• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو میں لفظ ’’ بلبل ‘‘کی تذکیر و تانیث میں اختلاف رہا ہے اور بڑے بڑے شعرا اور اہلِ علم میں سے بعض نے بلبل کو مذکر لکھا ہے اور بعض نے مونث ۔بعض نے دونوں طرح برتا ہے۔ مثلاً میر انیس کے مرثیے کا ایک مشہور مصرع شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی کتاب لغات ِ روزمرہ میں اس ضمن میں پیش کیا ہے:

بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں

یعنی انیس نے بلبل کو مذکر باندھا ہے۔ فاروقی صاحب نے ساتھ ہی غالب کا مصرع بھی دیا ہے:

بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں

یعنی غالب کے نزدیک بلبل مؤنث ہے۔

لیکن اس سلسلے میں اور مثالیں بھی ہیں ، جیسے میر عبدالحی تاباں کا شعر ہے :

ایک بلبل بھی چمن میں نہ رہی اب کی فصل

ظلم ایسا ہی کیا تو نے اے صیّاد کہ بس

میر انیس کا تعلق لکھنو ٔ سے تھا اور تاباں کا دہلی سے۔ غالب بھی کم عمری میں دہلی آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے تھے ۔ گویا دہلی والوں کے ہاں بلبل مؤنث ہے اور لکھنؤ والوں کے ہاں مذکر۔ البتہ اقبال نے دونوں طرح سے باندھا ہے، کہتے ہیں :

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

یہاں بلبل مذکر ہے ۔ لیکن اقبال نے یہ بھی کہا :

ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا

اور یہاں بلبل مؤنث ہے۔

اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ امام بخش ناسخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اردو میں اصلاح ِ زباں پر بہت زور دیا۔ جمیل جالبی صاحب کے بقول ناسخ نے اصلاح ِ زباں کی جو تحریک چلائی اور جو اصول وضع کیے ان پر اپنے شاگردوں کو بھی چلنے کی تلقین کی اور اس طرح یہ تحریک ناسخ کے بعد بھی جاری رہی۔

جالبی صاحب کہتے ہیں کہ (اس تحریک کے باوجود) تذکیر و تانیث کے ضمن میں ناسخ نے کوئی خاص اصول وضع نہیں کیے اور یہ کہا کہ تذکیر و تانیث کے اصول کچھ باقاعدہ نہیں ہیں اس لیے جس طرح شعرا اور فصحا کی زبانوں پر جاری ہو ویسا ہی بولنا چاہیے۔ لیکن خود ناسخ کے ہاں بلبل کے لیے تذکیر اور تانیث دونوں کا صیغہ ملتا ہے، جالبی صاحب نے دونوں کی مثالیں دی ہیں۔ ناسخ کہتے ہیں :

بلبل ہوں بوستانِ جنابِ امیر کا

رُوح ُالقُدُس ہے نام مِرے ہم صفیر کا

اس شعر میں بلبل کو مذکر باندھا گیا ہے۔

یہاں روح القدس کے بارے میں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ’’قدس‘‘ دال کے سکون کے ساتھ بھی درست ہے اور دال پر ضمے (یعنی پیش) کے ساتھ بھی ٹھیک تلفظ ہے ، یعنی قُدس (دال ساکن ) او ر قُدُس (دال پر پیش) دونوں درست ہیں اور اس طرح ’’روح القدس‘‘ کی ترکیب کی وجہ سے اس مصرعے میں عروضی وزن کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ اور ناسخ نے یوں بھی کہا کہ ـ:

اپنے آغازِ محبت کا خیال آتا ہے

دیکھتا ہوں کوئی بلبل جو گرفتار نئی

یہاں بلبل مؤنث ہے۔

ناسخ فیض آباد میں پیدا ہوئے جو لکھنؤ سے بہت قریب ہے ۔ بچپن اور جوانی لکھنؤ ہی میں گزری ، قید اور جلا وطنی کے بعد لکھنؤ واپس آگئے اور وہیں رہے۔ وہ لکھنؤ ہی کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح لکھنؤ کے ایک مسلّم الثبوت استاد شاعر اور اصلاح ِ زباں کے محرِک کے ہاں بھی بلبل مذکر اور مؤنث دونوں طرح درست ہے۔ اس طرح اس ضمن میں اقبال پر اٹھائے گئے اعتراض کا بھی مُسکِت جواب مل جاتا ہے۔