• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسی دلدل میں ہم اتر چکے، جس سے نکلنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ تین دھڑے ہیں۔ ایک کے خیال میں پی ڈی ایم ملکی مسائل کی ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ تحریکِ انصاف ہی ملک کو دلدل سے نکال سکتی ہے۔ یہ دھڑاغالب ہے اور اس کا نتیجہ ہر ضمنی انتخاب میں تحریکِ انصاف کی فتح کی صورت میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ دوسرا دھڑا یہ کہتا ہے کہ تحریکِ انصاف ملکی مسائل کی اصل وجہ ہے۔ اقتدار پی ڈی ایم کے پاس ہی رہنا چاہئے۔ تیسرے دھڑے کا خیال یہ ہے کہ تمام برائیوں کی ذمے دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ افسوس، تینوں مفروضے غلط۔

پہلا مفروضہ، تحریکِ انصاف ملک کی کشتی پار لگا سکتی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کورونا نازل ہونے کے باوجود کپتان کی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ روکے رکھا۔ حکومت تبدیل ہونے کے فوراً بعد خان صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ ہمارے آخری سال میں ترقی کی شرح کتنی اوپر چلی گئی تھی۔ بالکل درست لیکن ان تین برسوں میں قرض بیس ہزار ارب روپے بڑھ بھی گیا تھا۔ پرانا قرض لوٹانے کے لیے اگر نیا قرض لیا جائے تو کل قرض ساکن رہنا چاہئے۔ خان صاحب توکہا کرتے تھے:برسرِ اقتدار آنے کے بعد قرض لینا پڑا تو خودکشی کر لوں گا۔

ظاہر ہے کہ خان صاحب نے 76میں سے صرف 3سال حکومت کی اور اسی کے وہ ذمہ دار ہیں۔ اس کا مطلب مگر یہ بھی ہے کہ کپتان کو معیشت اور بالخصوص قرضوں کے بارے میں کوئی خاص معلومات حاصل نہ تھیں۔ مزیدبرآں یہ کہ تحریکِ انصاف کے تمام سیاستدان نون لیگ اور پیپلزپارٹی ہی سے لیے گئے۔ شوکت ترین اگر پیپلزپارٹی کے دور میں معیشت ٹھیک نہ کر سکے تو تحریکِ انصاف کے دور میں کیا کرشمہ برپا کر سکتے؟ ادھر دوسری طرف پی ڈی ایم کا حال یہ ہے کہ شہباز شریف ابھی کل تک زرداری صاحب کو زربابا اور چالیس چور کہا کرتے۔ فرماتے: اگر عمران خان کو ووٹ دیا تو زرداری دوبارہ آجائے گا۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کئی عشرے اس ملک پر حکومت کر چکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا کرتیں۔ انہی کی باہمی لڑائیوں کانتیجہ ہے کہ آج تک اس ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی۔ دونوں جماعتوں کا کوئی ایک بھی دورِ حکومت ایسا نہ تھا، جس میں عوام اپنے مسائل حل ہونے کے نتیجے میں مارشل لاؤں کے خلاف مزاحمت کرتے۔ ترکی میں لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ یہاں عوام کا بس چلے تو سیاستدانوں کو پکڑ کر ٹینک کے نیچے دے دیں۔

آخری غلط مفروضہ، اسٹیبلشمنٹ ملک کو یہاں تک لے کر آئی۔ آخری بہتر اقتصادی دور جو اس ملک نے دیکھا، وہ پرویز مشرف کا تھا۔ ڈالر ساٹھ روپے کا، قرض چھ ہزار ارب روپے پہ روک دیے گئے۔امریکی امداد والی کہانی جھوٹی ہے کہ اس سے پانچ گنا زیادہ دہشت گردی سے نقصان ہوا۔آئی ایم ایف کو خدا حافظ کر دیا گیا۔اسٹیل ملز کے بوجھ سے ملک کو چھٹکارا نصیب ہونے والا تھا کہ افتخار محمد چوہدری سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے ہوگئے؛چنانچہ آج تک سرمایہ ڈوب رہا ہے۔بڑے بڑے ڈیم ایوب خان کے دور میں تعمیر ہوئے۔ سچی بات تویہ ہے کہ تین طویل مارشل لا ؤں میں ملکی معیشت سیاسی ادوار سے کہیں بہتر تھی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ فوجی حکومت قائم کردی جائے۔مارشل لا میں جو کچھ تعمیر ہوتا ہے، بالآخر تباہ ہونا ہوتا ہے۔ لبِ لباب یہ ہے کہ عوامی طاقت سے خان صاحب اگر واپس اقتدار میں آبھی جائیں تو اپنی تمام تر نیک خواہشات کے باوجود وصالِ یار فقط خواب رہے گا

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم

وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

مزید برآں یہ کہ خان صاحب بھی 2018ء میں فوج کے سامنے سجدہ ریز ہو نے کا مظاہرہ کر چکے؛لہٰذا اب پہلے جتنے پاک نہیں۔ جلسوں میں آرمی چیف کی تعریفیں کیا کرتے۔ کپتان 2011ء کے بعد ملک بھر سے متبادل سیاسی قیادت کا انتخاب کرتا،فوجی حمایت کی بجائے عوامی مقبولیت پہ سوار ہو کر اقتدار میں آتا....اور اگر اس نے معیشت پہ کام کیا ہوتا تو مسائل حل ہونے لگتے۔ ہاں البتہ ایک کام ممکن ہے۔ فرض کریں خان صاحب اگر دوبارہ اقتدار میں آجائیں۔ اب کی بار اگر وہ ڈاکٹر شعیب سڈل جیسے کسی جینئس مگر سر سے پاؤں تک ایک سخت گیر آمر کو اقتصادی امور سونپ دیں۔ ایف بی آر کی تشکیلِ نو ہی کر دی جائے اور اگر بڑی ریاستی کارپوریشنوں کی یوں نجکاری کر دی جائے کہ کوئی بڑا احتجاج نہ ہو تو معیشت پٹری پہ چڑھ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا آخری ملاقات میں خان صاحب سے جب میں نے یہ گزارش کی تو حیرت سے سوچتے ہوئے وہ بولے:ڈاکٹر شعیب سڈل، وزیرخزانہ؟ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ اقتصادی امور کے بھی ماہر ہیں۔ ویسے ڈاکٹر شعیب سڈل کے وزیرِ خزانہ بننے کی تاب تو پاکستان کے چار میں سے تین سیاستدان نہیں لا سکتے۔

چین سی پیک اور عالمی برادری پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی بدولت اس کے دیوالیہ ہونے کی متحمل نہیں۔ ایسا اگر کوئی منصوبہ ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ کر کے اس کے ایٹمی اثاثے نکلوا لیے جائیں تو یہ دیوانے کا خواب ہے۔یہ بات مگر طے ہے کہ ملکی حالات جتنے بگڑ چکے کہ کوئی out of the box تدبیر ہی درکار ہے۔ یہ بھی کہ اس قوم کو بہرحال ایک بہت بڑے سائز کا مولا بخش ہی سدھار سکتا ہے۔ خرابی صرف حکمرانوں میں نہیں، یہ قوم ہے جو اخلاقی طور پر تباہ ہو چکی۔سیاستدان اس دیگ کا صرف ایک دانہ ہیں۔

تازہ ترین