ایسا ہر گز نہیں کہ عمران خان بالکل سچ نہیں بولتے۔ کبھی کبھی بول لیتے ہیں لیکن ادھورا یا پھر اس کا سیاق و سباق غلط کردیتے ہیں۔’’ سچ ہےکہ جنرل باجوہ نے پاکستان کو تباہ کردیا ‘‘ یہ بول کر بھی عمران خان نے بالکل ایسا ہی کیا۔ بلاشبہ پاکستان جنرل باجوہ کے دور میں تباہی کے دہانے پر آکھڑا ہوا لیکن سوال یہ ہے کہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے ایسا کیوں، کس کیلئے اور کس کے ذریعے کیا؟ پورا سچ یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو اقتدار دلوانے اور پھر ان کے اقتدار کو دوام دینے کیلئے سیاست، عدالت، الیکشن کمیشن ، میڈیا اور دیگر اداروں کو مفلوج بناکر، آزادی اظہار پر قدغنیں لگا کر اور سب سے بڑھ کر اپنے ادارے کو متنازعہ کرکے پاکستان کو تباہی کے راستے پر گامزن کیا لیکن یہ سب کچھ انہوں نے عمران کی خاطر اور عمران خان کے ذریعے کیا۔ یہ سب کچھ انہوں نے بدنیتی نہیں بلکہ نیک نیتی سے کیا کیونکہ انہیں عمران خان نے باور کرایا تھا کہ وہ ملک کیلئے مسیحا ثابت ہوں گے۔ اس مشن میں جنرل قمر جاوید باجوہ اکیلے بھی نہیں تھے بلکہ جنرل فیض حمید اور جنرل آصف غفور وغیرہ بھی ان کے ہمرکاب بلکہ اس معاملے میں ان کے مرشَد بنے ہوئے تھے۔ عمرانی پروجیکٹ 2010 میں شروع ہوا تھا۔ جنرل پاشا، جنرل راحیل شریف، جنرل رضوان، جنرل عاصم سلیم باجوہ اور بالخصوص جنرل ظہیرالاسلام نے اس پروجیکٹ پر خاطر خواہ سرمایہ کاری کی تھی۔ فوج کے سربراہ کی حیثیت سے یہ پروجیکٹ جنرل باجوہ کو ورثے میں ملا تھا۔ بس غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنی شخصیت اور مزاج کے مطابق پورے خلوص کے ساتھ دل و جان سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے اور ان کے سیاسی اور صحافتی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کیلئے خالص فوجی طریقے سے کام لیا۔ پروجیکٹ کو عملی شکل دینا چونکہ جنرل فیض حمید اور جنرل آصف غفور کی ذمہ داری تھی جن کے کام کا انداز بڑا جارحانہ تھا اور دونوں کی عمران خان سے محبت بھی انتہا پر تھی یا پھر دونوں کا مستقبل ان سے جڑ گیا تھا، اس لئے انہوں نے خود بھی بڑے افراط و تفریط سے کام لیا اور جنرل باجوہ سے بھی ایسا کروایا۔ اس معاملے میں بابا رحمتے، جسٹس(ر) کھوسہ اور ان کے ہم خیال ججوں نے بھی بھرپور حصہ ڈالا۔ جاوید اقبال کا کردار سب سے زیادہ شرمناک رہا۔ طاہرالقادری سے لے کر چوہدری برادران تک اور زرداری سے لے کر سراج الحق تک (زرداری نے الیکشن سے قبل عمران خان کیلئے سیاسی بساط بچھانے میں اپنا حصہ ڈالا جبکہ سراج الحق نہ صرف گزشتہ دور میں عمران خان کے اتحادی رہے بلکہ پانامہ کے معاملے میں بھی ایک مہرے کے طور استعمال ہوئے) بھی عمرانی پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی وقت پر استعمال ہوئے۔ میڈیا کے وہ اینکرز، تجزیہ کار اور مالکان، جو اب سب کچھ باجوہ کے گلے میں ڈال رہے ہیں، نے بھی ریٹنگ اور پیسے کے چکر میں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے ایما پرعمران خان کو مسیحا کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ سوشل میڈیا پر انویسٹمنٹ اپنی جگہ پر تھی۔ مغربی قوتوں اور ایک پڑوسی اسلامی ملک کا کردار اس کے علاوہ تھا۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کس نے کس کو دھوکہ دیا اور کس نے کس کے ساتھ ڈبل گیم کی؟۔ میں چونکہ عمرانی پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی راہ میں حسب استطاعت رکاوٹ بننے کی کوشش کررہا تھا اور اس جرم کی بنیاد پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صحافیوں کی صف میں شامل ہوں ، اس لئے میں زیادہ تر معاملات کا عینی شاہد بھی ہوں۔ الیکشن سے قبل حامد میر صاحب اور ارشاد بھٹی صاحب کے ہمراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ایک میٹنگ کی روداد پہلے کالم میں لکھ چکا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی ، وہ مجھے عمران خان کی حمایت کیلئے قائل کرتے رہے ۔ وہ خان سے مخلص تھے یا پھر ان کی کامیابی اور ناکامی کو اپنی کامیابی اور ناکامی سمجھ رہے تھے ۔ان کے دور میں نواز شریف ، زرداری اور قوم پرست جماعتوں سے زیادتی ہوئی، مذہبی جماعتوں سے ہوئی اور ہم جیسے عمران خان کے نقاد میڈیا پرسنز اور اداروں سے ہوئی لیکن عمران خان پر صرف اور صرف مہربانی ہوتی رہی۔ اگر پہلے جنرل ظہیرالاسلام اور پھر جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم کے لوگ عدلیہ، نیب، الیکشن کمیشن اور میڈیا کے ہاتھ پائوں عمران خان کے حق میں نہ باندھتے تو نہ صرف عمران خان کا وزیراعظم بننا ناممکن تھا بلکہ پارٹی فنڈنگ اور اسی طرح کے دیگر کیسز میں وہ گزشتہ انتخابات سے قبل نااہل ہوکر کسی جیل میں پڑے ہوتے ۔وزیراعظم بنوانے کے بعد ان کی حکومت چلوانے کیلئے بھی جنرل باجوہ جس حد تک عمران خان کے ساتھ گئے ، اتنا شاید نواز شریف بھی شہباز شریف کے ساتھ نہ جاسکیں ۔ عمران خان اپنی حرکتوں سے ایک ایک دوست ملک کو ناراض کرتے اور جنرل باجوہ ان کیلئے مناتے رہے ۔ فیٹف سے لے کر اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ دلوانے تک ہر معاملے میں جنرل باجوہ ان کی خاطر ہر انتہا پر گئے ۔ جنرل باجوہ میڈیا سے کھیلے، عدلیہ سے کھیلے ، اپوزیشن سیاستدانوں سے کھیلے اور کئی قوتوں کے ساتھ ڈبل گیم بھی کی ، لیکن عمران خان سے مخلص تھے اور ڈبل گیم نہیںکی تو عمران خان کے ساتھ نہیں کی جبکہ دوسری طرف عمران خان شروع دن سے ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے رہے ۔ بلکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ مرکز میں اقتدار سے محرومی کے بعد بھی عمران خان اگر بچے رہے اور ان کے ساتھ نواز شریف وغیرہ والا سلوک نہیں ہوا، تواس میں بھی جنرل باجوہ کا بڑا ہاتھ ہے لیکن آج جب جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہوئے تو ان کے دور میں زیرعتاب رہنے والے نوازشریف، زرداری ، مولانا اور قوم پرست لیڈر تو خاموش ہیں تاہم عمران خان کبھی انہیں پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار اور تو کبھی ڈبل گیم کھیلنے والا قراردے رہے ہیں ۔ حالانکہ ملک تباہی کے راستے پر گامزن ہوا ہے تو عمران خان کے ہاتھوں ہوا ہے یا پھر ان کیلئے ہوا ہے کیونکہ ملک اداروں کا نام ہے اور ادارے عمران خان کیلئے یا پھر ان کے ہاتھوں بے وقعت ہوئے ۔ ایک انتہائی زیرک سیاستدان، جو مسلم لیگ چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ گئے اور اب مایوس ہیں ،نے جب میرے سامنے فریاد کی تو عرض کیا کہ آپ تو جہاندیدہ انسان ہیں آپ کیسے دھوکہ کھا گئے۔ انہوں نے ایک فقرے میں یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ جو شخص پوری فوج اور تمام ایجنسیوں کو دھوکہ دے سکے، اس کیلئے مجھے دھوکہ دینا کونسا مشکل کام تھا۔