونے کی بحث اپنی جگہ لیکن غیر فطری طریقے سے ان مقدمات کے اختتام نے عمران خان کا مؤقف مزید مضبوط کیا ہے۔اس سے نہ صرف خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ انتخابات کی صورت میں وہ ایک مرتبہ پھر حکمرانی کے منصب پر فائز ہوتے نظر آرہے ہیں۔
عمران خان نے لانگ مارچ کے اختتام پر صوبائی اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا، یہی اعلان اس وقت پاکستان کی سیاسی بیٹھکوں میں موضوع گفتگو ہے۔
اگرچہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے کھل کر یہ اعلان کیا تھا کہ عمران خان کی ہدایت کے بعد وہ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پنجاب اسمبلی توڑ دینگے، اسی طرح چوہدری مونس الٰہی نے بھی عمران خان کیلئے کھلے عام اپنی سیاسی وفاداری کا اظہار کیا تھا لیکن اس کیساتھ ساتھ چوہدری پرویزالٰہی عمران خان کو یہ حقیقت باور کرانے میں ایک حد تک کامیاب رہے ہیں کہ ان کی حکومت کی وجہ سے تحریک انصاف کے کئی ترقیاتی منصوبے روبۂ عمل ہیں۔
اس کیساتھ ساتھ انہیں انتظامی اور سیاسی سپورٹ بھی حاصل ہو رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے ضلعی سطح پر کام کرنے والے رہنما آزادی سے کام کر رہے ہیں اور انتظامیہ میں بھی ان کا اثر و نفوذ قائم ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے اندر بھی ایک بڑا طبقہ یہ چاہتا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے پر اصرار کرنے کی بجائے ان اسمبلیوں میں واپسی پر غور کریں۔ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے استعفوں نے انتظامی طور پر اسے بہت نقصان پہنچایا ہے۔
پی ڈی ایم نے اپنی مرضی کے شخص کو اپوزیشن لیڈر مقرر کیا، جن کی سیاسی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مختلف جماعتوں کے گھاٹ سے سیراب ہونے کے بعد ان دنوں وہ حکومت کے نامزد کردہ اپوزیشن لیڈر ہیں، پارلیمانی تاریخ میں اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟
ایک اوسط درجے کے سیاسی رہنما کو حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق اپوزیشن لیڈر بھی نامزد کر دیا اور پھر آئینی اور قانونی تقاضے پورا کرتے ہوئے چیئرمین نیب سمیت کئی اہم عہدوں پر تقرریاں اپوزیشن لیڈر کی ’’مشاورت‘‘سے اپنی مرضی کے مطابق کر ڈالیں۔ تحریک انصاف اگر اسمبلی میں موجود ہوتی تو حکومت کو یوں کھل کھیلنے کا موقع نہ ملتا، اب یہی صورتحال صوبائی اسمبلیوں کی بھی ہے۔ تحریک انصاف نے اگر ان اسمبلیوں کو برقرار رکھا تو اس سے انہیں جو سیاسی اور انتظامی فوائد حاصل ہورہے ہیں وہ جاری رہیں گے لیکن اگر وہ ان اسمبلیوں سے نکل گئے تو پھر آئندہ نگران سیٹ اَپ کس کی مرضی سے آئے گا؟
یہ سمجھنے کیلئے کسی سائنس کی ضرورت نہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت تحریک انصاف کے رہنماؤں کیساتھ کیا سلوک کریگی یہ اندازہ لگانے کیلئے اعظم سواتی پر قائم کئے جانیوالے مقدمات اور انکی پیشیاں کافی ہیں۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی نے مشترکہ طور پر جو حکمتِ عملی طے کی ہے اس میں دونوں جماعتوں کا فائدہ نظر آرہا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ گراس روٹ لیول سے ملک کی قومی سیاست تک انتخابات کی باریکیوں اور نزاکتوں سے خوب آگاہی رکھتے ہیں، انکے سیاسی تدبر کو بروئے کار لاتے ہوئے پارلیمان کی سیاست میں کردار جاری رکھنا چاہئے۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان کی سیاست میں مزید توازن لانے کیلئے عمران خان کو قومی اسمبلی میں بھی واپس آنا چاہئے اور اپوزیشن جماعت کے طور پر ایک مؤثر اور متحرک کردار ادا کرنا چاہئے۔
اب کوئی ذی شعور شخص اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنے ہی بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے،مہنگائی اور افراطِ زر کی شرح بلندترین سطح کوچھو رہی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں، موجودہ صورتحال میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔
پی ڈی ایم حکومت کے عوام دشمن رویے اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سلسلے نے مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک پر کاری ضرب لگائی ہے اور عام آدمی تو اس ساری صورتحال سے لاتعلق ہوگیا ہے۔اس نازک صورتحال میں عمران خان کی مقبولیت اور چوہدری پرویز الٰہی کا تدبر ملکی استحکام کا باعث بنے گا۔
آئندہ انتخابات میں کون سی جماعت حکومت بنائے گی ؟یہ تو تب دیکھا جائے گا، تاہم آج کے حالات میں تحریکِ انصاف کو سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمانی سیاست کو مضبوط کرنا ہوگا۔
پی ٹی آئی کی صفوں میں پرویز خٹک جیسے دھیمے مزاج کے لوگ موجود ہیں جنہیں اپوزیشن بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، انہیں اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہئےکیونکہ پارلیمنٹ کی مضبوطی سے ملک کی مضبوطی ہے۔ پارلیمان پر جتنا زیادہ اعتماد کیا جائیگا، ملکی استحکام کیلئے یہ اتنا ہی اچھا شگون ہوگا۔