سب سے پہلے تو حسب ِ سابق یہ ضروری گذارش کہ یہ ایک مختصر سا جائزہ ہے اور اس میں ان تمام کتابوں کا ذکر ممکن نہیں جو ایک سال کے عرصے میں شائع ہوئیں۔ ویسے بھی کوئی فرد ِ واحد تمام نئی کتابوں تک رسائی نہیں رکھتا اور اگر رکھتا بھی ہوتو انھیں پڑھ نہیں سکتا کیونکہ ہر سال بہت بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ لہٰذا کسی کتاب کا ذکر یہاں نہ ملے توبد گمان ہونے کے بجائے اسے محض اس عاجز طالب علم کے تساہل، تجاہل اور تغافل پر محمول کیجیے گا۔ یہ جائزہ دوہزار بائیس کی پاکستانی اردو نثر تک محدود ہے۔
دوہزار بائیس کا سال ادبی لحاظ سے یوں بہتر رہا کہ کورونا کے بعد زندگی معمول پر آگئی اور کتابوں کی تصنیف و اشاعت کا کام اور ادبی سرگرمیاں بھی بحال ہونے لگیں۔ البتہ اس سال جہاں مہنگائی نے صارفین کی کمر توڑ دی وہاں کاغذ کی گرانی نے کتابوں کی طباعت کو مشکل بنادیا۔ کاغذ کچھ عرصے تو نا یاب ہی رہا پھر بمشکل دست یاب ہونا شروع ہوا تو اس کی قیمت سن کر ناشرین نے سر پکڑ لیا اور جو کتابیں اس مہنگے کاغذ پر چھپ کر آئیں ان کی قیمت دیکھ کر قارئین کے ہوش اڑ گئے۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ کاغذ کی گرانی نے کتابوں کو عام قاری کی رسائی سے بہت دور کردیا ہے۔ دراصل ملک میں کاغذ زیادہ تر بیرون ِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اورڈالر میں منگوانا پڑتا ہے۔اب ہم ڈالر کی قیمت میں کمی کی دعا ہی کرسکتے ہیں۔ اگر یہ صورت برقرار رہی تو کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا رجحان مزید کم ہونے کا اندیشہ ہے۔
دوسری قباحت یہ ہوئی کہ ملک میں سیلاب نے سڑک اور ریل کے ذریعے رابطے کو کچھ عرصے کے لیے کہیں مشکل اور کچھ علاقوں میں بالکل ناممکن بنادیا۔ اس صورت حال سے کتابوں کی ترسیل بھی متاثر ہوئی اور بعض تاجران ِ کتب نے راقم کو بتایا کہ کتابوں کی ڈاک کے ذریعے ترسیل بعض علاقوں کے لیے کچھ عرصے بالکل بند رہی اور اس سے کتابوں کی فروخت پر برا اثر پڑا۔
البتہ اس سال ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ کتب میلے، ادبی نشستیں ، ادبی اداروں اور جامعات کی کانفرنسیں دو بارہ پورے زور و شور سے انعقاد پذیر ہونے لگیں ، نئی کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں اور ایسا محسوس ہوا کہ کورونا کے دنوں کی تلافی ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر دسمبر ۲۰۲۲ء میں کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ عالمی اردو کانفرنس میں پہلے سے زیادہ اہل علم، اہل قلم اور ادب سے محبت کرنے والے شامل ہوئے۔
افتتاحی اجلاس میں تو عالم یہ تھاکہ سماعت گاہ میں ایک نشست بھی خالی نہیں تھی اور کئی لوگوں کو باہر ہی سے واپس لوٹنا پڑا۔ اسی طرح دوسرے شہروں میں بھی ادبی کانفرنسوں میں لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔ کتب میلے تواتر سے منعقد ہوئے اور ان میں کتابوں کی رعایتی قیمت پربڑی تعداد میں فروخت کے ذریعے پڑھنے والوں نے ایک بار پھر ناشرین اورتاجران ِ کتب کو یہ پیغام دیا کہ کتاب اچھی ہو اور قیمت بھی معقول ہو تو اب بھی کتاب خریدنے اور پڑھنے والے بہت ہیں۔
اب آتے ہیں اس سال شائع ہونے والی کتابوں کے مختصر جائزے کی طرف۔
……داستان……
داستانوں کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ فرصت کے زمانوں کی پیداوار تھیں اور ناول اور پھر افسانے کے عروج نے ان کی مقبولیت ختم کردی۔
لیکن داستانیں اپنے اندر دل چسپی اور تحیر کے عناصر کے علاوہ تہذیبی عناصر اور الفاظ و محاورات کامتنوع ذخیرہ بھی رکھتی ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بطور خاص گذشتہ دو دہائیوں میں داستان پراپنے تنقیدی خیالات اور تجزیوں کے ذریعے اسے زندہ کرنے کی کوشش کی۔
اس کا ایک نتیجہ یہ نکلاکہ کچھ داستانیں دوبارہ بھی شائع ہوئیں۔ مثلاً سید محمد حسین جاہ کی معروف داستان طلسم ِہوش ربا کو مشرف علی فاروقی نے بہت محنت سے مرتب کیا اور اس کی پہلی جلد بھی شائع کردی۔
……فکشن ……
نیلم احمد بشیر نے مسلسل لکھا ہے اور دور ِ حاضر میں اردو افسانے کابڑا نام سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے افسانوں کی کلیات’’ نیلاہٹیں : مجموعہ نیلم احمد بشیر‘‘کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ نیلو فر اقبال بھی کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ گھنٹی شائع ہوا۔ نجیبہ عارف محقق اور شاعر تو ہیں ہی افسانے بھی لکھتی ہیں اور ان کے افسانوں کا مجموعہ میٹھے نلکے اکادمی بازیافت نے شائع کیا۔
……تحقیق و تنقید ……
امسال بھی حسب ِ معمول تحقیق و تنقید کی گرم بازاری رہی اور تحقیقی اور تنقیدی موضوعات پر بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہوئیں۔
فاطمہ حسن کا نام تنقید کے ضمن میں معروف ہے۔ان کی کتاب اردو شاعرات اورنسائی شعور: سو برس کا سفر شائع ہوئی۔ اس میں انھوں نے اس شاعری کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لیا ہے جو گذشتہ سو سال میں شاعرات نے اردو میں تخلیق کی اور اس میں اپنی عصری اور نسائی حسیت کو پیش کیا ۔کراچی آرٹس کونسل نے ضمیر علی بدایونی کی دو کتابیں یعنی جدیدیت اور مابعد جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کا دوسرارخ ایک جلد میں یک جا شائع کیں۔
ناصر عباس نیرکا نام جدیدیت، مابعد جدیدیت اور مابعد نوآبادیاتی مطالعوں کے لیے معروف ہے اور اس میں شبہہ نہیں کہ ان کا مطالعہ اور گرفت ان موضوعات پر مثالی ہے۔ ان کی نئی کتاب یہ قصہ کیا ہے معنی کا سنگ میل نے شائع کی۔ اس میں جدید تنقیدی نظریات کا اردو ادب پر عملی اطلاق نظر آتا ہے جبکہ طالب علم عام طور پر شکایت کرتے ہیں کہ اردو میں ان مباحث کو صرف نظری طور پر بیان کیا جاتا ہے اور اس کا عملی اطلاق اردو ادب پر ہوتا نظر نہیں آتا۔ امید ہے وہ اس کتاب سے مطمئن ہوں گے۔
وطن ِ عزیز کی آزادی کے پچھتر سال مکمل ہونے پر پاکستان اکادمی ادبیات نے پچھتر سالہ جائزے پر مبنی متعدد کتب شائع کیں اور یہ ایک یادگار کام ٹھہرے گا کیونکہ مستقبل کے ادبی مورخ اور قاری دونوں پاکستانی ادب کی تاریخ کے لیے ان کتابوں کو ضرور دیکھیں گے، اس سلسلے میں جو کتابیں اکادمی نے شائع کی ہیں وہ یہ ہیں: پاکستان میں اردو ناول (از رفاقت حیات)، پاکستان میں اردو ادب کی تاریخ (از غفور شاہ قاسم)، پاکستان میں اردو غزل (از خاور اعجاز)، پاکستان میں اردو نثری نظم (از انعام ندیم)، پاکستان میں اردو افسانہ (مرزا حامد بیگ) اور پاک سرزمین شاد باد (از خورشید ربانی)، اس موخر الذکر کتا ب میں قومی نغموں اور گیتوں کا پچھتر سالہ انتخاب بھی شامل ہے۔
اورنگ زیب نیازی کی اردو ادب
ماحولیاتی تناظر کی اشاعت اردو تنقید میں ایک نئی جہت روشناس کرانے کی کوشش ہے۔ صائمہ ذیشان کا تحقیقی مقالہ اردو میں اسلامی ادب کی تحریک شائع ہوئی، ناشر ہیں مکتبۂ تعمیر ِ انسانیت ، لاہور۔
ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کا تعلق ہندوستان سے ہے لیکن پاکستان سے بھی ان کی بعض ادبی کاوشیں سامنے آچکی ہیں اور اس سال نعت ریسرچ سنٹر نے ان کا تحقیقی کام اردو میں معراج نامے :تاریخ و تجزیہ شائع کیا۔ اس کتاب میں عربی اور فارسی میں معراج ناموں کی روایت پر تحقیق کے بعد انھوں نے اردو کے معراج ناموں کی روایات اور ان کا تجزیہ تحقیقی اور علمی نداز میں پیش کیا ہے۔
سوانح ،خود نوشت ، یادداشتیں
مولانا جمال الدین عبدالوہاب فرنگی محلی کی سوانح عمری انگریزی میں فرانسس رابنسن نے لکھی تھی۔ ڈاکٹر خالد ندیم نے اس کا اردو ترجمہ کیا جو اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے’’جمال میاں ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ پاکستان اکادمی ادبیات کا ایک سلسلہ پاکستانی ادب کے معمار : فن اور شخصیت کے نام سے ہے اور اس موضوع پر اب تک دوسوکے قریب کتب شائع کی جاچکی ہیں۔ اس سال اس سلسلے میں جن اہل قلم پر کتب شائع کی گئیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: ایوب صابر ، تحسین فراقی اور نجیب جمال۔
یونس جاوید کی خود نوشت فقط ایک آنسو شائع ہوئی۔طارق محمود کی خود نوشت دام ِ خیال منظر ِ عام پر آئی۔ یادداشتوں اور سوانح کی ایک صورت مصاحبہ یعنی انٹرویو بھی ہے۔ لطف اللہ خان مرحوم ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ٹیپ ریکارڈر کی آمد کے ساتھ ہی اس پر آوازیں محفوظ کرنا شروع کردی تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے آواز کو محفوظ کرنے کی نئی تکنالوجی آتی گئی وہ اس سے ہم آہنگ ہوکر مشاہیر کی آوازوں کو محفوظ کرنے کاکام کرتے گئے او رمرحومین کے علاوہ زندہ مشاہیر کے انٹرویو کرنے شروع کیے۔
اس طرح ان کے پاس آوازوں اور مصاحبات کا ایک انمول خزانہ جمع ہوتا گیا۔ ان مصاحبوں میں اردو کے بعض نامور لوگوں کی آوازیں ، خود ان ہی کی زبانی ان کی سوانح اور خیالات و افکار محفوظ ہوگئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انٹرویو لینے والوں میں بھی بعض نامور ادیب اور اہم شخصیات شامل تھیں ، مثلاً مشفق خواجہ، رفیق خاور، ابو سلمان شاہجہاں پوری، احسان رشید اور خود لطف اللہ خان۔ ڈاکٹر خورشید عبداللہ نے ان آوازوں کو کمپیوٹر پر محفوظ کرلیا اور راشد اشرف اور ثوبیہ شفیق نے انھیں تحریری صورت میں پیش کردیا۔ آواز خزانہ کے نام سے یہ انٹرویو تین جلدوں میں شائع بھی ہوگئے۔ ان میں بعض اہم اور نادر ادبی و علمی نکات بھی موجود ہیں۔ بعض میں اہم انکشافات بھی ہیں، مثلاً ظ انصاری اور رشید حسن خاں کے انٹرویو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
……خاکے ……
معروف ڈراما نگار، استاد اور فکشن نویس اصغر ندیم سید کے لکھے ہوئے خوب صورت خاکوں کا مجموعہ پھرتا ہے فلک برسوں سنگ میل نے شائع کیا۔ ان میں سے کچھ خاکے ادبی جرائد میں بھی نظر سے گزر چکے ہیں اور اہل ذوق سے داد پاچکے ہیں۔ محقق اور استاد پروفیسر یونس حسنی کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ گہر ہائے شب چراغ کے نام سے شائع ہوا ۔ غلط اردو لکھنے کے اس دور میں حسنی صاحب فصیح ، بامحاورہ اور خوب صورت اردو لکھتے ہیں۔
اسلوب میں روانی ہے۔ انعام الحق جاوید کہنہ مشق شاعر اور ادیب ہیں اور ایک بھرپور ادبی زندگی گزاری ہے، اسی لیے ان کی یادداشتیں دل چسپی اور معلومات سے پُر ہیں۔ ان کی پینتالیس سال پر پھیلی ڈائریوں پر مبنی یادداشتوں کا مجموعہ آئینۂ ماہ و سال سنگ ِ میل نے شائع کیا۔ اس کتاب میں، بقول مصنف کے، آپ بیتی اور جگ بیتی ساتھ ساتھ ہیں۔ شاکر حسین شاکر کی یادداشتوں کا مجموعہ علی منزل شائع ہوا۔
……مزاح ……
مزاح کے چمن پر خزاں چھائی ہوئی ہے۔ ایسے میں مزاح کی اکا دکا نئی کتابیں غنیمت معلوم ہوتی ہیں ہیں لیکن ان میں بعض عجیب مسائل ہوتے ہیں۔ مثلاًکرن خان کی مزاح نگر شائع ہوئی۔ لیکن قاری کو مصنفہ کی تحریر تک پہنچنے کے لیے تو صیفی آرا پر مبنی آٹھ دیباچوں کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے اور بیشتر قارئین کا پائوں وہیں رپٹنے کا اندیشہ ہے کیونکہ ان تحسینی آرا لکھنے والوں میں سے صرف دوتین ہی صحیح معنوں میں معروف مزاح نگار یا ادیب ہیں۔ خدا جانے اردو کے لکھنے والے اور ناشرین ان رسمی باتوں کے دائرے سے کب نکلیں گے؟ لکھنے والے کو اپنی تحریر پر اعتماد ہوتو کسی تعارفی یا تعریفی دیباچے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت بہت تو چند مختصر آرا عقبی ورق پر دی جاسکتی ہیں۔
……عروض و بیان و بدیع ……
سید ابرار حسین کی کتاب اردو بحریں نیشنل بک فائونڈیشن نے دوبارہ شائع کردی ، کتاب دل چسپ اور آسان انداز میں عروض کے اسرار بیان کرتی ہے۔ ڈاکٹر مزمل حسین کا پی ایچ ڈی کا مقالہ جو بیان و بدیع پر تھا اور مجلس ترقی ادب سے شائع ہوا تھا ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور شائقین میں اس کی طلب برقرار تھی، چنانچہ اسے دوبارہ اردو میں علم بیان و بدیع کے مباحث کے عنوان سے شائع کیا گیا۔
عروض کے موضوع پر ایک اوراچھی کتاب ارشد محمود ناشاد کی شائع ہوئی جس کا نام مبادیات ِ بیان و بدیع و عروض ہے۔ اس مختصر کتاب میں آسان انداز میں عروض اور متعلقہ موضوعات پراظہار خیال کیا گیا ہے، طالب علموں کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔
……سفرنامہ ……
محققین اس بات پر اکثر اختلاف کرتے نظر آتے ہیں کہ برعظیم پاک و ہند میں یورپ کا سفرنامہ سب سے پہلے کس نے لکھا۔ مرزا ابو طالب خان المعروف بہ ابو طالب لندنی ۱۷۹۹ء میں لندن گئے تھے اور ان کا سفرنامہ’’میسر ِ طالبی فی بلاد ِ افرنجی‘‘ جو فارسی میں لکھا گیا(یہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا اور پہلی بار ۱۸۱۳ء میں چھپا)، اس ضمن میں پہلا سفرنامہ سمجھا جاتا ہے۔
علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے محقق پروفیسر اصغر عباس صاحب (افسوس گذشتہ دنوں ان کا انتقال ہوگیا) کا کہنا تھا کہ شیخ احتشام الدین ۱۷۶۵ء میں لندن گئے اور ان کا فارسی سفرنامہ شنگرف نامۂ ولایت ابو طالب کے سفرنامے سے پہلے شائع ہوا تھا۔ لیکن بعض محققین اسے سفرنامہ نہیں مانتے کیونکہ وہ بہت مختصر ہے۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو یوسف خان کمبل پوش کا سفرنامہ عجائبات ِ فرنگ اردو کاپہلا سفرنامہ سمجھا جاتا ہے اور یہ اس نے ۱۸۴۷ء میں لکھا ۔
لیکن اب نجیبہ عارف نے برعظیم پاک و ہند میں فارسی میں لکھے گئے یورپ کے دو نادر سفرنامے دریافت کرکے مرتب کردیے ہیں جو الفیصل (لاہور) نے جنوبی ایشائی مسلمانوں کا تصور ِ مغرب : اٹھارھویں صدی کے دو نادر سفرنامے کے نام سے ایک جلد میں شائع کیے ہیں۔ ان میں سے پہلا سفرنامہ ٔ روس و چین ہے جو محمد عبداللہ نے ۱۷۶۲ء اور ۱۷۷۱ء کے درمیانی عرصے میں لکھا۔ دوسرا سفرنامہ منشی اسمٰعیل کا ہے جو انھوں نے تاریخ ِ جدید کے نام سے ۱۷۷۱ء اور ۱۷۷۳ء کے درمیان قلم بند کیا۔ نجیبہ عارف نے انھیں ترتیب اور تحشیہ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اصل متن کے ساتھ اردو ترجمے اور ایک محققانہ مقدمہ اس کتاب کی وقعت میں اضافہ کرتے ہیں۔
……کالم……
یونس حسنی صاحب کے اخباری کالموں کا مجموعہ ’’دفتر کھلا ‘‘ رنگ ِادب نے شائع کیا۔
……زبان و لغت ……
لسانیات کے موضوع پر اردو میں جدید نوعیت کے مباحث پر مبنی کتابوں کی کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چار پرفیسروں یعنی شیراز دستی، محمد نعمان ، بی بی امینہ اور لیاقت اقبال نے مل کرایک کتاب لکھی جو’’ لسانیات :ایک جامع تعارف ‘‘کے نام سے اوکسفرڈ نے شائع کی۔ مفید کتاب ہے جو طالب علموں کو جدید لسانیاتی نظریات اور اہم مباحث سے آگا ہ کرتی ہے۔
اردو املا کے انتشار اور اختلافات کو مد نظر رکھتے ہوئے ادارۂ فروغ ِ قومی زبان (سابقہ مقتدرہ قومی زبان)نے اردو املا کے موضوع پر ایک کل پاکستان سیمینار منعقد کیا جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ماہرین اور اساتذہ نے اردو املا کے ضمن میں اپنی سفارشات پیش کیں جنھیں ادارے نے سفارشات ِ اردو املا ۲۰۲۲ء کے عنوان سے شائع بھی کردیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اس طرح کے ایک سیمینار کا اہتمام انیس سو چھیاسی میں ڈاکٹر وحید قریشی نے کیا تھا اور سفارشات ِ اردو املا کتابی صورت میں شائع کی تھی۔ امید ہے اردو املا پر اس طرح کے سیمیناروں کا سلسلہ اب جاری رہے گا۔
غلام مصطفی خان صاحب کی ثقافتی اردو اور راجیشور راو اصغر کی قِران السعدین مع مجمع البحرین بھی ادارۂ فروغ ِ قومی زبان نے دوبارہ شائع کردیں۔پنہ بلوچ نے بڑی محنت سے بلوچی لغت لوز گنج کے نام سے مرتب کرکے شائع کی۔یہ درحقیقت چار زبانوں کی لغت ہے اور اس میں بلوچی الفاظ کے معنی سندھی، براہوی اور اردو میں دیے گئے ہیں۔ عبدالخالق تاج کی مرتبہ لغت شینا اردو لغت ’’تاج اللغات ‘‘ کے نا م سے شائع ہوئی۔
ڈاکٹر خالد حسن قادری لندن یونیورسٹی میں استاد تھے اور زبان اور لغت پر گہری نظر رکھتے تھے، ان کا ایک کام جامعہ کراچی نے تین حصوں میں متروکات کی لغت کے نام سے شائع کیا جس پر شمس الرحمٰن نے اعتراض کیا کہ اس کا نام نادر الفاظ کی لغت ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس کے بیش تر اندراجات ان الفاظ و تراکیب پر مشتمل ہیں جو آج بھی مستعمل ہیں اور متروک نہیں ہوئے۔
بعدازاں قادری صاحب نے وضاحت کی کہ انھوں نے اس کتاب کا یہ نام ہرگز نہیں رکھا تھا۔ چنانچہ یہ کتاب جب ہندوستان سے ایک جلد میں شائع ہوئی تو اس کا نام لفظیات رکھا گیا تھا۔قادری صاحب ایک اور کام الفاظ کا طلسم کے نام سے کررہے تھے جس کی کچھ قسطیں ’’جنگ‘‘ میں بھی شائع ہوئیں، بعدازاں یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔ البتہ اس کا مسودہ غالب لائبریری میں موجود تھا جسے راقم الحروف نے لفاظ کا طلسم ہی کے نام سے مرتب کردیا اور اسے سٹی بک پوائنٹ (کراچی) نے شائع کیا۔
……اقبالیات……
اس سال بھی اقبالیات پر کئی کتابیں شائع کی گئیں ۔ اس موضوع پر بعض پرانی کتب کی بار ِ دِگر اشاعت بھی عمل میں آئی ، مثلاً فرزند ِ اقبال نے علامہ اقبال کی جو سوانح زندہ رود کے نام سے لکھی تھی اس کا ڈاکٹر راشد حمید نے اپنی کتاب زندہ رود کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ میں جائزہ لیا تھا، اور یہ کتاب اب اقبال اکیڈمی نے دوبارہ شائع کردی ہے۔
اقبا ل اکیڈمی ڈاکٹر بصیرہ عنبریں کی قیادت میں بہت سرگرم ہوگئی ہے اور بڑی تعداد میں علمی مجالس کے انعقاد کے علاوہ نئی کتابوں کی اشاعت اور پرانی کتابو ں کے نئے ایڈیشنوں کی طباعت بھی جاری ہے۔ دوہزار بائیس میں اکیڈمی نے کثیر تعداد میں کتابیں شائع کی ہیں، افسوس کہ ان سب کا ذکر یہاں ممکن نہیں ہے۔
رفیع الدین ہاشمی کی کتاب اقبالیاتی ادب میں اقبال پرپچھلے کم و بیش چالیس برسوں میں کیے گئے کاموں کا جامع انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب بزم ِ اقبال (لاہور ) نے شائع کی ہے۔ خالد ندیم نے علامہ اقبال کی اردو نثر کو مرتب کیا اور اسے نشریات (لاہور)نے کلیاتِ نثرِ اقبال کے نام سے شائع کیا۔ اس میں اقبال کے دیباچے، مضامین، تقاریظ ، تقاریراور دیگر نثری آثار جمع کردیے گئے ہیں۔
……ادبی رسائل ……
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کی ادارت میں ادبی پرچے ارقم کا کشمیر نمبر شائع ہوا جس میں کشمیر ی زبان ، تہذیب ، ادب اور تاریخ کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔کشمیریوں کی جدو جہدِ آزادی کی جھلکیاں بھی اس میں ہیں۔ نعت رنگ کا نیا شمارہ شائع ہوا۔ دیگر ادبی پرچے مثلاً مکالمہ(کراچی)، قومی زبان (کراچی)، الحمرا(لاہور)، اردو(کراچی)، اخبار اردو(اسلام آباد)تواتر سے شائع ہوتے رہے۔بعض سہ ماہی اور شش ماہی ادبی رسالے بھی شائع ہوئے لیکن وہ اب سال نامے بن گئے ہیں اور سال بھر میں بمشکل ایک شمارہ نکل پاتا ہے۔
جامعات کے تحقیقی جرائد کو بھی کچھ مسائل کا سامنا ہے اور اگرچہ کئی جامعات کے شعبہ ہائے اردو نے اپنے تحقیقی پرچے شائع کیے لیکن ان میں تسلسل اور باقاعدگی کا فقدان ہے اور بعض تحقیقی جرائد خاصے عرصے سے غائب ہیں۔ پھر جامعات کے تحقیقی جرائد میں اب کچھ عرصے سے معیار کافقدان نظر آنے لگا ہے اور اب ان رسالوں کا مصرف صرف یہ ہے کہ ترقی کے خواہش مند اساتذہ اپنے کچے پکے مضامین کو مقالوں کے نام پر چھپوا سکیں۔ ان تحقیقی جرائد میں اب نام نہاد مقالات (جو تحقیقی نہیں محض تنقیدی ہوتے ہیں) شائع کرانے کے لیے پروفیسر حضرات کو اچھی خاصی رقم بھی خرچ کرنی پڑتی ہے اور ان پرچوں کے مدیران بھی پیسے لینے کے بعد معیار پر سمجھوتا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ادبی رسالے ادبی دنیا میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ ان میں بعض اہم لکھنے والوں کی تحریریں شائع ہوکر ادبی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں بلکہ ادبی جرائد معاشرتی ، علمی، ادبی اور لسانی رجحانات اور تحریکات کے اولین سمت نما اور تاریخ بھی ہوتے ہیں۔ اردو کے ادبی رسالوں کی کساد بازاری ایک پریشان کن معاملہ ہے۔