• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت خوفزدہ، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے نہرو فیصلے کی خفیہ دستاویزات منظرعام پر نہ لانے کیلئے کوشاں

کراچی (رفیق مانگٹ)بھارت خوفزدہ، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے نہرو فیصلے کی خفیہ دستاویزات منظر عام نہ لانے کیلئے کوشاں ، ’’بوچر پیپرز‘‘ میں موجود دلائل پر انڈین وزیراعظم نہرو نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ،دستاویزات میں مسئلہ کشمیر پر سینئر سرکاری رہنماؤں کے مابین خط وکتابت بھی شامل

دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے بھارت کوخارجہ تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ، برطانوی اخبار کے مطابق کشمیر کو خصوصی حیثیت دیئے جانے کے جواہر لال نہرو کے فیصلے کی خفیہ دستاویزات’’ بوچر پیپرز‘‘ کو منظر عام پر آنے سے روکنے کی بھارتی کوششیں جاری ہیں، بھارت خوفزدہ ہے کہ حساس دستاویزات’’1947 کشمیر پیپرز‘‘ کے منظر عام پر آنے سے خارجہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے ان خفیہ دستاویزات کوبوچر پیپرز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار’’گارجین ‘‘نے اندرونی سرکاری خط وکتابت کا مطالعہ کیاجن کے مطابق ، بھارت 1947 میں کشمیر سے متعلق پیپرز کی ڈی کلاسفائیڈ کو روک سکتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ’’حساس‘‘ خطوط خارجہ تعلقات کو متاثر کرسکتے ہیں۔

’’ بوچر پیپرز‘‘ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں فوجی اور سیاسی دلائل ہیں جن کی بنا پر ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور ریاست جموں اور کشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کی۔ کئی دہائیوں سے ہمالیہ کے دامن میں اس خطے کو خارجہ امور اور دفاع کے علاوہ تمام معاملات پر ایک علیحدہ آئین ، ایک جھنڈا اور خودمختاری دی گئی۔

یہ اقدامات کشمیریوں نے مسلم اکثریتی ریاست میں ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے انتہائی اہم کے طور پر دیکھے تھے۔لیکن 2019 میں ، ہندو قوم پرست وزیر اعظم ، نریندر مودی کی حکومت نے اسےہندوستان میں مکمل طور پر ضم کرنے کی کوشش میںمقبوضہ ریاست کی آئینی خودمختاری کو باضابطہ طور پر منسوخ کردیا۔اس فیصلے نے اس خطے پر حکومت کی گرفت کو سخت کردیا اور غصے اور ناراضگی کوبڑھادیا۔

بوچر پیپرز جنرل سر فرانسس رابرٹ رائے بوچر کے مابین مواصلات کا حوالہ دیتے ہیں ، جنہوں نے 1948 اور 1949 کے درمیان ہندوستانی فوج کے دوسرے کمانڈر ان چیف اور نہرو سمیت سرکاری عہدیداروں کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

کئی سالوں کے دوران ، کارکنوں کی جانب سے آرٹیکل 370 پر روشنی ڈالنے کے لئے ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے کی متعدد کوششیں کی گئیں ، جس نے جموں و کشمیر کو اپنی خصوصی حیثیت دی۔برطانوی اخبار نے وزارت خارجہ کی ایک حالیہ دستاویز کو دیکھا جس میں کہا گیا ہے کہ ابھی ان دستاویزات کے مندرجات کو منظر عام پر نہیں لایا جانا چاہئے۔

 دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ان مقالوں میں "کشمیر میں فوجی آپریشنل معاملات اور کشمیر سے متعلق حساس سیاسی معاملات پر سینئر سرکاری رہنماؤں کے مابین خط و کتابت شامل ہیں۔یہ پیپرز نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں رکھے گئے ہیں ، جو ہندوستان کی وزارت ثقافت کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے۔

اس معاملے سے آگاہ ایک ذریعے نے انکشاف کیا کہ نہرو کشمیر میں فوجی پیش رفت سے آگاہ تھے۔ذرائع نے بتایا ،’’رائے بوچر نے اقوام متحدہ کے سامنے اس معاملے کو لے جانے سمیت 13 ماہ کی فوجی تعیناتی کی وجہ سے ہندوستانی فوجیوں کو درپیش فوجی تھکاوٹ کو دیکھتے ہوئے بڑھتی ہوئی صورتحال کو حل کرنے کے لئے ایک سیاسی نقطہ نظر کی تجویز پیش کی۔‘‘اس تجویز نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کے نہرو کے فیصلے کو متاثر کیا۔

 1952 میں ، انڈینوزیر اعظم نے استدلال کیا کہ کشمیر کے عوام کی امنگوں کا احترام کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے ہندوستان کی پارلیمنٹ کو بتایا ، ’’میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ یہ صرف کشمیر کے لوگ ہی ہیں جو کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ہم ان پر بندوق کے زور پر خود کو مسلط نہیں کریں گے۔بوچر پیپرز کو ہندوستان کی وزارت خارجہ نے 1970 میں نئی دہلی میں نہرو میوزیم اور لائبریری کے حوالے کیا تھا ، جس میں ایک نوٹ کے ساتھ کہا گیا تھا کہ انہیں’’ کلاسیفائیڈ‘‘ رکھنا چاہئے۔

 وزارت خارجہ کے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وہ تب سے لائبریری کے بند مجموعہ میں ہیں۔ایک ہندوستانی کارکن ، وینکٹیش نائک نے کاغذات کو منظر عام پرلانے کے لئے متعدد اپیلیں دائر کی ہیں ، یہ اقدام ابتدائی طور پر مسترد کردیا گیا تھا۔ تاہم ، 2021 میں ہندوستانی انفارمیشن کمشنر نے فیصلہ دیا کہ یہ ’’قومی مفاد‘‘ میں ہے لیکن اہم دستاویزات کے منظر عام پرلانے کے حکم پر عمل درآمد میں ناکامی ہوئی۔

 حکم میں تجویز کیا گیا ہے کہ لائبریری وزارت خارجہ کی اجازت سے تعلیمی تحقیق کے لئے کاغذات کو منظر عام پر لا سکتی ہے۔12 اکتوبر 2022 کے ایک خط میں لائبریری کےنریپیندر میسرا کی طرف سے بھارتی سکریٹری خارجہ کو کہا گیا کہ یہ دستاویزات علمی تحقیق کے لئے بہت اہم ہیں اور ان پیپرز کو منظر عام پر لانے کی درخواست کی گئی اور کہا گیا کہ ہم نے بوچر پیپرز کے مندرجات پڑھے ہیں۔

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ان پیپرزکو ماہرین تعلیم کی پہنچ سے باہر’’کلاسیفائیڈ‘‘ رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دیگر اہم شخصیات کی دستاویزات کو منظر عام کرنے جارہے ہیں۔ہندوستان عام طور پر 25 سال بعد آرکائیو دستاویزات کے خاتمے کی اجازت دیتا ہے۔

وزارت خارجہ نے اس دستاویز میں استدلال کیا کہ پیپرز کو ابھی خفیہ ہی رہنے دینا چاہئے اور مشورہ دیا گیا ہے کہ رائے بوچر پیپرز کی حساسیت اور ان کے انکشاف کے ممکنہ مضمرات کی مزید جانچ کی جانی چاہئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی اس معاملے پر حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے۔گار جین نے جواب کے لئے ہندوستانی وزارت خارجہ اور نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری سے رابطہ کیا ہے۔

اہم خبریں سے مزید