جو حمام تھا اسے اب سوئمنگ پول کرنا پڑے گا، کیونکہ جتنے لوگ ’’فریش‘‘ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، اس حساب سے حمام بہت چھوٹا پڑ جائے گا، جن جن اکابر اور منصفین کے قصے زبان زدِ خاص و عام ہونے چلے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا نہیں ہے کسی محقق کو کوئی دوربین یا خوردبین چاہئےکہ وہ معاملات و شخصیات کی خود چھان بین کرے، محقق گر تھیسس کی حتمی شکل یا پبلی کیشن چاہتا ہے تو محض بسم اللہ کرے، یہاں پلیجرزم بھی ازخود ایک حوالہ ہوگا ۔
یہ کہنا پڑ گیا ہے کہ:’’قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے ، رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے ۔‘‘ پہلے زمانوں میں یہ ہوتا کہ، کوئی بیوروکریٹ ریٹائر ہوتا تو وہ کچھ واقعات قلم بند کردیتا، اس کے رشحاتِ قلم سے مستفید ہوکر لوگ اپنی اچھی یا بری رائے بنا لیتے بھلے ہی وہ مصنف اپنے معتبر اور دیانت دار ہونے کی قلمی کوشش کے جرم کا جتنا بھی مرتکب ہوتا۔ اب ہر کوئی ’’اپنا گریباں چاک‘‘تو نہیں لکھتا اور نہ منٹو سے عام ملتے ہیں، نہ یہاں مغرب ہی سے صدور ہوتے ہیں جو پہلے مجبور اور بعد میں مقدور ہوئے ہوں، کوئی موچی سے صدر بن جائے یا کوئی جولاہے سے وزیراعظم۔ یہاں تو سب سبسڈی مار اشرافیہ ہی نے بننا ہے۔ روزویلٹ سا ایک صدر اٹھتا ہے تو معاشی دلدل کو امریکی گل و گلزار میں بدل دیتا ہے، وہ بھی فقط سو دن میں، براہ راست اداروں کی ریڈیو پر رہنمائی کرتا ہے وہ تکنیکی بنیادوں پر بے بسی کو نوکریاں دیتا، بینکوں کو دیوالیہ پن سے بچاتا ہے، جنگی حالت میں استحکام کو جلا بخشتا ہے حالانکہ اپنی دونوں ٹانگوں سے فالج کے سبب معذور اپنے ملک کو پاؤں پر کھڑا کر کے دم لیتا ہے، کیونکہ وہ ذہنی معذور ہوتا ہے نہ حرص و ہوس اور اقربا پروری کا مریض۔
بہرحال، عہد حاضر نے کتابیں پڑھ کر، اور استاد نے کتابیں پڑھا کر جو قومی بنیادیں بنانی تھیں وہ اب سوشل میڈیا کھوکھلی کر رہا ہے جس پر کوئی ایڈیٹر ہے نہ کریڈیبلٹی کا ہاتھ۔ پچھلے سات عشروں سے ہم مہاجر و مقامی، سنی و وہابی، چوہدری و کّمی، سول ’’سرونٹ‘‘ اور رعایا میں تقسیم تھےکہ ایک جدید مولوی یا نیم حکیم ماڈرن نے نیا بٹوارہ متعارف کرا دیا کہ ’’مخالف چور مہا چور اور میرے چور سادھو۔‘‘ یہاں ہی نہیں رُکا، قوم پرستی کا ڈھونگ رچانے پر آیا تو کہا ،’’مغرب سے زیادہ مغرب کو جانتا ہوں۔‘‘ مفتی وہ کہ ’’اپنی منجھی تھلے ڈانگ نئیں پھیرنی‘‘ دوسروں کو پھیرنی ہے، بھئی واہ!
وزیراعظم ہاؤس کی فون کالوں سے نَت ہاؤس گجرات کی کالیں وہ وہ گَڑے مُردے اُکھاڑ رہی ہیں کہ رہے نام اللہ کا، کوئی ایوان بچا ہے نہ سلطان، فون کالوں کی زد میں ایوان زیریں کیا اور ایوان بالا کیا حتیٰ کہ عدل کے ایوان بھی ایسے آگئے کہ کچھ پوچھئے مت! حالات حاضرہ کی عینک سے 2008 تا 2013 کے مناظر دیکھتے ہیں تو پاکیٔ داماں کی حکایت کا منظرنامہ دکھائی دینے لگتا ہے، تو اِس جدید دور کو قحط الرجال کا نام دیں یا انکشافات و ترقیات کا ؟ جان کی امان پائیں تو حسین حقانی کیس، گیلانی وزارتِ عظمیٰ کی سُبُک دوشی اور گیریژن سٹی کے سانحہ اسامہ کو از سرِ نو دیکھنے کو مَن کرتا ہے۔ ’’کون ہے جس نے مے نہیں چکھی، کون جھوٹی قسم اٹھا تا ہے، مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے، تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے!‘‘ اور الزامات کے سب اعزازات پھر بھی آصف علی زرداری کے سر ؟ زرداری صاحب کے خلاف تو ایک اسٹے آرڈر پر پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ پورا دورانیہ نکال سکتا تھا، اور آج کیسوں کا یہ عالم کہ، کچھ کیسوں کا اسپیڈ پکڑنا یا ان کو آہستہ کرنا محال۔ کوئی 35 پنکچر کہہ کر مکر گیا کہ وہ سیاسی بیان تھا ایسے جیسے قومی اسمبلی پر لعنت ملامت کرکے استعفے دینے والے اب کہتے ہیں کہ یہ بھی سیاسی بیان ہے۔ جب کچھ لوگ 2018 تا 2022 تک کہتے تھے عمران خان نے اب سارا گند (بقول ان کے) اپنی جھولی میں کیوں ڈال لیا ہے، تو جواب ملتا ، عمران خان فرشتے کہاں سے لائیں سو فقیر کہا کرتا تھا ، پھر فرشتوں سی باتیں ہی کیوں کرتے ہیں؟ تھوڑا اور پیچھے چلئے، زرداری صاحب نے افتخار محمد چوہدری کے معاملے میں کچھ حیل و حجت سے کام لیا تھا تو گیلانی کے خلاف کالاکوٹ پہننے والوں نے میثاق جمہوریت کا چوغہ بھی اتار پھینکا۔ وہ زمانہ بھی یاد ہے جب جنرل مشرف، بعد ازاں پیپلزپارٹی نے رینٹل پاور پلانٹس کا اہتمام کیا، تعصب میں اس کے خلاف شور اٹھا ، افتخارِ محمد چوہدری نے اس منصوبے کو آڑے ہاتھوں لیا ، لیکن پروجیکٹ کا نام بدل کر (IPPs) مسلم لیگ نواز نے بھی انہی پر انحصار کیا، آخر سابق وزیراعظم و سابق وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف اور حالیہ اسپیکر قومی اسمبلی انہی عدالتوں سے سرخرو ہوئے لیکن جو دھول اٹھی اور آلودہ کر گئی وہ وقت تو واپس نہیں آ سکتا۔ خبر بڑی دیکھی جاتی ہے خبر کی تردید کون پڑھتا ہے؟ وہ، اینٹ سے اینٹ بجانے کی ذرا بات ہی کی تھی کہ میاں صاحب نے ڈنر ہی ٹھکرا دیا ، زرداری کو دیارِغیر جانا بھی پڑا ، اور آج لوگ سب کچھ کر کے بھی عدالت سے خود ضمانت نہیں لینے جاتے ، کہ ضمانت ہوم ڈیلیوری دیدیں.... ٹین پرسنٹ پھر بھی آصف علی زرداری ؟
وہ جو کہتے نیوٹرل نہ بنیں مجھے قائم و دائم بنائیں بصورتِ دیگر مسلسل سیخ پا ہیں، وہ جو صدارتی نظام کی جانب بڑھنے کا محسوس اور غیر محسوس انتظام کرتے رہے، وہ جو کبھی امریکہ اور کبھی جرنیلوں کو عالمی سطح پر بُرا کہہ کر پاکستان کے خارجی اور دفاعی امور اور راز پراگندہ کر گئے وہ اسمارٹ کہلائیں اور جنہوں نے صدر ہوتے ہوئے ایوان صدر سے اختیارات پارلیمنٹ کو دیئے اور 18ویں ترمیم سے جمہوریت کا بول بالا کیا ان پر الزامات، این ایف سی ایوارڈ کی وفا والے برے، ایران سے گیس معاہدے والے نا پسندوں کا ٹریک ریکارڈ حالیہ لٹمس ٹیسٹ کے مقابلے پر تو جمہوری امیرالمومنین والا بن گیا، تو کیا حالیہ کسوٹی کے تناظر میں آصف علی زرداری کو جمہوری امیرالمومنین کہہ دیں؟