• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی ایس ایف کی سیاہ وردی، بھارتی اہلکاروں کی جگ ہنسائی کا سبب بن گئی

— تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
— تصویر بشکریہ سوشل میڈیا

بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب جنگلاتی علاقوں میں آپریشنز کے لیے سیاہ رنگ کی نئی جنگی وردی متعارف کروادی ہے۔

مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بی ایس ایف کے اہلکاروں کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں انہیں برف پوش پہاڑوں کے درمیان معمول کی گشت کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

بی ایس ایف کی جانب سے شیئر کردہ مذکورہ ویڈیو وائرل ہوتے ہی صارفین کی توجہ کا مرکز اور بھاری اہلکاروں کی جگ ہنسائی کا سبب بن گئی۔ سوشل میڈیا صارفین نے بھارتی حکام کو خوب ٹرولنگ کا نشانہ بھی بنایا۔

بی ایس ایف کے اہلکاروں کی نئی وردی پر تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب شیئر کردہ ویڈیو میں اہلکار سفید برف سے ڈھکے پہاڑی علاقوں میں نمایاں طور پر متضاد سیاہ وردیوں میں حرکت کرتے دکھائی دیے۔

یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہو گئی، جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے برفانی ماحول میں سیاہ وردی کی عسکری افادیت پر سوالات اٹھا دیے۔

سوشل میڈیا صارفین بھارتی حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگی علاقوں میں وردی کا بنیادی مقصد ماحول میں گھل مل جانا ہوتا ہے۔ بعض صارفین کا کہنا ہے کہ گہرے رنگ کی وردی کیموفلاج کی صلاحیت کو کم کر دیتی ہے اور اہلکاروں کو زیادہ نمایاں بنا کر خطرات میں اضافہ کر سکتی ہے۔

ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ برف پوش پہاڑوں کے لیے سیاہ وردی کی منظوری کس نے دی؟، جبکہ دیگر نے اسے حربی لحاظ سے غیر مؤثر اور آپریشنل سیکیورٹی کے منافی قرار دیا۔

کچھ صارفین نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اس قدر نمایاں وردی سفید پس منظر میں اہلکاروں کی شناخت کو مزید آسان بنا دیتی ہے۔ دیگر صارفین نے ڈیزائن کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ سرمائی جنگ میں کیموفلاج کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

صارفین کے مطابق برفانی علاقوں میں سفید، سرمئی یا ہلکے نیلے رنگ کے پیٹرنز مؤثر ثابت ہوتے ہیں، جبکہ سیاہ رنگ اس کے برعکس ہے اور اس سے اہلکار نمایاں ہو جاتے ہیں۔

صارفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے زمینی حقائق اور عملی تقاضوں سے لاعلمی کی عکاسی کرتے ہیں، کیونکہ غیر مناسب رنگ کی وردی برفانی ماحول میں اہلکاروں کو آسان ہدف بنا سکتی ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید