• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے

شہاب جعفری کے نزدیک ہر کوئی اپنے موڈ اور رویے کو اپنا محبوب یامحبوبہ سمجھتا ہے ، قصور صرف قصور والوں کا نہیں ہم سب کا ہے جنہوں نے ملک کو ترقی یافتہ بنانا تھا، جب خود روتےدھوتے رخصت ہوں تو ملک کیسےدرست ہو سکتا ہے ؟جس زرعی ملک کو گندم کی ضرورت تین کروڑ میڑک ٹن ہو اور حکومت خود کہے کہ ہماری اس سال پیداوار دوکروڑ چھبیس لاکھ میڑک ٹن ہوگی اور ساتھ یہ بھی تسلیم کرے کہ 74لاکھ میڑک ٹن گندم ہم باہر سے منگوائیں گےتو قصور کس کا؟

پاکستان تو سب کا تھا ، ہے ، اور رہے گا لیکن اب حالات یوں لگ رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور نئی نسل کو بھی یہی یقین دلایا جا رہا ہے ،میرے پاکستان کو سب نے لوٹا ہے ،ہر بندہ دوسرے کو دیکھتا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے، اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ میں خود کہاں کھڑا ہوں تو قصور کس کا؟

ہم جس بھی ریٹائرڈ افسر سے ملتے ہیں یاپھر ان کے آباؤاجداد جو کبھی آفیسر تھے،ان سے ملتے ہیں تو یہی دلائل دیتے ہیں کہ میرے والدین نے ، میں نے اپنے دور ملازمت میں یہ کیا تھالیکن مجھے یہ باتیں سن سن کر شک سا ہونے لگ گیا ہے کہ اگر آپ نے یہ کیا تھا، ا س نے وہ کیا تھا تو پھر میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ظلم کس نے کیا ؟ مطلب قصور کس کا ؟

دوسری طرف مجموعی طور پر دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ اس ملک کو ہر طبقے نے ہی نقصان پہنچایا ہے ۔ جب ہم سب اپنے اپنے نامہ ہائے اعمال پر نظر ڈالتے ہیں تومعلو م ہو تا ہے کہ ہم سب نے اس ملک کے ساتھ زیادتی کی، کئی بار سمجھوتے کئے، کئی بار دلوں کی خواہشات کو قربان کرنے کی بجائے ہم نے اس ملک کو قربان کیا ہے تو قصور کس کا؟

جہاں جائیں، جہاں بیٹھیں، ایک ہی بات ہوتی ہے کہ کیا بنے گا پاکستان کا؟ ارے بھئی کسی نے کچھ نہیں کرنا، جو کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے۔ آپ خود ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں، آپ خود دھرتی ماں پر بوجھ ہیں، سورج کی روشنی میں کام کرنے کے عادی بنیں، مجیب الرحمٰن شامی صاحب سٹرکوں پر بڑی تعداد میں چلتی گاڑیوں کے بارے میں ہمیں اکثر کہتے ہیں کہ یہ ہی وہ گاڑیاں ہیں جن کو چلانے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، ہمارے پاس پیٹرول نہیں ہے لیکن ہم آئے روز نئی نئی گاڑیاں سٹرکوں پر لے کر آ رہے ہیں، جو مالدار ہیں وہ بےشک پچاس گاڑیاں رکھیں لیکن جس گھر کے افراد کی آمدنی فی کس پچاس ہزار نہیں انہوں نے کیوں چار گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں، بتائیں قصور کس کا؟جس بندے کوبھی دیکھیں، وہ ایسے بات کرتا ہے جیسے 22 کروڑ عوام کا سب سے زیادہ درد اُسی کو ہے لیکن جونہی بات اس کی اپنی ذات پر آتی ہے تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے آگے نکل جاتا ہے تو قصور کس کا؟

نہ ہم اپنے پائوں پرکھڑے ہوسکے اور نہ ہی کوشش کر رہے ہیں۔ آئیں دوسروں کو الزام دینے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا کام کریں ،ہر ادارہ، ہر فرد ذمہ دار ہے، پڑوسی ممالک کے ساتھ ایسا این آرا و کریں کہ وہ آپ کو تنگ نہ کریں اور آپ ان کو تنگ نہ کریں، آج ایک بار پھر امن کی آشا کی اشد ضرورت ہے، اپنے اداروں کو رینٹ اے کار کے طور پر استعمال کروانا بند کریں، اربوں کھربوں میں شادی ہالز تعمیرکرنے کی بجائے چھوٹے بڑے کارخانے لگائیں، ہنر مند بنیں اور بنائیں ، تمام اداروں کے اندر پائی جانے والی سبسڈی بند کی جائے، بڑی مساجد ہیں تو ان کے اندر اسکول و مدارس کھولیں، مساجد کے اندر ہی نکاح کی سادہ تقریبات کا آغاز کریں۔ ایک ہاتھ دیکھنے والے جوتشی نے بتایا ہے کہ میں نے بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں اور سیاستدانوں کے ہاتھ دیکھے ہیں، ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ میرا مستقبل کیسا ہے لیکن آج تک کسی نے پاکستان کے مستقبل کا مجھ سے جاننے کی کوشش نہیں کی تو پھربتائیں قصور کس کا؟

میری باتیں سادی ہیں، سیدھی ہیں، میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ میرے نزدیک یہ ہی سچ ہے ، دنیا کے رنگ بدل گئے، دنیا کہاں جا چکی ہے اور ہم یہاں ہی بیٹھے میری تیری کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کفایت شعاری کوئی عیب نہیں ، سادہ کھانا، سادہ رہنا کوئی عیب نہیں ، ہم اچار اور پیاز سے روٹی کھانے والے لوگ تھے، ہم نے اپنی عادتیں خود خراب کی ہیں۔ دیہات میں بجلی تو دور کی بات ماچس بھی ہر گھر میں نہیں ہوتی تھی، ہمسائے کے جوتے پہن کر اور سائیکل ادھار لے کر لوگ دوسروں کے مہمان بننے جاتے تھے، پیدل چلتے تھے صحت بنتی تھی۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم چینی کے بجائے گڑ استعمال کریں؟ ہمارا پیسہ 15سرمایہ داروں کی جیب میں جانے کے بجائے 50لاکھ سے زائد غریب کسانوں کو ملے ؟ کیا امریکہ نے ہمیں کہا ہے کہ ہم شکر استعمال نہ کریں؟

ہمارا حال یہ ہے کہ بولنے لکھنےوالوں کے چہروں سے لوگ آگاہ ہو گئے ہیں کہ اس نے کیا لکھا ہوگا یا کیا بات کرے گا ۔ یہی حال ٹوئیٹر اور یوٹیوبر خواتین و حضرات کا ہے۔ بقو ل علامہ اقبالؔ ،ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ۔ ہم سب ستارہ بنیں، نہ کہ کوئی چن چڑھائیں۔ہر فصل کا موسم ہوتا ہے، ہمیں جوفصل کاشت کرنا چاہئے تھی نہیں کی،اسی لئے ہمارا یہ حال ہے۔ آپس میں بھائی چارہ، محنت ، دیانت ، خود داری اور دیرپا ملکی مفاد کے لئے جدوجہد کو عملاً اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تا کہ رونے دھونے کی بجائے ہم ایک ترقی یافتہ، پُر امن اور مضبوط ملک بن کر اُبھریں اور جو75سال پہلے کا خواب تھا ،اُس کو حقیقی طور پر شرمندہ تعبیر کرسکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین