یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ پنجاب کے عوام کو ان کا حق نہ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے، یہ کوئی نیا انکشاف نہیں بلکہ یہ کارروائی جنرل مشرف کے زمانے سے جاری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجاب صرف ن لیگ کا گڑھ نہیں بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا قلعہ بھی ہے۔ اس قلعے کی سیاسی قوتوں میں شگاف ڈالنے کی روایت پرانی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں پہلے مارشل لاء کے حواری اس قلعے پر قابض رہے پھر ق لیگ دریافت کی گئی۔ ن لیگ کو انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا اور اس کے کارکنوں اور قیادت کو صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کا دور آیا، پنجاب کی حکومت تو ملی مگر ہر وقت گورنر راج کا خطرہ منڈلاتا رہا۔ 2013ء کے بعد جیسے ہی ن لیگ کو حکومت ملی عمران خان ساتھ ہی دھرنا لے کر وفاق پر چڑھ دوڑے، وہ جو خدمت کو عزت دینے کی بات کرتے تھے، وہ چور، ڈاکو، لٹیرے کے نام سے بدنام کر دیے گئے۔ کبھی پانامہ آیا کبھی اقامہ لیکن ایک دن بھی سکون سے حکومت نہیں کرنے دی گئی، جو پروجیکٹ اس دوران ن لیگ نے مکمل کئےوہی آج تک پنجاب کا اثاثہ ہیں، اسکے علاوہ ترقی کے نام پر بس کاغذی کارروائی ہی ہوئی ہے۔ عمران خان کے دور میں عثمان بزدار جیسے کمزور شخص کو وزیر اعلیٰ لگانے کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ اس کو فرنٹ مین بنا کر خوب من مانی کی جائے، جس طرح پنجاب کو اس دور میں لوٹا گیا اسکی مثال نہیں ملتی ۔ اہل پنجاب جو شہباز شریف کے طرزِ حکمرانی کے عادی تھے وہ سلطنت ایک مٹی کے مادھو کے حوالے کر دی گئی۔ پنجاب پر ن لیگ نے بہت عرصہ حکومت کی ہےاور اس عرصے میں بہت اچھے اچھے کام بھی ہوئے ہیں مگر اس کا خراج نہ دینے کا فیصلہ کہیں ہو چکا ہے۔کسی زمانے میں پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ بھی رہا ہے لیکن دو ہزار تیرہ کے بعد رفتہ رفتہ پنجاب میں پیپلز پارٹی دم توڑ گئی۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کی کئی کوششیں کیں مگر ان کوششوں میں سنجیدگی نہیں نظر آئی۔ پیپلز پارٹی پنجاب کا ووٹر بدظن ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکا ہے، اس سیاسی خلا کو تحریک انصاف نے پر کردیا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے متنازعہ انتخابات میں جہاں دھاندلی کی بہت سی شکایات ملیں ، یہ بھی پتہ چلا کہ پی ٹی آئی پنجاب میں ایک حقیقت بن چکی ہے ۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی اگرچہ نادیدہ ہاتھ ملوث ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر اپنے ہی قلعے میں بیس میں سے سترہ نشستیں ہار جانا ن لیگ کے لئے لمحہ فکریہ ہےجبکہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں صورت حال مختلف نظر نہیں آئی۔ دو ہزار تیئس کے عام انتخابات کب ہوتے ہیں کسی کو علم نہیں ۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ حکومت کو معیشت کی بحالی کا وقت نہ ملے اور حکومت کی تمنا ہے کہ اسکی میعاد میں جتنا اضافہ ہو سکے اتنا بہتر ہے۔ خان صاحب کبھی کوئی اسمبلی توڑنے کی نوید سناتے ہیں کبھی کسی نئے فتنے کو آواز دیتے ہیں۔ ان حالات میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ گومگو میں ہے لیکن جب بھی الیکشن ہونے ہیں، کیا ن لیگ اسکے لئے تیار ہے؟ کیا وہ صرف نواز شریف کی واپسی پر تکیہ کئے ہوئے ہے یا پھر ووٹر کو اپنی طرف مائل کرنے کا کوئی حیلہ بھی انکے پاس ہے؟
مسلم لیگ ن کی بڑی غلطیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی دوسرے صوبوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی پنجاب کو دی ہے۔ سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان میں ن لیگ کا ووٹر موجود ضرور ہے مگر وہ اپنے مرکزی قائدین کی راہ ہی تکتا رہتا ہے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں ن لیگ کو پنجاب سے ہی اتنی نشستیں مل جاتی تھیں کہ انہیں حکومت بنانے کے لئے دوسرے صوبوں کی کم ہی ضرورت پڑتی تھی لیکن اس دفعہ صورت حال مختلف ہے۔ اس دفعہ انتخاب کی جنگ کا اصل میدان ہی پنجاب ہو گا، اگر اس صوبے میں عمران خان کا جادو چل گیا تو ن لیگ کا سیاسی مستقبل بہت مخدوش ہے۔
ابھی الیکشن میں اگرچہ کچھ وقت باقی ہے، ن لیگ کو اپنی تمام تر توانائیاں پنجاب میں صرف کرنا پڑیں گی، صرف یہ کہہ دینے سے کہ نواز شریف نے امیدواروں کی فہرستیں منگوا لی ہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پنجاب کو اگر انتخابی طور پر فتح کرنا ہے تو پنجاب کے عوام کو کوئی سیاسی بیانیہ دینا ہو گا، مزاحمت کا نعرہ تخلیق کرنا ہو گا، مفاہمت سے جان چھڑانا ہو گی۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ن لیگ پنجاب میں ’’لاہور دا پاوا ‘‘ جیسی ٹک ٹاک تو بنا سکتی ہے، انتخاب نہیں جیت سکتی۔