• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاں آئین خاموش ہے وہاں قانون موجود ہے، کل کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں، جہاں آئین خاموش ہے وہاں قانون موجود ہے، کل کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

 دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 254 کا اطلاق تب ہوگا جب کوئی کام تاخیر سے کیا گیا ہو۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مد نظر رکھے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں، آپ کہہ رہےہیں تاریخ تو دیں پھر ہوتا ہے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آج الیکشن کااعلان کریں گے تو 90 دن کی حد پر عمل نہیں ہو سکتا، کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں، 2008 میں انتخابات کی تاریخ آگے گئی تھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ تو قومی سانحہ تھا۔

 چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کل صبح کون کون دلائل دے گا؟ کیا فاروق نائیک صاحب دلائل دیں گے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ عابد زبیری اور شعیب شاہین کو سنیں گے، ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں، جہاں آئین خاموش ہے وہاں قانون موجود ہے،  کل کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

صدر مملکت کے سیکریٹری عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ صدر مملکت نے سلمان اکرم راجہ کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے، صدر مملکت کا کہنا ہے اٹارنی جنرل اپنا مؤقف دے چکے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے بھی دلائل مکمل کیے ، جبکہ فاروق نائیک نے کہا کہ کل مختصر دلائل دوں گا۔

اس سے قبل از خود نوٹس پر سماعت کرنے والا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس یحییٰ نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں اب 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر بھی شامل ہیں۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ جس کے جواب میں اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کرسکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا۔

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے؟  کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟

 جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائے گی۔

جسٹس منصور نے کہا کہ میری رائے میں گورنر کی صوابدید ہے کہ فیصلہ کرے اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں،  جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی یہ صوابدید نہیں ہے، گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔

سماعت تاخیر سے شروع ہوئی

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت تاخیر سے شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 4 ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دار و مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کر کے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب تک حکم نامہ ویب سائٹ پر نہ آ جائے جاری نہیں کر سکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکم نامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آ گیا تھا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو، علی ظفر دلائل کا آغاز کریں، آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ آگاہ کیا جائے کہ عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟ کل ہر صورت مقدمے کو مکمل کرنا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ درخواستیں سن کر معاملے کو نمٹائیں گے۔

اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی، گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہیں کی، گورنر کے انکار پر 48 گھنٹے میں اسمبلی از خود تحلیل ہو گئی، کوئی آئینی عہدے دار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کر سکتا، پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہو چکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ گورنر کون مقرر کرتا ہے؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنر کا تقرر صدرِ مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت پر از خود اسمبلی تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمے دار ہے، اسی معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں 90 دن میں تاخیر کو جسٹیفائی کرے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا کوئی انتخابات میں تاخیر کر سکتا ہے؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کر سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے، گورنر یا الیکشن کمیشن کو عدالت انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فریقین کے کہنے پر مقدمہ مؤخر ہوا ہے؟

اظہر صدیق نے کہا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ التواء ہے اس لیے ہائی کورٹ سے مؤخر ہوا۔

علی ظفرنے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں جاری انٹرا کورٹ اپیل میں کوئی حکمِ امتناع نہیں دیا گیا۔

جسٹس منصور نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا کوئی توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہو چکی ہے۔

اظہر صدیق نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہینِ عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لاہور میں انٹرا کورٹ اپیل پر اتنے لمبے التواء کی کیا وجوہات دی گئیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التواء نہیں دیا جا سکتا۔

اظہر صدیق نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التواء دیا گیا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت دائر کی گئی، توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدرِ مملکت نے معاملے پر 2 خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنے کا کہا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا صدرِ مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا؟

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ میری معلومات میں پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ صدرِ مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم کے متضاد ہے، ہائی کورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا، صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں ہوئی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتے، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے پر کوئی تیار نہیں،  پہلے آپ، نہیں پہلے آپ کر کے تاخیر کی جا رہی ہے، صدر نے تاریخ مقرر کرنے کے خط میں تمام حقائق کو واضح کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے استفسار کیا کہ کیا صدر سے کسی نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں یا انہوں نے ازخود ایسا کیا؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے صدر کو مداخلت کرنا پڑی، کسی نہ کسی نے تو تاریخ کا اعلان کرنا ہی ہے، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ دے گا تو اسے حکم جاری کرے گی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جمہوریت میں خلاء چھوڑ دیا جائے، باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات کسی اور ادارے نے کرانے ہیں تو وہ بھی عدالت کو بتا دیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے، گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے، گورنر کے پی نے اپنے خط میں سیکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے، انتخابات کی تاریخ تو گورنر کے پی نے بھی نہیں دی، پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیرِ التواء ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نکتہ طے کرنا ہے، یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کے پی اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کے پی میں انتخابات سے متعلق کیا پیش رفت ہوئی؟

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا گورنر کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس اب صرف اسی سوال پر چل رہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہینِ عدالت ہو گی؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ از خود نوٹس میں سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس میں الیکشن 10 سال تاخیر کا شکار ہو جائے، دوسرا فریق بتا دے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ اگر انتحابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک مہینہ گزر گیا ہے تاحال کوئی اعلان نہیں کیا جاسکا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ آئے تو ہی فیصلہ ہو گا کہ اس وقت انتخابات ہو سکتے ہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کر دیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امن و امان کا معاملہ گورنر کا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے، کیا امن و امان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آ سکتا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 2013ء اور 2018ء میں اسمبلیوں نے مدت مکمل کی تھی۔

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے بتایا کہ اسمبلی مدت مکمل کرے تو صدرِ مملکت انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کے پی میں وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس پر عمل درآمد ہوا لیکن پنجاب میں نہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے لیے 90 دن کی حد مقرر کی گئی ہے، 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے صرف اعلان نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری انتخابات کے لیے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں، آرٹیکل 218، 219 اور 222 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی ذمے داری دیتے ہیں، تمام ایگزیکٹیو ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔

اس کےساتھ ہی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت 4 بجے دوبارہ سماعت کرے گی۔

تفصیلی سماعت تاخیر کا شکار ہوئی

اس سے قبل از خود نوٹس کی آج ہونے والی تفصیلی سماعت تاخیر کا شکار ہو گئی تھی۔

عدالتِ عظمیٰ میں از خود نوٹس کی سماعت کے لیے پہلے ساڑھے 11، پھر 12 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔

عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے: جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بادی النظر میں درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے دائرے میں آتی ہیں۔

اپنے نوٹ میں ان کا کہنا ہے کہ فیصلہ جاری کرنے کے لیے عدالتی اختیارات کا استعمال ٹھیک نہیں ہو گا، معاملہ ابھی لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں زیرِ التواء ہے جس پر فیصلہ ہونا باقی ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ کار انڈی پینڈنٹ ہے جس کا دیگر عدالتوں میں زیرِ التواء معاملے سے تعلق نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اپنے نوٹ میں کہنا ہے کہ ماحول چارج ہے، سیاسی جماعتوں کا نکتۂ نظر بھی ہے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے، عدالت کی خواہش پر ردِ عمل سے بچنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے، سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران ریمارکس یا فیصلہ جاری کرنا پارٹیوں کے دعوؤں کے ساتھ تعصب ہو گا، یہ ہائی کورٹ کے قانونی دائرہ اختیار کی بھی توہین ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس طرح ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار پر بھی اثر ہو گا، ہائی کورٹ قانون کو عزت اور پختگی سے چلانے کا حق رکھتی ہے، میں تینوں درخواستوں کو مسترد کرتا ہوں، ہمارے لیے آرٹیکل 184 (3) کا استعمال تینوں درخواستوں پر درست نہیں ہو گا۔

اپنے نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرا سماعت کو سننے کا کوئی فائدہ نہیں، میں بینچ پر اپنے آپ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔

از خود نوٹس مناسب نہیں: جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ رات گئے میں نے ایک فائل وصول کی کہ معزز چیف جسٹس نے ایک از خود نوٹس لیا ہے۔

اپنے نوٹ میں ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے از خود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کے ایک حکم کی بنیاد پر لیا، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کا حکم فیڈرل سروس ٹریبونل کے خلاف غلام محمود ڈوگر کی اپیل پر دیا گیا تھا، غلام محمد ڈوگر کی اپیل اپنی ٹرانسفر کے حوالے سے تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ غلام محمود ڈوگر کے وکیل عابد ایس زبیری ہیں، غلام محمود ڈوگر کی اپیل زیرِ التواء تھی جب 16 فروری کو بینچ نے چیف الیکشن کمشنر کو بلایا جو درخواست میں فریق نہیں، چیف الیکشن کمشنر سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کے حوالے سے پوچھا گیا۔

انہوں نے نوٹ میں کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے جواب سے قطع نظر، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجنا، معاملے پر ان کا از خود نوٹس لینا مناسب سمجھا، الیکشن سے متعلق معاملے کا ملازمت کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ 3 آڈیو ریکارڈنگز منظرِ عام پر آئیں، ایک آڈیو میں عابد زبیری مبینہ طور پر سابق وزیرِ اعلیٰ سے بات کر رہے ہیں، عابد زبیری مبینہ طور پر سابق وزیرِ اعلیٰ سے غلام محمود ڈوگر کے زیرِ التواء کیس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہ معاملہ نہایت سنجیدہ تھا، اس کے علاوہ معزز جج صاحبان یہ کہہ کر اپنی رائےکا اظہار کر چکے ہیں کہ انتخابات 90 دن کے اندر کرانا ضروری ہیں اور یہ کہ آئین کی خلاف ورزی کا بڑا خطرہ تھا، معزز چیف جسٹس نے نہایت احترام کے ساتھ ان 2 جج صاحبان کے بیان کردہ نکات میں اضافہ کیا، معزز چیف جسٹس نے اپنی رائے کا اظہار بھی کیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی قطعی رائے نے اس معاملے کا فیصلہ کیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 104-اے کو مدِ نظر رکھے بغیر ایسا کیا ہے، ان حالات میں از خود نوٹس کے لیے معاملے کو چیف جسٹس کے پاس بھیجنا مناسب نہیں تھا، از خود نوٹس مناسب نہیں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ کا نوٹ

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے جسٹس اطہر من اللّٰہ کا نوٹ بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدگی میں نہیں دیکھا جا سکتا، صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے نوٹ میں سوال کیا ہے کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟

ان کا کہنا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں جو یہ ہیں:

پہلا سوال: کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیرِ اعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟

دوسرا سوال: کیا وزیرِ اعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟

تیسرا سوال: کیا کسی بنیاد پر وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جا سکتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نےجب عدالت میں آئینی نکات اٹھائےتو چیف جسٹس نے انہیں شامل کرنے پر اتفاق کیا، میرے سوالات پر بینچ کے کسی رکن نے اعتراض نہیں کیا، کھلی عدالت میں میرے سوالات کو شامل کر کے حکم نامہ لکھوایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈرتحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، جہاں آئین کی تشریح اس عدالت کا اختیار ہے وہاں آئین کا تحفظ بھی اسی عدالت کا کام ہے، آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے یہ بھی کہا کہ اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہوگئی ہے۔

23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم جاری

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی 23 فروری کو سماعت کا تحریری حکم آج جاری کر دیا۔

23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں۔

جن ججز کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں ان میں جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل ہیں۔

آرڈر کے مطابق بینچ کی از سرِ نو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ میں کہنا ہے کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔

تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔

تحریری حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پر طے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ از سرِ نو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔


گزشتہ سماعتوں کا احوال

عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن، پی ڈی ایم کی جماعتوں سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

فل کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو شامل نہ کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ تاحال جاری نہیں کیا گیا۔

قومی خبریں سے مزید