میاں نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت، پاکستان مسلم لیگ ن اپنے ہی رہنماؤں کے ہاتھوں نزع کے عالم میں چلی گئی ہے۔ایک ایسی جماعت جس نے 1985 ءمیں جنرل محمد ضیا الحق کی نرسری میں جنم لیا تھا، اسے جنرل پرویز مشرف کی سختیاں تو ختم نہ کرسکیں لیکن میاں نواز شریف کے برادرِ خورد میاں محمد شہباز شریف نے یہ فریضہ بحسن و خوبی سر انجام دے دیا۔موجودہ حکومت نے اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جس’’ گناہ بے لذت‘‘کا ارتکاب کیا،اس کا خمیازہ نہ صرف پوری قوم بلکہ سب سے زیادہ خود مسلم لیگ نون بھگت رہی ہے۔شہباز حکومت نے عوامی فلاح کے کام تو کیا سرانجام دینے تھے، انکا سارا زورخودپر قائم بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے پر رہا۔اس عرصے کے دوران تمام رہنماؤں کو کلین چٹ مل گئی لیکن اگر کوئی شخص ان فوائد سے محروم رہا تو اس کا نام میاں نواز شریف ہے، جس کے نام سے یہ جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔شہباز حکومت کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے آج ہر سطح پر لیگی کارکن بیزار ہے۔مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اس ساری صورتحال میں مکمل چپ سادھے ہوئے ہیں۔ان کا ٹوئٹر ہینڈل خاموش ہے۔معمول کی میڈیا ٹاک بھی معطل ہے۔محترمہ مریم نواز جنہیں حال ہی میں مسلم لیگ ن کا چیف آرگنائزر نامزد کیا گیا تھا، وہ بھی تاحال خاموش ہیں،مسلم لیگ نون کی گرتی عمارت پر ایک کاری ضرب عمران خان نے پنجاب اسمبلی کے عدم اعتماد کے دوران لگائی۔لیگی قائدین کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہی ہوا جو عمران خان کی خواہش تھی۔چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے وعدہ ایفا کیا، رانا ثناء اللہ کی بڑھکیں کام آئیں ،نہ ہی دیگر قائدین کے دعوے،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔گزشتہ 30 برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب، مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے سرکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے،عمران خان کا بیانیہ نوجوانوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے،وہ جو کہتا ہے قوم اسے اپنے دل میں جگہ دیتی ہے،عمران خان کے مضبوط بیانیے کے سامنے شہباز شریف کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ مدھم ہو کر رہ گئی ہیں،وہ اپنی جماعت کے لئے ایک ایسا بھاری پتھر ثابت ہوئے ہیں جس کے بوجھ سے ہی جماعت بیٹھتی چلی جارہی ہے۔ وہ خود کو نواز شریف کا متبادل رہنما ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں،عمران خان کی اس کاری ضرب نے ن لیگ کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔پوری قوم مایوسی کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہےلیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت کسی اور ہی دنیا میں رہ رہی ہیں،پنجاب اسمبلی کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ نے غیر جانبدار ہونے کا تاثر پختہ کیا ہے جس کی وجہ سے قوم کے دلوں میں ادارے کا وقار بڑھا ہے،میاں نواز شریف کی غیرا علانیہ لاتعلقی،شہباز شریف کے اندازِحکومت اور دیگر رہنماؤں کے رویے نے مسلم لیگ ن کے مستقبل پر فاتحہ ہی پڑھ دی ہے،ایک قومی جماعت کا چند اضلاع تک محدود ہو جانا ایک سیاسی المیے سے کم نہیں، ان انتخابات میں لاہور سمیت کئی دوسرے اضلاع سے بھی لیگی امیدواروں کی کامیابی مشکوک نظر آرہی ہےجب کہ مسلم لیگ ن کے قریبی حریف عمران خان نے اپنے مخالفین کو انگلیاں چبانے پر مجبور کر دیا ہے،پنجاب کے تمام انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ ن کو ناک آؤٹ کیا ہے،پنجاب اسمبلی کے عدم اعتماد کے ووٹ کے معاملے پر ن لیگ کو اس کے گھر میں شکست دی ہے،حکمراں جماعت کی طرف سے آڈیو لیکس عمران خان کی مقبولیت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں،عمران خان کی سیاسی حکمتِ عملی کی اتنی دھمک ہے کہ عدم اعتماد والے دن پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف اسمبلی میں قدم نہ رکھ سکے،پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کر عمران خان نے سیاسی درجۂ حرارت مزید بڑھا دیا ہے، اب شہباز حکومت کے لئے انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ وفاقی حکومت یا قومی اسمبلی برقرار رکھ سکیں،اگرچہ وفاقی حکومت کے پاس انتخابات کے التوا کے لاتعداد بہانے موجود ہیں،مردم شماری،حلقہ بندیوں کی تشکیلِ نو،ووٹر لسٹوں کا ازثرِنو مرتب کرنایا متفرق قانونی امور،ان میں سے کسی بھی نکتے کا سہارا لے کر،انتخابات کو کچھ عرصہ کے لئے التوا میں تو ڈالا جا سکتا ہےلیکن ان کے انعقاد سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے،شہباز حکومت کے ہتھکنڈوں کی وجہ سےنوجوان نسل کے غصے میں شدیداضافہ ہو رہا ہے،دنیا بھر میں کشکول لے کر پھرنے کے باوجود چند زبانی اعلانات کے سوا کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی، حکومت کی ناقص کارکردگی نے ن لیگ کے کندھوں پر ایک ایسا بوجھ لاد دیا ہے جس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں ہوگاجب کہ دوسری طرف عمران ایک نئی طاقت، جذبے اور ولولے کیساتھ میدان میں ہیں، انتخابات کا دنگل سجنے کو ہے ،عوامی مزاج اب جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس میں نواز شریف اپنی بچی کھچی عزت بچانے کیلئے شاید پاکستان آنے سے اجتناب ہی کریں،میڈیا رپورٹس بھی اس خدشے کی تائید کر رہی ہیں اور یہی ان کیلئے بہتر بھی ہوگاکیوں کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا تھا، اسے عمران خان کی مقبولیت نے پر کر دیا ہے۔اس عدم استحکام کا واحد حل انتخابات ہیں، جس جماعت کو بھی قوم مینڈیٹ دے وہی جماعت اس ملک کو اس گرداب سے نکال سکتی ہیں۔