• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ایردوان کی جانب سے ترکیہ میں 14 مئی 2023ء کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کروانے کے اعلان کے بعد مغربی میڈیا نے صدر ایردوان کے خلاف بڑے منظم طریقے سے پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کردیا ہے۔سب سے پہلے برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے آئندہ انتخابات میں’’ صدرایردوان کے مقابلے میں اپوزیشن کو یہ انتخابات جیتنے کی ضرورت ہے‘‘کے زیر عنوان خبر شائع کرکے صدر ایردوان پر ڈکٹیٹر شپ کا الزام عائد کیا ہے ،کہا ہے کہ اس ڈکٹیٹر شپ کو ختم کرنے کیلئے اپوزیشن کا جیتنا بے حد ضروری ہےلیکن اپوزیشن باہمی اختلافات کے باعث صدارتی امیدوار کے نام پر ہی متفق نہیں ہو سکی۔

اگرچہ اس جریدےمیں صدر ایردوان کےجیتنے کے واضح امکانات کو تسلیم کیا جا رہا ہے لیکن اس نے ایردوان کو ترکوں اور دنیا کی نظر سے گرانےکیلئے اپنے سرورق پرصدر ایردوان کی بے ہودہ انداز میں تصویر پیش کرتے ہوئے یہ سرخی چسپاں کی Turkey’s Looming Dictatorship جس پر ترکیہ بھر میں شدید ردِ عمل سامنے آیا اور دنیا بھر سے سوشل میڈیا کے ذریعے اس جریدے کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں ٹویٹس کیے گئے ہیں۔ صدر ایردوان کے اطلاعاتی امور کے ڈائیریکٹر فخر الدین آلتون نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اشتعال انگیز سرخیوں اور اشتعال انگیز تصاویر شائع کرنے کو سستی شہرت، ڈس انفارمیشن اور کم ہوتی ہوئی اشاعت کو بڑھانے کی ناکام کوشش قرار دیا۔ آلتون نے کہا کہ ترک عوام نے بارہا جمہوریت سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ ترکیہ میں ڈیمو کریسی کے تحفظ کیلئے ترک عوام نے 15جولائی 2016 کو بغاوت کرنے کی کوشش کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ناکام بنایا اور ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن رکھا۔ صدر ایردوان نے جتنے بھی انتخابات میں حصہ لیا ان میں کامیابی ہی حاصل کی ہے ، نام نہاد صحافیوں کی منتخب صدر ایردوان سے نہ ختم ہونے والی نفرت ناقابل فہم ہے۔ ترک ڈیموکریسی بڑی متحرک ڈیموکریسی ہے اور ترک باشندے سیاسی نظام پر مکمل طور پر بھروسہ کرتے ہیں۔

بلوم برگ نے صدر ایردوان کے صدارتی انتخابات کے بارے میں اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ مغربی رہنما ، صدر ایردوان کو شکست سے دوچار ہوتا ہوئے دیکھ کر خوشی محسوس کریں گےکیونکہ صدر ایردوان نے روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم خرید کر نیٹو کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے، سویڈن اور فن لینڈ کی رکنیت کو روک کر اتحاد کو ناکام بنا یا ہے اور حالیہ مہینوں میں یونان کے خلاف جنگجو مؤقف اختیار کیا ہے۔بلوم برگ کے مطابق ترکیہ 20سال کے سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہےاور غریب عوام جو اس سے قبل ہمیشہ آق پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں، اس بار ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اسلئے مغربی رہنما اپوزیشن کی کامیابی کی امید لگائے بیٹھے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مغربی رہنما ، ترکیہ میں انتخابات کا دن کانٹوں کی سیج پر گزاریں گے۔ دی اکانومسٹ اور بلومبرگ کے بعدجرمن جریدہ اسٹرن مخالفت میں ان سب کو پیچھے چھوڑ گیا ۔ جریدے نے ترکیہ اور صدر ایردوان سے متعلق اپنے تجزیے میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال کئے اور صدرایردوان کو ERDOĞAN DER BRANDSTIFTER یعنیEDOGAN ARSONIST قرار دیتے ہوئے اسے اپنے سرورق پر جگہ دی ۔

اسٹرن میگزین نے لکھا کہ صدر ایردوان بین الاقوامی اسٹیج پر بڑے قدکاٹھ والی شخصیت دکھائی دیتے ہیں لیکن اب ان کو اپنے ہی گھر میں اقتدار جاری رکھنےکیلئے انتھک جدوجہد کرنا پڑرہی ہےجس کے لیے خزانے کا منہ کھولنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ کیا ایردوان شکست قبول کرسکتے ہیں؟ ایردوان اقتدار میں رہنے کیلئے بے ایمانی اور ہر حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ میگزین نے لکھا کہ صدر ایردوان، صدر پوتن ، یوکرین اور مغرب کے ساتھ تو مذاکرات کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ نیٹو میں ویٹو استعما ل کرتے ہوئے نیٹو کو نیچا دکھانے اور نئے اراکین کی راہ کو مسدود کرنے کے ساتھ ساتھ شام میں جنگ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ دوسری جانب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ترجمان عمر چیلک نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی میڈیا نے بڑے منظم طریقے سے صدر ایردوان کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم شروع کرکھی ہے۔

بلوم برگ نے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو کی رکنیت کی راہ میں رکاوٹ بننے پر صدر ایردوان کو ’’ضدی‘‘ رہنما قرار دیتے ہوئے لکھا کہ صدر ایردوان انتخابات سے قبل قومیت پسند ترک باشندوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ صدر ایردوان کی ضد کی وجہ سے یورپ کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔بلومبرگ نے نیٹو رہنمائوں سے14 مئی سے پہلے دونوں ممالک کی رکنیت کی منظوری کیلئے صدر ایردوان پر دباو ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ادھر سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے قرآن کریم کو نذر آتش کر نے پر صدر ایردوان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک گھٹیا ذہن کا گھناؤنا حملہ قرار دیا اور کہا کہ قرآنِ کریم کو نذر آتش کرنے کے بعد اب سویڈن ہم سے نیٹو کی رکنیت کے بارے میں حمایت کرنے کی ہرگز توقع نہ رکھے۔ ترکیہ نے اب یہ دروازہ بند کر دیا ہے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ اس مہذب ، جدید ڈیموکریسی کی دنیا میں انسانی حقوق اور آزادیوں کی ایک بہت ہی سادہ تعریف کی گئی ہے۔ فرد کے حقوق اور آزادیاں صرف وہاں تک جائز ہیں جہاں دوسرے انسان کے حقوق اور آزادی شروع ہوتی ہے۔ کسی فرد کی مقدس ہستیوں یا مقدس کتابوں کی توہین کرنے کو آزادی کا نام ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔ صدر ایردوان کے شدید ردِ عمل ہی کے نتیجے میں مغربی میڈیا، جو ادھار کھائے بیٹھا تھا، میں صدر ایردوان کے بارے میں باقاعدہ سیاہ پروپیگنڈہ مہم جاری ہے جو دراصل صدر ایردوان کے لئے نعمت ِغیر مترقبہ سے کم نہیں اور ان کی مقبولیت میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

تازہ ترین