آج مسلم لیگ ن بطور سیاسی جماعت سخت آزمائش سے دوچار ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پارٹی کی مقبولیت اور بیانیہ برے طریقے سے متاثر ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن نے پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی سب سے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پنجاب مسلم لیگ ن کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا مگر آج اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا پنجاب سے ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے تحریک انصاف کے منحرف اراکینِ اسمبلی اس شرط پر عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ساتھ دینے پر راضی ہوئے تھے کہ انہیں بدلے میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا جائے گا۔ حتی کہ یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر بننے کی راہ بھی ہموار اسی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ نے کی تھی۔ گزشتہ ایک سال میں جس شدت کے ساتھ مہنگائی بڑھی ہے اسی تیزی سے مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک متاثر ہوا ہے۔ آج مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اپنی مقبولیت بحال کرنے کیلئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن آج بھی پنجاب کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کا گراف عارضی ہے لیکن اگر اس کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو یہ دائمی بھی ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اکابرین کی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے اپنی صفوں کو درست کریں۔ وگرنہ اس گھر کو آگ لگ جائے گی گھر کے چراغ سے۔ اس وقت میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف مسلم لیگ ن کو چلارہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنی سیاسی وراثت اپنی بیٹی مریم نواز کے سپرد کی ہے جبکہ شہباز شریف نے اپنے فرزند حمزہ شہباز کو اپنا سیاسی جانشین بنایا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں انہی دو کزنز کو مسلم لیگ ن کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔
حمزہ شہباز نے شریف خاندان میں سب سے طویل جیل کاٹی ہے، مشرف آمریت میں بھی پورا شریف خاندان حمزہ شہباز کو پاکستان چھوڑ کر سعودی عرب گیا تھا بلکہ یوں سمجھیں کہ فوجی آمر پرویز مشرف نے حمزہ شہباز کو بطور گارنٹی پاکستان میں روک لیا تھا۔ پہلی مرتبہ حمزہ شہباز1992-94میں جیل گئے تھے۔ جیل سیاستدان کا دوسرا گھر تصور کی جاتی ہے،عمران حکومت میں حمزہ شہباز کا زیادہ وقت دوسرے گھر میں ہی گزرا ۔ عمران حکومت کا اولین ٹارگٹ حمزہ شہباز ہوا کرتے تھے، اس لئے نیب نے مسلسل دو سال تک حمزہ شہباز کو اپنا قیدی بنائے رکھا۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا قرعہ فال حمزہ شہباز کے نام نکلا۔
مگر حمزہ شہباز ایسے وقت میں وزیر اعلی پنجاب بنے جب مسلم لیگ ن کا برا وقت چل رہا تھا۔ تمام فیصلوں کا بوجھ حمزہ شہباز کے کندھوں پر آپڑا۔ رہی سہی کسر جنرل(ر) باجوہ کی دوغلی پالیسی نے پوری کردی۔ ایکسٹینشن کی خواہش چند ماہ قبل پوری نہ ہونے پر شہباز شریف کے بیٹے کی وزارت ِاعلیٰ چھین لی گئی۔ جس کے بعد حمزہ شہباز بھی سیاسی معاملات سے دلبرداشتہ ہوگئے۔
حمزہ شہباز کی مسلم لیگ ن پنجاب کیلئے بہت خدمات ہیں۔میاں نوازشریف کے بعد حمزہ شہباز کی پنجاب کے تمام سیاسی گھرانوں اور الیکٹیبلز پر مضبوط گرفت ہے۔ پنجاب کے سیاستدانوں کا مزاج وہ خوب سمجھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی طرح دوستوں اور ساتھیوں کا خوب پہرا دیتے ہیں، کسی بھی سیاسی پریشر پر دوستوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ اپنے دھڑے کے پکے ہیں۔
2008 سے 2018 تک مسلم لیگ ن کو پنجاب میں مضبوط کرنے میں انکا کلیدی کردار رہا ہے۔ پارٹی کی بھی حمزہ شہباز پر 30 سال کی انویسٹمنٹ ہے۔ نہ انہیں پارٹی کے معاملات سے دور رہنا چاہئے اور نہ پارٹی کو انہیں دور ہونے دینا چاہئے۔ وگرنہ مسلم لیگ ن کو توقع سے بھی زیادہ اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔پنجاب میں مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ بحال کرنے کیلئے حمزہ شہباز اور مریم نواز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پنجاب کے سیاستدانوں کو حمزہ شہباز سے بہتر کوئی ڈیل نہیں کرسکتا، جبکہ عوامی مقبولیت میں مریم نواز کا کوئی ثانی نہیں ۔
نہ ہی صرف بڑے جلسوں اور عوامی مقبولیت سے الیکشن جیتا جاسکتا ہے اور نہ ہی صرف الیکٹیبلز اور بڑے سیاسی گھرانوں کےبل بوتے پر الیکشن میں کامیاب ہوا جاسکتا ہے۔ عوامی مقبولیت اور الیکٹیبلز دونوں کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی الیکشن میں کامیاب ہوا جاسکتا ہے۔ اس لئے مریم نواز اور حمزہ شہباز کاساتھ ہی مسلم لیگ ن کو اس آزمائش سے نکال سکتا ہے۔ اگر آج حمزہ شہباز وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے ضمنی الیکشن ہارے ہیں تو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حمزہ شہباز جتنے بھی ضمنی الیکشن پارٹی کو جتواتے رہے ہیں، اس وقت وزیراعلیٰ تو کیا وہ وزیر بھی نہیں تھے۔ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرکے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ حمزہ شہباز مسلم لیگ ن کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ پارٹی کو آج ان کی اشد ضرورت ہے۔ امریکہ (ہیوسٹن )سے فوری واپس آکر اپنا سیاسی سفر وہیں سے شروع کریں جہاں سے جولائی 2022 میں چھوڑ کر گئے تھے۔ آپ تو خود کہتے ہیں کہ وقت کی خوبی یہ ہے کہ اس کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)