• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملزم کی بریت کے باوجود جیل میں موجودگی اختیارات کا غلط استعمال ہے، سندھ ہائیکورٹ

سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ملزمان کو بریت کے باوجود جیل میں رکھنا اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

سندھ ہائیکورٹ کراچی میں ملزمان کو 90 روز کےلیے نظر بند کرنے کے خلاف سماعت کا تفصیلی فیصلہ سامنے آگیا۔

عدالت عالیہ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کی نظر بندی کے احکامات سنی سنائی باتوں پر جاری کیے گئے، اس نوٹیفکیشن سے لگتا ہے کہ محکمہ داخلہ نے میڈیا کے دباؤ پر فیصلہ کیا۔

سندھ ہائیکورٹ نے فیصلے میں مزید کہا کہ جوڈیشل انکوائری کرائی جائے تو نوٹیفکیشن دیے گئے جواز میں سے تنکا بھی ثابت نہیں ہوگا۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ بریت کے باوجود ملزمان کی نظر بندی عدالت کے فیصلے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔

سندھ ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ اس طرح کے ہھتکنڈے ڈینیئل پرل کیس اور پی آئی ڈی سی بم دھماکا کیس میں بھی استعمال کیے گئے تھے۔

عدالت عالیہ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ عدالتی احکامات کے باوجود احمد عمر شیخ اور حمید بگٹی کو ایم پی او کے تحت نظر بند کیا گیا تھا۔

سندھ ہائیکورٹ نے فیصلے میں صاف الفاظ میں کہا کہ ملزمان کو بریت کے باوجود جیل میں رکھنا اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ سندھ حکومت کے وکیل کے عدالت کو سماعت کا اختیار نہ ہونے کی دلیل غیر ضروری تھی۔

سندھ ہائیکورٹ کے مطابق اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی جانب سے ملزمان کی نظر بندی سے متعلق کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، ایس ایس پی غربی کا دعویٰ تھا کہ رہا ہونے والے ملزمان سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔

عدالت عالیہ نے فیصلے میں کہا کہ ایس ایس پی غربی اس حوالے سے کوئی شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے۔

سندھ ہائیکورٹ کے مطابق جو انٹیلی جنس رپورٹ پیش کی گئی وہ کسی ایجنسی کے لیٹر ہیڈ پر نہیں تھی، رپورٹ پر کوئی دستخط تھے نا ہی کوئی اسٹیمپ تھی۔

ملزمان بریت کے 9 دن تک ایریا میں نظر نہیں آئے اور نہ ہی چیئرمین او پی پی کو دھمکی آمیز کالز آئیں، پولیس رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے، پولیس نے شہریوں کی آزادی کو اہمیت نہیں دی ہے۔

قومی خبریں سے مزید