• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جب ہم خود غرضی کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہیں کرتے توہمیں مکمل تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہم اپنے افعال کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔‘‘ (زینا شیرک)

اب تو معمول بن چکا کہ ہر سیاسی تنازع حل کے لئے عدالت میں لے جایا جارہا ہے۔ اگرچہ اس سے دیگر ریاستی اداروں، بشمول پارلیمنٹ، کی افسوس ناک ناکامی جھلکتی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تلخی، قطبیت اور جمود کے موجودہ ماحول میں صرف یہی ادارہ چارہ گر دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر جب ریاست میں ہر چیز زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دی گئی ہو۔ راجن پور کے حالیہ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے ہاتھوں توہین آمیز شکست کے بعد اس کے مخالفین کے دل میں یہ سوچ مزید گہری ہوچکی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں ان کا سیاسی صفایا یقینی ہوچکا ہے اور یہ سوچ موجودہ تنائو کو مزید گہرا کر رہی ہے۔

عمران خان کی طرف سے اٹھنے والے سیاسی چیلنج سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد، حکمران اور ان کے سہولت کار انھیں عدالتوں کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گرچہ ان کے خلاف درج مقدمات میں بے شمار تکنیکی خامیاں واضح ہیں۔ ایک اور قاتلانہ حملہ بھی خارج از امکان نہیں۔ ریاستی اداروں کے حد سے زیادہ متعصبانہ رویے اور ان پر مسلسل دباؤ کے باوجود وہ اب تک ایک تنکا تک دہرا نہیں کر سکے۔ نہ ہی مستقبل میں ان سے کچھ ہو پائے گا، سوائے یہ کہ خان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے۔ حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سے اس کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔ حکمران ٹولہ ممکنہ طور پر انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے کوئی بھی حربہ اپنا سکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق فریقین کے درمیان عدم اعتماد مزید بڑھ گیا ہے، اس طرح مذاکرات کے نتائج خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ کچھ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ معاشی بیل آؤٹ کے لئے اسٹاف کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے سے پہلے آئی ایم ایف طے شدہ تمام پیشگی اقدامات کی تعمیل چاہتی ہے۔ اس دبائو کی وجہ سے حکومت بے چین ہے۔حکومت اس خوف کی وجہ سے ایسا کرنے کو تیار نہیں کہ اسے اس کی بھاری سیاسی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نوے دن کی آئینی مدت میں کرانے کا حکم دے کر حکومت کی اذیت دوچند کر دی ہے۔ خیبرپختونخوا میں گورنر کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا کہا گیا ہے جب کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صدر مملکت کو دیا گیا ہے جہاں گورنر نے تحلیل کے حکم نامے پر دستخط نہیں کئے تھے۔ اگر راجن پور کے نتائج کو ملک میں عوامی موڈ کے پیمانے کے طور پر دیکھا جائے تو ان انتخابات سے دونوں صوبوں میں تحریک انصاف کی مضبوط حکومتیں بننے کا امکان ہے۔ یہ حکومتیں پانچ سال کے لئے ہوںگی۔ اس طرح یہ پارٹی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت کرے گی جب کہ اس سال کے آخر میں ملک بھر میں عام انتخابات ہونکے۔ اس سے تحریک انصاف کی انتخابی مہم یقیناً فائدے میں رہے گی۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا حکومت اور دیگر متعلقہ ریاستی ادارے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے انتخابی عمل کو سپریم کورٹ کی طرف سے طے شدہ مدت کے اندر مکمل کرنے کے لئے فوری اقدامات کرتے ہیں؟یا وہ اس کے نفاذ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گزشتہ دس مہینوں میں ملک نے کیا تبدیلی دیکھی ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کو طاقتور حلقوں کی حمایت نے اقتدار کی بگھی پر سوار کیا تھا۔ اس کی حکومت کو دوام بخشنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن سب منصوبوں کا دھڑن تختہ ہوگیا ۔ سب تدبیریں الٹ کر رہ گئیں۔ پاکستان کی آزادی کے بعد کے برسوں میں بھی حکومتوں کا معیار افسوس ناک رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت نے تباہی اور بربادی کی جوداستان رقم کی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومت کا انتہائی خراب ٹریک ریکارڈ ہے، چاہے وہ انتظامی، معاشی یا اخلاقی پیمانے پر ہو، یا پھر یہ ملک کو جمہوری ساکھ کو مضبوط بنانے کےلئےقانونی اور آئینی ذمہ داریوں کی پاسداری کا پیمانہ ہو۔ درحقیقت جمہوریت اس سے زیادہ خطرے میں کبھی نہیں تھی جتنی گزشتہ دس ماہ سے ہے۔ اقتدار کی راہداریوں میں اپنے قیام کو طول دینے کے لئے قانون اور آئین کی ہر شق کو مسخ کر دیا گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ملک اپنی داغ دار تاریخ کا نیا ورق الٹ رہا ہے۔ ایسا ورق جہاں فیصلے ملک کے عوام کے سپرد ہوں گے۔ یہ حق اُنھیں اپنے ووٹ کے ذریعے ملے گا۔ ہر جمہوری سوچ کم کے بجائے زیادہ انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ مثال کے طور پر، آئیے موجودہ پانچ کی بجائے اسمبلیوں کی چار سالہ مدت کے لحاظ سے سوچیں۔ آئیے نچلی سطح پر لوگوں کو زیادہ بااختیار بنانے اور آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے زیادہ مواقع دینے کے امکانات تلاش کریں۔

آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ملک کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کے لئے صرف پہلا قدم ہو گا، نہ کہ واحد قدم۔ جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ خود کو تباہ کرنے کے اس رجحان کو دفن کیا جائے جس کا مقصد کچھ لوگوں کے سیاسی کیریئر کو بچانا ہے جنہوں نے اپنے ناپاک اور مسخ ہتھکنڈوں سے قومی چہرے کو داغدار کیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سائے کو مستقل طور پر وہیں تک محدود کر دیا جائے جہاں سےوہ تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی میدان میں ان کی راہیں مسدود کردی جائیں ۔ فاضل عدالت نے اس حوالے سے اچھا فیصلہ سنادیا ہے جس سے قومی زندگی کا ایک نیا باب شروع کیا جا سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین