• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان 1947میں جغرافیائی و سیاسی کینوس میں تیزی سے ہوتی تبدیلیوں کے بیچ وجود میں آیا۔ دوسری عالمی جنگ ابھی ختم ہوئی ہی تھی۔ سرد جنگ کا دور عالمی اتحاد کی تشکیل نو کر رہا تھا۔ مشرقی برلن سوویت یونین جبکہ مغربی برلن اتحادی افواج کی کمان میں تھا۔ نیٹو اتحاد امریکہ کے شدید اثر و رسوخ میں تھا جبکہ وارسا کے دستخط کنندگان کی کمانڈ روس کے پاس تھی۔ سیاسی اور نظریاتی سرحد وں کی لکیر کھنچ چکی تھی، سوویت یونین اور اس کی سیٹلائٹ ریاستوں کو مغرب، اس کے اتحادیوں اور غیر جانبدار ریاستوں کے ساتھ رابطے سے روکنے کی کوشش میں یورپ تقسیم ہوا۔ جوزف اسٹالن لاکھوں قیدیوں اور سیاسی مخالفین کو سائبیرین حراستی کیمپوں میں بھیج رہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ان مراکز میں تقریباً 50 ملین افراد ہلاک ہوئے۔ 10,000 کلومیٹر سے زیادہ کے لانگ مارچ نے انتہائی دشوارحالات میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بقا کو ممکن بنایا اور ماو زے تنگ کی قیادت پر محفوظ گرفت بالآخر عوامی جمہوریہ چین کی تشکیل کا باعث بنی۔

پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے آخری لمحات میں ماسکو کا دورہ منسوخ کر دیا اور واشنگٹن چلے گئے۔ پاکستان بالآخر سیٹو اور سینٹو معاہدوں کا رکن بن گیا۔ امریکہ کی طرف سے مالی اور فوجی امداد کی آمد کے باعث پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں اور انفراسٹرکچر کی ترقی کا آغاز ہوا۔ 1954میں عوامی قانون ''Better than a Bomber'' کانگریس نے منظور کیا جس نے ''دوست ممالک'' کو مقامی کرنسی میں امریکی زرعی اجناس خریدنے کے قابل بنایا، اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر کی بچت اور امریکی اناج کی فراہمی ممکن ہوئی۔ پشاور سے16کلومیٹر دوربڈھ بیر میں امریکہ کی طرف سے چلائے جانے والے ایک بڑے مواصلاتی انٹرسیپٹ آپریشن کیلئےسہولتیں مہیا کی گئیں۔ امریکی جاسوس طیاروں U2 نے اس ایئربیس سے خفیہ مشن کئے۔ امریکی فضائیہ سے فارغ ہونے والے فرانسس گیری پاورز نے سی آئی اے کے U2پروگرام میں شمولیت اختیار کی تاکہ جدید ترین کیمروں سے لیس جاسوسی کے مشن کو انجام دیا جا سکے جو سوویت یونین سمیت دشمن ممالک کی ہائی ریزولوشن تصاویر لینے کے لئے بنایا گیا تھا۔ وہ یکم مئی 1960 کو پشاور ایئربیس سے روس جانے کیلئے روانہ ہوا سوویت یونین نے اس کا طیارہ مار گرایا ، وہ پکڑا گیا۔ کے جی بی نے اس سے پوچھ گچھ کی ، اس نے جاسوسی کا اعتراف کرلیا۔ پشاور سے اڑان بھرنے کے انکشاف نے پاک روس تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ، خروشیف نے پاکستان کو ایک دشمن پڑوسی کے طور پر نشان زد کرلیا۔

پاکستان کے برعکس بھارت نے اپنے قیام سے ہی پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں روس سے انتہائی مضبوط تعلقات کو پروان چڑھایا۔ جدید ترین فوجی سازوسامان کے حصول کے علاوہ ہندوستان نے سوویت یونین سےمگ 19اور مگ 21 طیارےبھی حاصل کئے۔ اس کے باوجود 1962میں لداخ میں ہندوستان کو چینیوں کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 1979 میں روس کے افغانستان پر حملے کے بعد خطے کی تقدیر بدل گئی۔ پاکستان کے تعاون سے سی آئی اے نے طالبان کی پرورش کی، اور 6000 طالبان کی پہلی کھیپ افغانستان میں لڑائی کیلئے اتار دی گئی۔ طویل جدوجہد کے بعد امریکہ روس کو افغانستان سے باہر کرنے اور سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہوا۔روسیوں کی لچک اور ان کے مضبوط عزم نے اب انہیں سابق KGBہیڈ، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں دوبارہ اٹھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ روس میں جی ڈی پی کی سالانہ شرح نمو 1996سے 2022 تک اوسطاً 2.67 فیصد رہی جو ظاہر کرتی ہے کہ آہستہ آہستہ روسیوں نے نہ صرف ترقی جاری رکھی بلکہ تیل ،گیس کی برآمدات کو بھی مستحکم کیا اور فوج کو دوبارہ منظم کیا۔ تیل کی برآمدات اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ، روس کی آمدنی 2022 میں 337.5بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو 2021 کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔

روس نے یوکرین کے خلاف فوجی مہم شروع کی تو ستم ظریفی یہ ہوئی کہ روسی حملہ اور پاکستان کے وزیر اعظم کا دورہ ایک ساتھ ہوا ،سو عالمی برادری نے اسے منفی نظر سے دیکھا۔نیٹو نے روس کو یوکرین میں مصروف رکھنے کیلئے یوکرین کو فنڈز اور فوجی ساز و سامان کی شکل میں امدادفراہم کردی ۔ روس کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے یورپ کو اپنی گیس سپلائی روک دی ۔ سردیوں میں گیس کے بلوں میں تیزی سے اضافہ ہوا، برطانیہ سمیت یورپ بھر کے رہائشیوں کو مشکلات کا سامنا رہا۔ دوسری جانب پاکستان روس کے ساتھ سستی گیس اور تیل کا پہلا معاہدہ کررہا ہے۔اطلاعات کے مطابق روس سے پاکستان کو تیل اور گیس کی سپلائی مارچ 2023سے شروع ہو جائے گی جس سے پاک روس تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

عالمی منظر نامہ آج پھر تبدیل ہو رہاہے۔ تاہم تبدیلی کے اثرات کا خوف اور خدشات بھی منڈلا ر ہے ہیں۔ روس اور چین کے درمیان تعلقات دن بہ دن مضبوط ہو رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے پر بھروسہ اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے مواقع تلاش کر رہے ہیں چین ایک مسلّمہ معاشی قوت ہے جس نے CPEC اور OBOR کے ذریعےدنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ کو کئی گنا بڑھایا ہے۔ چین جلد ہی وسط ایشیائی ریاستوں سے گوادر تک سڑک اور ریل رسائی کے انتظامات کرنے والا ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنی دیرینہ دوستی اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرنابے حدفائدہ مند ہو گا۔ اس صورت حال سے روس بھی فائدہ اٹھائے گا۔ پاکستان کا سب سے بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈہ گوادر پاکستان کی خوشحال کی ضمانت ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین