قاسم علی شاہ صاحب پاکستان کے معروف موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ ان کے والد جرنیل تھے نہ بیوروکریٹ، جاگیردار، سرمایہ دار اور نہ سیاستدان۔ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم حاصل کی ۔ کتاب سے محبت نے انہیں ہزاروں لوگوں کا محبوب بنا ڈالا ۔ اپنی محنت اور صلاحیت سے الحمدللہ انہوں نے نہ صرف پیسہ کمایا بلکہ قاسم علی شاہ فائونڈیشن کے نام سے انسانوں کے بھی کام آتے ہیں ۔ ایسا ہرگز نہیں کہ وہ فرشتہ ہیں ۔ انسان ہونے کے ناطے ان میںبھی خامیاں موجود ہوں گی ۔ مجھےبھی ان کےکئی خیالات یا اقدامات سے اختلاف ہےلیکن یہ اختلاف میرے دل میں ان کا احترام کم کرسکا اور نہ ان کی طرف سے مجھے ملنے والی محبت میں کبھی کوئی کمی محسوس ہوئی ۔ مجھے روزِ اول سے یہ معلوم تھا کہ وہ اور ان کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ ہیں اور انہیں یہ معلوم تھا کہ میں عمران کا شدید ترین ناقد ہوں لیکن یہ معاملہ کبھی ہمارے درمیان وجہ نزاع بنا اور نہ اس سے ہماری دوستی میں کوئی فرق آیا۔ کئی معاملات میں نظریاتی ، سیاسی اور عملی اختلاف ہونے کے باوجود میں اس اعتراف میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ میں نے شاہ صاحب کی تحریروں اور تقریروں سے بہت کچھ سیکھا اور جذباتی حوالوں سے بھی اپنے آپ کو سدھارنے کے لئے ان کی کاوشوں کو بروئے کار لایا۔یوں میں ہمیشہ ان کا زیراحسان رہوں گا کیونکہ آپ اگر کسی سے ایک لفظ بھی سیکھ لیں تو اسے آپ کے استاد کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
نہ جانے شاہ صاحب کو کیا سوجھی کہ چند روز قبل انہوں نے ہمارے میدان میں اتر کر سیاستدانوں کے انٹرویوز کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور آغاز اپنے محبوب قائد عمران خان سے کیا۔ظاہر ہے یہ ان کے لئے نیا میدان تھا، جس طرح ان کے یا دوسروں کے میدان میں اگر ہم وارد ہوں تو ابتدا میں غلطیاں کریں گے ، اسی طرح ان سے بھی کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں۔ دوسرے ان میں ہم اینکرز کی طرح اکڑ بھی نہیں بلکہ ملتے وقت عاجزی ان کی طبیعت کا خاصہ ہے ۔ تیسرے انہوں نے پہلا انٹرویو عمران خان کا کیا جن کی اصلیت سے وہ ہماری طرح واقف نہیں اور وہ ان سے متاثر تھے یا پیار کرتے تھے ۔ شاہ صاحب چوں کہ تصوف سے بھی شغف رکھتے ہیں اور اس میدان کے لوگ اپنے مرشد سے ملتے وقت حد سے زیادہ عجز اور انکسار کا مظاہرہ کرتےہیں ۔ چنانچہ وہ عمران خان کے ساتھ انٹرویو کے دوران ہم جیسے اینکرز کے برعکس ایسے انداز میں بیٹھے جس میں عقیدت اور کسی حد تک تابعدارانہ جذبہ نظرآرہا تھا۔بس پھر کیا تھا کہ عمران خان کے ناقدین سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کرنے میں مصروف ہو گئے۔ان کے بیٹھنے یا سوال کرنے کا انداز مجھے بھی پسند نہیں آیا لیکن اس کی بنیاد پر ان کی جو کردار کشی کی گئی اور جس طرح ان کے ٹشو پیپر اٹھانے تک کو ان کی تحقیر اور تضحیک کا ذریعہ بنایا گیا ، اس کا کسی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان مخالف عناصر سے گالیاں کھانے کے بعد شاہ صاحب نے عمران خان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور بالکل درست اظہار کیا لیکن ظاہر ہے کہ وہ عمران خان پر تنقید کے زمرے میں آتا تھا۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کا گالم گلوچ بریگیڈ ان کے پیچھے پڑ گیا۔ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ہر طرح کی بکواس کی گئی۔ ٹاپ ٹرینڈ بنا کر کئی روز تک انہیں ایسا پیش کیا گیا کہ جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے خراب انسان قاسم علی شاہ ہے۔ گویا پہلے عمران خان کو ضرورت سے زیادہ عزت دینے کی وجہ سے ان کا جینا حرام کردیا گیا اور پھر ان پر معمولی اور جائز تنقید کی وجہ سے۔
میں قاسم علی شاہ کو جانتا ہوں ۔ انہیں بہت دُکھ دیا گیا لیکن وہ اس دُکھ کو سہہ کر ان شااللہ اس تنقید کو ایک نئی قوت میں بدل دیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس ملک اور اس معاشرے کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟ ایک حرکت یا ایک رائے کی وجہ سے اگر ہم انسانوں کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر کران کا جینا حرام کر دیں گے تو اس معاشرے میں علم اور مکالمے کا ماحول کیسے پیدا ہوگا؟ کوئی کہہ رہا ہے کہ قاسم علی شاہ نے اتنے پیسے کمائے تو کوئی کہتا ہے کہ وہ پیسے لے کر لیکچر دیتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا پیسہ کمانا جرم ہے؟ کیا انہوں نے ہمارے جرنیلوں، سیاستدانوں اور ججوں کی طرح کرپشن کی ہے؟ کیا انہوں نے ڈاکے ڈالے ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیت سے جدید ٹیکنالوجی سے کام لے کر اگر پیسہ کمایا ہے اور اس سے حکومت کو ٹیکس بھی دے رہےہیں تو اس پر ان کی ستائش ہونی چاہئے یا ان پر تنقید کی جائے؟ امریکی عوام اگر بل گیٹس، ایلون مسک اور مارک زکربرگ کو پوجتے ہیں اور ہم بھی ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے لیکن ہمارے ملک میں اگر کوئی ادنیٰ درجے پر بھی ان کے نقش قدم پر چلے تو ہم حسد کی آگ میں جلتے ہوئے انہیں نفرت کا نشانہ بناتے ہیں۔ جو لوگ بے حیائی پھیلا کر، جھوٹ بول کر اور مذہب فروشی کرکے الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا سے پیسے کماتے ہیں ، وہ تو ہمارے ہیرو ہیں لیکن ایک بندہ اگرمثبت کام کرکے اور نوجوانوں کے جذبوں کو مہمیزدے کر ایسا کررہا ہے تو ہم اس کو برا کہتے ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے سیاسی عزائم ہیں ۔ میں نہیں جانتا کہ ان کے سیاسی عزائم ہیں یا نہیں لیکن اگر ہیں بھی تو اس میں کون سا جرم ہے ؟ ایک طرف ہم سیاست میں موروثیت اور سیاستدانوں کی نااہلی کا رونا روتے ہیں لیکن دوسری طرف اگر کوئی سیلف میڈ انسان اس میدان میں طبع آزمائی کرتا ہے تو ہم اسے طنز و تشنیع کا ذریعہ بناتے ہیں ۔
دلوں کا حال اللہ جانتا ہے ۔ قاسم علی شاہ اپنے لیکچرز جس بھی غرض سے دیتے ہیں ، وہ اللہ جانتا ہے یا شاہ صاحب خود ۔لیکن بہر حال اس سے لاکھوں نوجوانوں کو سیکھنے اور سدھرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ کتاب جس بھی نیت سے لکھتے ہیں، لیکن بہر حال وہ نئی نسل کو اسلامی اصولوں کے مطابق کامیاب زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ وہ جھوٹ، دھوکے اور دغا کی ترغیب نہیں دیتے۔ یوں بحیثیت مجموعی ان کا رول ان سیاسی لیڈروں سے ہزار درجے بہتر اور مثبت ہے جو قوم کے جذبات سے کھیلتے اور ملک کی تباہی میں حصہ دار بنتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کی قدر کریں گے، تو یہ ملک خوشحال ملک ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)