گزشتہ ہفتے کئی برسوں بعد لندن میں پاکستانی بائیں بازو کی کسی سیاسی پارٹی کا اچھا اکٹھ دیکھنے کو ملا۔ یہ عوامی ورکرزپارٹی کا کنونشن تھا۔ جس کے نصف حصے کو سیاسی تقاریر اور دوسرے نصف کو آرٹ اور کلچر کے مظاہرے میں تقسیم کیا گیا جس سے نہایت خوشگوار اور پرلوچ ماحول بنا۔ مجھے یاد پڑتا ہے 89-1988ء کے زمانے میں جب اے این پی پاکستان میں نومولود تھی۔ ولی خان، رسول بخش پلیجو اور حاکم علی زرداری وغیرہ اسکے لیڈر تھے۔ میں بھی اس پارٹی کے ساتھ سرگرم تھا۔ تو اس طرح کے پرجوش پروگرام ہم پارٹی پلیٹ فارم سے ہی لندن میں کیا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ بائیں بازو کی سیاست کو ایسی نظرلگی کہ بقول ابن انشاء وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں۔ اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سرپر ہو۔ پھر تو بایاں بازو تو دور کی بات جمہوریت کی بات کرنا ہی بھولتا چلا گیا۔ بائیں بازو کی سیاست اور نعروں کو لوگ بھولنا شروع ہوگئے۔ نہ ایشیا سرخ رہا نہ گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دینے والوں میں سکت۔ جمہوریت والوں میں ہر طرف کبھی کوئی جیوے کبھی کوئی صرف جیوے جیوے رہ گیا۔ جو ابھی تک جاری ہے کبھی لاڑکانا والے، کبھی تخت لاہور والے، کبھی بنی گالہ والے اور کبھی کراچی والے۔ عوام تو فقط محو تماشا ہیں حیران ہیں، سکتے میں ہیں۔ ایسی ہی پاکستان میں ہونے والی سیاست کی عکاسی لندن کی پاکستانی سیاست میں بھی ہوتی رہتی ہے اس لئے میں کہتا ہوں AWPنے ایک جمود کو توڑا۔ جس پر اس پارٹی کے مقامی منتظمین ڈاکٹر توحید، ڈاکٹر افتخار، منیب انور یحییٰ ہاشمی، محترمہ عینی، مصطفیٰ کمال اور دیگر ارکان بہرحال مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کنونش کے کلچرل حصے میں آریب اظہر کی گائیکی اور آمنہ کے رقص کے ساتھ جو رنگ نذہت عباس نے جمایا وہ دیدنی تھا۔ پروفیسر امین مغل، راحت سعید، شوکت کشمیری بھی اس تقریب میں آخر تک موجود رہے۔یہ تو ہوگئی اس کنونش کی بلے بلے۔ اب ذرا اسکے سیاسی پہلوئوں پر بھی تھوڑی کھٹی میٹھی ہوجائے، لیکن میٹھی میٹھی پہلے اور کھٹی ذرا بعد میں چکھتے ہیں۔ پاکستان سے کنونشن میں شرکت کے لئے آنے والوں میں عابد حسن منٹو اور اختر حسین تھے۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق ویزا نہ ملنے کی وجہ سے نہ آسکے جسکا کنونش میں نہ ذکر ہوا نہ احتجاج۔ اور لوگوں کی طرح فاروق طارق کا مجھے بھی شدت سے انتظار تھا۔ تاہم آئی اے رحمٰن صاحب کی کنونشن میں موجودگی اور باتوں نے کنونشن کے وزن میں اضافہ کردیا۔ عابد حسن منٹو صاحب کی ایک دو اہم باتوں کا بہرحال ذکر ضروری ہے۔ جس میں انہوں نے پارٹی کے سینئر نائب صدر اختر حسین کی پارٹی کا عنقریب جنرل سیکرٹری مقرر ہونے کی خبردی کیونکہ پارٹی کا کوئی بھی عہدے دار دو سال کے لئے منتخب ہوتا ہے اور دو ٹرم سے زیادہ عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس لحاظ سے منٹو صاحب خود بھی پارٹی کے صدر نہیں رہیں گے۔ آئندہ صدارت کے لئے فانوس گجر کا نام لیا جارہا ہے اور فاروق طارق AWPکے ترجمان مقرر ہوجائیں گے۔ منٹو صاحب کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ پارٹی اب اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی ہے اور چل پڑی ہے۔ ایک اہم بات جو منٹو صاحب نے اپنے ایک کارکن کی باتوں کے جواب میں کہی وہ بہت اہم تھی کہ لوگ بائیں بازو کی سیاست کو مذہب سے متصادم سمجھتے ہیں جس مغالطے کا اذالہ ضروری سمجھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم مذہب کے خلاف نہیں، لیکن اگر ریاست اپنا کوئی مذہب رکھےگی تو دیگر مکاتب فکر کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گی۔ اسلئے سیکولر ریاست کا مذاہب سے تصادم نہیں بلکہ تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مخصوص مائنڈ سیٹ نے بائیں بازو کے خلاف مذہب دشمنی کا بہت جھوٹا پراپیگنڈہ کررکھا ہے۔ حالانکہ سیکولرازم اختلاف رائے اور دوسرے کے عقیدے کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ منٹو صاحب اپنی عمر اور صحت کے باوجود جس پختہ اور باحوصلہ کمٹمنٹ میں نظرآئے وہ شرکاء کے لئے بہت حوصلہ مند بات تھی۔ اختر حسین جوکہ پارٹی کے سینئر نائب صدر ہیں اور اکتوبر میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہوجائیں گے ان کی تقریر میں مجھے کافی آئیڈیل ازم محسوس ہوا۔ ان کا عملی سیاست میں دوستوں کے Pick and Choseکا معیار خاصا سخت محسوس ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ان کے ذاتی تجربات کی تلخی کی وجہ سے ہو۔ وہ نیشنلسٹوں کو بائیں بازو کی سیاست سے ہی خارج سمجھتے ہیں۔ البتہ نظریاتی تعلیم اور کام پر زیادہ فوکس کرنے والے محسوس ہوئے۔ کنونشن میں لندن کی تنظیم کے حوالے سے جو بہترین بات محسوس ہوئی وہ اس میں نوجوانوں اور خواتین کی شرکت ہے جوکہ بہت مثبت پیش رفت کہی جاسکتی ہے۔ البتہ کنونشن میں کچھ چیزوں کی تشنگی بھی بہت تھی۔ یعنی نہ تو کوئی قراردادیں منظور کی گئیں اور نہ ہی سیاست کے فوری تضادات کے حوالے سے مستقبل کی عملی سیاست کا طریقۂ کار زیربحث آیا۔ پاکستان کی سیاست میں پارٹی کی کیا ترجیحات ہیں۔ مستقبل کے دوست کون ہیں اور مخالف کون۔ کن قوتوں سے اشتراک عمل ممکن ہے یا پارٹی صرف سولو فلائی کرے گی۔ ان باتوں کا نرا فقدان محسوس ہوا۔ البتہ منٹو صاحب نے عمران خان کے نئے پاکستان کے حوالے سے دلچسپ بات کی کہ عمران خان کا نئے پاکستان کا تصور اسکے خود کے اقتدار میں آنے سے مشروط ہے۔ عمران خان آجائیں گے تو پاکستان نیا ہوجائے گا اور ان کے ساتھ جو پرانے پرانے پنڈت موجود ہیں۔ وہ بھی نئے ہوجائیں گے اگر انہیں اقتدار نہ ملا تو سب برے رہیں گے۔ تاہم جو نوجوان نسل عمران خان کی وجہ سے متحرک ہوئی ہے یہ تمام وہ لوگ ہیں جو دراصل ملک کو پرانی دقیانوسی سیاست سے تو آزاد کرانا چاہتے ہیں لیکن وہاں بائیں بازو کی متحرک متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ان وژن سے خالی نعروں کے پیچھے چلے گئے ہیں جس میں ان نوجوانوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ خیریہ ایسے ایشوز ہیں جو بحث طلب ہیں کہ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے کیا امکانات ہیں اور یہ کس طرح ایک سیاسی متبادل کے طور پر دیگر دائیں بازو کی پارٹیوں کی طرح سیاسی افق پر ابھرسکتی ہے۔ البتہ شرکاء کو اس کنونشن کی فقط ایک غیرسیاسی بات پر تکلیف اور برداشت سے گزرنا پڑا وہ تھا شرکاء کو پانچ چھ گھنٹے تک بغیر کسی کھانے پینے کی سہولت مہیا کئے بٹھائے رکھنا، اسے ورکرز پارٹی کے کنونشن کے منتظمین کی ہنرمندی کے سوا اور کیا کہاجاسکتا ہے کہ کامریڈوں سے بھوکے پیٹ تقریریں، ڈانس، گانا سب کچھ کروا لیا لیکن امید ہے اگلی مرتبہ ’’سوکھے اوپر مل ماہیا‘‘ کی روایت کو ریویو کریں گے۔ انہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ پاکستان کی دیگر روائتی پارٹیاں تو روٹی کھلا کے جلسے، جلوس، مظاہرے، دھرنے وغیرہ تک کروالیتی ہیں حتیٰ کہ ووٹ بھی لے لیتی ہیں۔ خیر یہ ٹریننگ بھی وقت کے ساتھ ہوجائے گی۔ ویسے باقی سب اچھا تھا۔