فوجی انقلاب کی اولین منصوبہ بندی چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد اکبر خان کی سرکردگی میں23 فروری 1951کو مجوزہ انقلاب کی ضرورت ومقاصد کے تحت کی گئی تھی۔ جنرل محمد اکبر خان کا موقف تھا کہ حکومت کشمیر کی آزادی کے آپریشن میں ناکام ہوئی ہے ۔اس کا سیاسی جواب وہی تھا کہ آمر ہمیں کام ہی کب کرنے دیتے ہیں۔
جناب رفیق ڈوگر کو ہم سے بچھڑے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ،ان کی کئی شاندار تصانیف ہیں ان میں سے ایک کتاب میں وہ یحییٰ خان کے دور کی صحافت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ اگر آزادی صحافت شرفاء کی پگڑیاں اچھالنا ہے تو پھر یہ انہیں ہی مبارک ہو‘‘ لکھتے ہیں’’ مولانا کوثر نیازی کے پرچہ ’’شہاب‘‘کی فائلیں موجود ہیں جس میں مولانا مودودی صاحب کا سر ایک فلم ایکٹریس کے جسم پر لگاکر چھاپا گیا۔‘‘یحییٰ خان کے بارے مزید لکھتے ہیں کہ’’ سقوط ڈھاکہ کے حالات سے آگاہی بھی نہیں ہونے دی گئی ، ہر اخبار میں کامیابیاں ہی شائع ہورہی تھیں۔ مینار پاکستان کے سائے میں ایک آمر نے سیاستدانوں کو دھمکی دی جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ عوامی نمائندوں نے ٹانگیں بچالیں اور بابائے قوم کا پاکستان توڑ دیا۔‘‘ کتاب میں یہاں تک لکھا گیا کہ’’ ایک صاحب نےڈھاکہ والوں سے کہا تھا کہ مجھے صلح کے نتیجہ میں کیا ملے گا؟ پوچھنے والے نے پوچھاـــ تو کہنے والے نے کہا کہ وزیراعظم یا وزیرخارجہ تو جواب میں کہا گیا کہ میں کچھ نہیں دوں گا آپ اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ ائیر مارشل اصغر خاں نے اپنی کتاب Generals In Politics میں لکھا ہے کہ 1970 میں یحییٰ خاں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ چھوڑیں الیکشن ولیکشن ۔23 مارچ 1971 کو صرف 30 سال 7 ماہ اور9 دن پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیکن ہم ہر موقع پر یہ ضرور کہتے ہیں شکر ہے پاکستان بچ گیا، حنیف رامے کا ایک انٹرویو رفیق ڈوگر مرحوم نے اپنے رسالے ’’دید شنید ‘‘میں مئی 1986میں شائع کیا تھا ۔اس کو ضرور پڑھنا چاہئے کہ بنگلا دیش کو الگ کرنے کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ اسی کتاب میں جنرل آغا محمد یحییٰ خاں کے انٹرویوکے حوالے سے کہا گیا کہ امریکہ دوست مدد کو آرہا ہے تو انہوں نے کہا کہ ساتواں بحری بیڑہ ڈرامہ ہے بالکل نہیں آرہا۔
جنرل اکبر خاں نے اپنے محسن ومربی وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت الٹنے کی سازش کو عملی جامہ پہنایا تھا،جنرل ایوب خان نے اپنے محسن اسکندر مرزا کو گھر بھیج دیا، اور پھر جنرل آغا محمد یحییٰ خاں نے اپنے محسن جنرل ایوب خان کوایوان صدر سے نکال کر خود قبضہ کر لیا ۔جنرل ضیاء الحق شہید نے اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تخت نہیں بلکہ تختہ ہی الٹا دیا ۔جنرل مشرف نے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم کی ۔تمام آمروں کو ایسے سیاستدان مل جاتے ہیں جوسامنے بیٹھ کر کہتے رہتے ہیں کہ جنرل صاحب آپ کے سامنے سب سیاستدان بونے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک فرد نے کہا تھا کہ جنرل ضیاءالحق کا اس سےاچھا خاتمہ ممکن ہی نہیں تھا گیارہ سال حکومت کرکے وہ باعزت طور پر اس جہاں سے اٹھ گئے شاید ان کے بعد جمہوریت کی گاڑی چل پڑے، ایک جنرل کے ایک دوست سے حادثہ کی تعزیت کی تو انہوں نے کہا کہ تیس افراد کا نقصان بہت بڑا نقصان ہے لیکن تیس ہزار افراد کا نقصان اس سے بہر حال زیادہ ہوتا،وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ حالات جس طرف جارہے تھے ممکن ہے کہ 30 ہزار افراد مارنے کا بھی امکان ہو تا۔لیکن دوسری طرف جنرل ضیا الحق شہید ہوئے تو کتاب میں لکھا ہے کہ جب فوجیوں نے جنرل ضیاالحق کی شہادت کی خبر ریڈیو پر سنی تو ان کے ہاتھوں سے ہتھیار گر گئے تھے اوروہ ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونا شروع ہو گئے،ضیاازم کے نعرےبھی لگنے لگے ۔ لیکن سوال بہر حال موجود رہے گا کہ کیا فوج خود سیاست میں آتی رہی یا اسےلانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔فوجی سربراہ کے سیاست میں ملوث ہونے کی بنا پر پوری فوج کو سیاسی نہیں کہہ سکتے ۔فوجی آمر قوم کے محسن ہوتے ہیں یا پھر مجرم اس سوال کا جواب عوام کو سوچنا ہے کیونکہ ماضی کے فوجی آمر اپنی قبروں سے آکر اس کا جواب نہیں دے سکتے ۔جس طرح تمام جنرلزاورپوری فوج کو برا کہنا مناسب نہیں ایسے ہی ساری سیاسی جماعتوں کو یا قیادت کو بونا نہیں کہا جا سکتا ۔5 جولائی 1977 کو ضیاالحق نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ،گزشتہ شب آدھی رات کو عمل شروع ہوا تھا آج علی الصبح مکمل ہواہے ۔میرے حکم پر سب ہوا۔سوائے بیگم ولی خان کے قومی اتحاد کے تمام قائدین کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔مومن آمر کا لفظ بھی استعمال کیا گیا تھا ۔آمر یہ بھی کہتے رہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کی باگ ڈور عوام کے ہاتھوں میں رہے ،لیکن جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں فوج خاموش نہیں رہ سکتی۔صدررفیق تارڑ صاحب اور صدر عارف علوی صاحب کی طرح اس وقت کے صدر پاکستان فضل الٰہی چوہدری اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے رضا مند رہے،چار افراد کی ملٹری کونسل تشکیل دی گئی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ،بری ،بحری اور فضائی افواج کے چیف آف اسٹاف تھے اس وقت کے چیف جسٹس یعقوب علی تھے ،انہوں نے کہا تھا کہ خلاکو پورا کرنا ضروری تھا ۔صدر ضیاالحق شہید نے بھی کہا تھا کہ میری درخواست پر چاروں صوبوںکے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حضرات نے قائم مقام گورنر بننا قبول کر لیا ہے۔