سوال ہی سوال۔ جدھر بھی جائو لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں ہیجان اور بے یقینی کب ختم ہوگی؟ مہنگائی کب قابو میں آئیگی؟ دہشت گردی پھر سے کیوں شروع ہوگئی؟ پاکستان کا کیا بنے گا؟
اکثر لوگ اپنے سوال کے بعد اپنی پسند کا جواب سننا چاہتے ہیں۔ پسند کا جواب نہ ملے تو پھر وہ اپنی پسند کا جواب آپ پر مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں گے۔ برداشت کم ہو رہی ہے اور لوگوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ بڑھ رہی ہے۔
نوجوان دو سوال بار بار پوچھ رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر عمران خان کو نااہل قرار دے دیاگیا تو پھر کیا ہوگا؟ دوسرا یہ کہ اگر عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں تو کیا وہ پاکستان کی زوال پذیر معیشت کو سدھار لیں گے؟
پہلے سوال کا جواب تو بڑا سادہ ہے۔ عمران خان ایک مقبول سیاستدان ہیں لیکن ان کی نااہلی سے کوئی طوفان نہیں آئیگا کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی مقبول سیاستدان نااہل نہیں ہونیوالا۔
گستاخی معاف! وطن عزیز میں تو تحریک پاکستان کے عظیم رہنمائوں کو نہیں بخشا گیا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے قائد اعظمؒ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد عوامی نمائندوں کو نااہل قرار دینے کیلئے ’’پروڈا‘‘ کے نام سے ایک قانون منظور کرایا گیا۔ قائد اعظمؒ کے ساتھیوں نے قائد اعظمؒ کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا۔ مسلم لیگیوں نے مسلم لیگیوں کو نااہل قرار دیا۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان نے سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ افتخار ممدوٹ سمیت کئی سیاستدانوں پر کرپشن کا الزام لگا کرانہیں نااہل قرار دلوایا۔ یہ کالا قانون وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 6 جنوری1949 کو پارلیمینٹ سے منظور کرایا لیکن اسے 14 اگست 1947سے نافذ العمل قرار دیا گیا۔ عدالت صرف تحقیقات کرتی تھی۔ سزا کا اختیار گورنر جنرل اور صوبائی گورنروں کو دیدیا گیا۔
دلچسپ پہلو یہ ہےکہ ایوب کھوڑو نے شریف الدین پیرزادہ کو اپنا وکیل بنایا اور بھرپور قانونی جنگ کے بعد انکی نااہلی ختم ہوگئی۔ وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اس سیاہ قانون کو انہوں نے اپنا ہتھیار بنا کر مخالفین کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔
اس قانون کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم محمدعلی بوگرہ نے کوشش شروع کی جو بنگالی تھے۔ انہوں نے پہلے تو پروڈا کو ختم کیا پھر گورنر جنرل غلام محمد کے اختیارات کم کرنے کیلئے قانون تیار کرلیا لہٰذا گورنر جنرل نے قانون ساز اسمبلی ہی توڑ دی۔ پاکستان بنانے والے آپس میں لڑ رہے تھے اور عوام کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس کیساتھ کھڑے ہوں۔
سیاستدانوں کی لڑائیوں کا فائدہ اٹھا کر جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 7اگست 1959ءکو جنرل ایوب خان ایبڈو کا قانون لائے جسکی سزا چھ سال تک نااہلی رکھی گئی۔ بہت سے جغادری سیاست دانوں نے عدالتوں میں ایبڈو کے تحت الزامات کا سامنا کرنے کی بجائے رضاکارانہ طور پر چھ سال کی نااہلی قبول کرلی۔
رضاکارانہ نااہلی قبول کرنے والوں میں یوسف ہارون، ممتاز دولتانہ، افتخار ممدوٹ، ایوب کھوڑو، نواب مظفر علی قزلباش، مخدوم زادہ حسن محمود، عبدالحمید دستی، عبدالستار پیرزادہ، پیر الٰہی بخش اور قاضی فضل اللہ شامل تھے۔ حسین شہید سہروردی، نواب مشتاق گورمانی اور کرنل عابد حسین جیسے سیاستدانوں نے عدالتوں میں الزامات کا سامنا کیا۔
ایوب خان نے تحریک پاکستان کے رہنما قاضی محمد عیسیٰ (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد) ، حسین شہید سہروردی، سابق وزیر اعظم ملک فیروز خان نون، خان عبدالقیوم خان، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، اکبر بگٹی سمیت درجنوں سیاستدانوں کو نااہل قرار دے دیا۔
سہروردی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم کراچی کے ایک سیٹھ نور علی کو رائس امپورٹ کا لائسنس دیا تھا۔ سہروردی نے عدالت میں بتایا کہ سیٹھ نور علی کے سفارشی تو خود جنرل ایوب خان تھے۔ مقدمے کی سماعت کے بعد سہروردی سے کہا گیا کہ وہ جنرل ایوب خان کا نام اخبارات کو نہ بتائیں ورنہ پاکستان کی بڑی بدنامی ہوگی۔ پاکستان کا فوجی صدر دن رات تحریک پاکستان کے رہنمائوں کے خلاف الزامات لگانے میں مصروف تھا لیکن جب اپنا نام آیا تو اسے قومی مفاد یاد آگیا۔ چند سیاستدان ایسے بھی تھے جنہوں نے ایبڈو کے تحت مقدمے میں اپنا دفاع وکیل کی بجائے خود کیا اور بری ہوگئے۔ ان میں چودھری شجاعت حسین کے والد چودھری ظہور الٰہی بھی شامل تھے۔
جنرل ایوب خان کےبعد جنرل یحییٰ خان اور پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی سیاستدانوں کو نااہل قرار دینے کا سلسلہ جاری رہا۔
جنرل ضیاء کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف مالی بدعنوانی تلاش کرنے کے لئے کئی ماہ تک سرکاری فائلوں کو چھانٹا گیا لیکن کچھ نہ ملا تو بیگم نصرت بھٹو، ممتاز بھٹو، قائم علی شاہ، خورشید حسن میر، بیگم اشرف عباسی اور ملک حاکمین خان کیخلاف مقدمے بنائے گئے، یہ مقدمے بہت کمزور تھے لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک قتل کا مقدمہ تلاش کیا گیا اور انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
پھانسی کے ذریعہ بھٹو کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنیکی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ پاکستانی سیاست کا یہ پہلو انتہائی قابل غور اور سبق آموز ہے۔
کئی وزرائے اعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف لاتے تھے لیکن وہی آرمی چیف انہیں حکومت سے نکالنے کاباعث بنتا رہا۔ کئی وزرائے اعظم کو آرمی چیف نے دھاندلی اور دھونس سے اقتدار دلوایا اور پھر اسی وزیر اعظم نے پوری فوج کو بدنام کیا۔
جنرل ضیاء کو بھٹو لائے تھے۔ جنرل ضیاء نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی نواز شریف بڑے ارمانوں سے لائے تھے اور پھر باجوہ کی ناک کے نیچے نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔ عمران خان کو باجوہ صاحب نے وزیر اعظم بنوایا اور پھر خان صاحب نے فوج کے ساتھ جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آج عمران خان اپنی تمام ناکامیوں اور کمزوریوں کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرا ر دیتے ہیں۔ عمران خان کی ذات میں ایک سبق ہے۔ نہ تو فوج سیاست میں مداخلت کرے نہ سیاستدان فوج کو سیاست میں گھسیٹیں۔
ایک دوسرے کو ناہل قرار دینے کا سلسلہ سیاستدانوں نے شروع کیا تھا اور 1958ء میں فوج نے اس لڑائی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ایک دوسرے کو نااہل قرار دلوانے کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
اگر عمران خان نااہل ہوگئے تو ان کے مخالف شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر ہم نوا آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو انہی میں سے کسی کو اپنا اتحادی بنا کرسیاسی بقاء کی جنگ لڑنی پڑے۔
عمران خان بھی نواز شریف کی طرح پارلیمینٹ سے مائنس ہوں گے سیاست سے نہیں۔
عمران خان یاد رکھیں کہ انہوں نے اپنی ساڑھے تین سال کی حکومت میں چار وزرائے خزانہ اور چھ سیکرٹری خزانہ بدلے۔ ان کے ماضی کی کارکردگی بتا رہی ہے کہ وہ معیشت کو نہیں سنبھال سکتے۔
عمران خان نے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر دکھانا ہے تو اپنی پارٹی میں اصلی الیکشن کرائیں اور قوم کو ایک اکنامک روڈ میپ دیں۔ تیاری کے بغیر ایک دفعہ پھر وہ اقتدار میں آگئے تو پاکستان کا پہلے سے بھی برا حشر ہوگا۔