3 شہریوں کو غیرقانونی حراست میں رکھنے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز نے لاہور ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
عدالتِ عالیہ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے شہری نصر اللّٰہ کی درخواست پر سماعت کی جس کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز افضال کوثر، ایس پی سی آئی اے شمس درانی اور ایس پی انویسٹی گیشن کینٹ پیش ہوئے۔
عدالت نے کہا کہ اتنی بدمعاشی آج تک نہیں دیکھی جتنی لاہور پولیس کر رہی ہے، ہر بندہ پولیس سے ڈرتا ہے، اتنا ظلم نہ کریں۔
عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز کو ذمے دار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر کارروائی کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے پولیس حراست سے بازیاب ہونے والے 2افراد کی ہتھکڑیاں کھلوا دیں۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ میرے 2 بیٹوں اسد اور علی رضا کو پولیس نے اٹھایا ہے، تینوں مغوی افراد کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا، پولیس نے تینوں کوحراست میں لیتے وقت فیملی کے سامنے انہیں برہنہ کر کے ان پر تشدد کیا، تھانہ مناواں اور باٹا پور پولیس نے بیان دیا کہ یہ افراد پولیس کو مطلوب نہیں، بیان دینے کے بعد پولیس نے ترمیمی بیان میں انہیں مقدمے میں ملوث کر کے گرفتار کر لیا، بیلف نے یہ دونوں افراد سی آئی اے کی حراست سے بازیاب کرائے ہیں۔
جسٹس محمد سرفراز ڈوگر نے ایس پی سی آئی اے سے استفسار کیا کہ آپ یہ افراد اپنے پاس کیسے رکھ سکتے ہیں؟
ایس پی سی آئی اے نے جواب دیا کہ ہم نے ایس ایچ او مناواں کے کہنے پر انہیں راہ داری پر رکھا ہوا تھا۔
جسٹس محمد سرفراز ڈوگر نے کہا کہ ایک اشتہاری کو پکڑنے کے لیے پولیس نے پورے خاندان کا جینا حرام کر رکھا ہے، ایس پی سی آئی اے شمس درانی اچھے پولیس افسر نہیں ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور افضال کوثر نے کہا کہ میں پولیس افسران کی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔
جسٹس محمد سرفراز ڈوگر نے کہا کہ ڈی آئی جی صاحب اپنے افسروں کو عدالتوں میں پیش ہونا سکھائیں، ایک بات یاد رکھیں کہ سی آئی اے ریگولر پولیس نہیں ہے۔
اس موقع پر ایس پی سی آئی اے عدالت سے اپنی غلطی کی بار بار معافی مانگتے رہے۔
جسٹس سرفراز ڈوگر نے کہا کہ ایسے پولیس افسر اس محکمے میں نہیں رہیں گے۔
اس دوران ڈی آئی جی آپریشنز افضال کوثرنے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور کہا کہ میں شرمندہ ہوں، اس معاملے میں گڑ بڑ ہوئی ہے، میں انکوائری کر کے ایس ایچ اوز کی حد تک ایکشن لیتا ہوں۔
جسٹس سرفراز ڈوگر نے انہیں حکم دیا کہ آپ ذمے داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف ایکشن لیں اور آئندہ سماعت پر عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔