• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک میں ہر تھوڑے دن بعد فضا میں ایک چیخ گونجتی ہے ،جس کو سن کر ہر ایک کا دل دہل جاتا ہے، اس چیخ کی شدت سے سب کی روح کانپ جاتی ہے، ماحول کا سکوت ٹوٹ جاتا ہے !! ویسے تو یہ آسمان اور زمین ایسی کئی چیخیں برسوں سے سن رہے ہیں۔ یہ کسی پرندے یا حیوان کی نہیں بلکہ صنف ِنازک کی ہوتی ہیں لیکن شاید ہم ان کے عادی ہو گئی ہیں یا پھر سن کر بھی ان سنی کردیتے ہیں۔

اہل زمین پہلے کے ہولناک واقعے کو بھولے نہیں ہوتے کہ ایک اور دل دہلادینے والی داستان سامنے آجاتی ہے ۔اب تک نہ جانے کتنی صنف ِنازک بےرحمی کی کتاب میں اپنے نام کا باب درج کرواچکی ہیں ۔ خوش قسمت ہیں وہ خواتین جن کو مرنے کے بعد کسی اخبار یا چینل میں چند لمحے کی جگہ ملتی ہے۔ ورنہ بیشتر کے ساتھ ہونے والے بدترین ظلم کا کبھی کسی کو پتا ہی نہیں چل پاتا۔دل بوجھل ہوتا ہے اور انگلیاں لرزتی ہیں اب تو یوں گھریلو تشدد میں جان سے چلی جانے والیوں کے ذکر پر دماغ کسی منطقی انجام کو پہنچنا چاہتے کہ معاشرے کی خوبصورت اکائی گھر کو عقوبت خانہ بننے سے روکنے کے لیے آخر کس نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے؟ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارا معاشرہ کس ڈگر پر چلا رہا ہے۔

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم آج تک خواتین کے ساتھ زیادتی کےواقعات کی گتھیاں سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔مختلف سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ستر سے نوے فی صدتک خواتین کسی نہ کسی قسم کے ذہنی، جذباتی یا جسمانی تشدد کا شکار ہیں۔ تھامس ریوٹرز فاؤنڈیشن کے حال ہی میں کیے جانے والےایک سروے نے پاکستان کو خواتین کے لیے ’’چھٹا‘‘ خطرناک ترین ملک قرار دیا ,گلوبل جینڈر گیپ 2022 کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 145 نمبر پر ہے خواتین پر تشدد کے واقعات میں اعداد و شمار دیکھ کرانداز ہوتا ہے کہ ہر سال خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔یہ حقائق کس قدر تکلیف دہ ہیں۔ ایک جانب ایسے واقعات جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔

دوسری جانب خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز کا منظر ِعام پر آنا خاندانی نظام پر عدم اعتماد اور نفسیاتی ہیجان کا سبب بن رہے ہیں۔ پہلے تو خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات صرف دیہی علاقوں میں پیش آتے تھے ،جس کی وجہ تعلیم کی کمی اور غربت لگتی تھی ،مگر اب صورت ِحال بد ل گئی ہے اب یہ واقعات پےدرپے اعلٰی طبقے اور شہروں میں بھی ہر دوسرے دن سننے میں آرہے ہیں، جن کےتسلسل نے یہ الجھن تو ختم کی کہ یہ کسی مخصوص کلاس یا طبقے کا رویہ ،اس کی اہم وجہ تعلیم کی کمی اور غربت نہیں۔ 

نام نہاد تعلیم یا فتہ، ایلیٹ کلا س میں شمار ہونے والے طبقات میں بھی خواتین تمام تر خود مختاری ،خوش حالی ،تعلیم یافتہ اور اپنے حقوق کی آگاہی کے باوجود اسی طرح مظالم اور زیادتی کا شکار ہوجاتی ہورہی ہیں۔ایلیٹ کلاس میں خواتین پرتشدد اور زیادتی کے واقعات سامنے آنے کے بعد یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ خواتین پر تشدد کسی مخصوص طبقے کا نہیں بلکہ مخصوص ذہنیت کاشاخسانہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان جرائم کے پیچھے برسوں سے پرورش پاتی وہ ذہنیت کارفرما ہے جو بتاتی ہے کہ عورت تم سے کم تر ہے،اس کو مار نا ،پیٹنا، بے عزت کرنا یہاں تک اس کو قتل کردینا بھی کوئی بڑی بات نہیں ،کیوں کہ ہمارے معاشرے میں یہ کام کرنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ وزارت ِقانون کے مطابق سال 2020ء میں ’’لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2020 ‘‘ بھی منظور کیا گیا ،یہ ایکٹ خواتین کی مالی اور قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا تھا ۔ جنسی زیادتی کے ملزمان کو سخت سے سخت سزااور مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے ایک اہم قدم ’’’اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020‘ ‘بھی نافذ کیا گیا تھا۔ 

اس آرڈیننس کے ذریعے عصمت دری اور جنسی زیادتی جیسے جرائم کے خلاف خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ اس مقصد کے لیے خصوصی عدالتوں اور خصوصی تفتیشی ٹیموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو جنسی زیادتی کا شکار افراد کے مقدمات کی فوری سماعت اور متاثرین کو فوری انصاف کی فراہمی کے لئے قانونی امداد فراہم کریں گی۔اس آرڈینینس کے تحت ریپ کی تعریف میں بھی توسیع کی گئی ہے اور سابق مقدمات کی روشنی میں ابہام دور کیا گیا ہے۔ 

ہمارے ملک میں قوانین تو ہر سال بنتے ہیں ،بل بھی پاس ہوتے ہیں، ان میں ترامیم بھی ہوتی ہے ،خواتین کے عالمی دن پر کانفرنسیس ہوتی ہیں ،عورت مارچ ہوتی ہے ،لیکن اس سب کے باوجود ہر گزرتا دن ظلم وزیادتی کے واقعات میں شدت لا رہا ہے ۔قانون کی کتاب میں عورت پر تشدد اور زیادتی کی سزاؤں سے متعلق سب درج ہے، مگر افسوس ان قوانین کی روشنی میں مجرموں کو سزا نہیں دلوائی جاتی ،اگر ہم تاریخی پس منظر دیکھیں تو کوئی بھی مجرم ایسا نہیں ملے گا، جس کو سزا دی گئی ہو ۔اور انصاف کا راستہ اس قدر دشوار ہے کہ زیادتی کاشکار خاتون اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں دائر کرکے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔

ہر دوسرے دن خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آنے کی وجہ کیا ہے؟قوانین بننے کے باوجود واقعات میں کمی کیوں نہیں آرہی ؟اب زیادتی کے واقعات اعلیٰ طبقے میں بھی سننے میں آرہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟ان واقعات کو کس طر ح روکا جاسکتا ہے؟ مجرموں کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ یہ سوالات ہم نے ملک کی چند نامور خواتین سے پوچھیں ،ان کے جواب میں انہوں نے کیا کہا، نذر قارئین ہے۔

ایسے قوانین کا کیا فائدہ جن پر عمل درآمد نہ کیاجائے، فرزانہ باری 

سماجی کا رکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ ،ہر دوسرے دن خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں rule of law بالکل ختم ہو چکا ہے اور عدالتی نظام خواتین کو انصاف دلوانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ جب معاشرے میں عورتوں کو جنسی خواہشات پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہو تو وہاں انصاف کی توقع کیسے کرسکتے ہیں۔ جب تک پدر شاہی سوچ نہیں بدلے گی ،عورتوں کو کمزور سمجھا جاتا رہے گا ،اُس وقت تک زیادتی اور جنسی جرائم کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے ،کیوں کہ ہم عورت کو دیکھتے ہی اسی نظر وں سے ہیں ،جس معاشرے کے حکمران یہ کہیں کہ اکیلی عورت رات میں اس جگہ سے کیوں گزری تھی ،پارک میں کیوں گئی تھی تو وہاں زیادتی کے واقعات پیش آنے پر لوگوں پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔

پدرشاہی سوچ کی سبب ہی مرد عورتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں ،کیوں کہ ان کو یہ ڈروخوف ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں سزا ملے گی۔ جنسی جرائم میں اضافے کی وجہ کوئی ایک نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں ۔ہر چیز کے لیے قوانین بنانا تو ضروری ہے اور یہ کام بہ خوبی کیا بھی جا تا ہے ،تا کہ یہ بتا دیں کہ آپ کے حقوق کیا ہیں لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ آپ کسی بھی سال کے اعداد وشمار اُٹھا کر دیکھ لیں ہر سال کیسز میں اضافہ ہی نظر آئے گا، کیوں کہ قوانین پر عمل کروانا جن اداروں کا کام ہے وہ یہ کام کرتے ہی نہیں ہیں۔

اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں بھی وہی پدر شاہی سوچ موجود ہے ،جب کوئی عورت اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے لیے آواز اُٹھاتی ہے تو اُلٹا اسی سے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ آپ وہاں کیا کررہی تھیں ،جب آپ کو پتا ہے کہ وہ سنسان جگہ ہے تو آپ کو وہاں جانا ہی نہیں چاہیے تھا ،جب محافظ اداروں میں اس طر ح کے سوالات کیے جائیں گے تو انصاف ملنا تو دور کی بات ہے۔ قانون سازی کے باوجود خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اوّل تو یہ کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے زیادہ تر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں ان کی صحیح طر ح سے انویسٹی گیشن نہیں کی جاتی ،کیوں کہ عدالتوں میں بیٹھے مردوں کی سوچ بھی تو وہی ہے ،اسی لیے مجرموں کو سزا بھی نہیں ملتی۔

اگر ہم دیکھیں تو پہلے زیادتی کے واقعات زیادہ تر غریب طبقے یا دیہات میں ہوتے، کیوں کہ وہاں طاقت غیر توازن ہوتی ہے ،مجرموں کو کوئی پکڑنے والا نہیں ہوتا، ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو تی لیکن اب تو یہ شہروں یا اعلٰی طبقے میں بھی بہت زیادہ ہونے لگیں ہیں، اس کی بڑی وجہ قانون اور قانون نافذ کرنےاداروں کی کمزوری ہے۔ 

مجرموں کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہم سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا اورنہ ہی سزا ملے گی ،اسی لیے ان کو کوئی ڈر بھی نہیں ہوتا۔ اگر پہلی دفعہ ہی مجرم کو سزا مل جاتی تو آج کیسز کی تعداد میں اس قدر اضافہ نہیں ہوتا، لہٰذا اسی لیے ہرکلاس میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہو رہاہے ،مگر اب صورت ِحال دیکھتے ہوئے ہمیں فوری طور پر کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ کیا جائے کہ ریپ یا زیادتی کے کیس کو انجام تک پہنچانے کا وقت مقرر کیا جائے۔

مثال کے طور پر چار یا چھ مہینے کے اندر اندر ہر صورت کیس کو ختم کیا جائے۔ عدالتوں کو چاہیے کہ کم سے کم وقت میں کیسز کے فیصلے کیے جائیں، اس حوالے پولیس کو مکمل انویسٹی گیشن کی ٹریننگ دی جائے کہ اس طر ح کے کیسز میں کس طر ح شواہد اکٹھا کیے جائیں ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کیسز اتنے لمبے چلتے ہیں کہ زیادتی کا شکار خواتین تھک ہار کر کیس بیچ میں ہی چھوڑ دیتی ہیں۔

علاوہ ازیں تعلیم ،تحقیق اور میڈیا پالیسز کے ذریعے پدر شاہی سوچ کو بدلنے کی کوشش کی جائے، کرمنل نظام کو موثر بنایا جائے، یہ سب اقدامات کیسز میں کمی لانے میں موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ گوکہ یہ طویل مدتی کام ہے لیکن معاشرے میں سدھارلانے کے لیے یہ کرنا ضروری ہے۔ ایک بات میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ مجرموں کو سزا نہ ملنے میں کرپشن کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں ایسی بہت این جی اوز موجود ہیں جو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں لیکن وہ بھی زیادتی کا شکار خاتون کا ایک حد تک ہی ساتھ دے پاتی ہیں، ظاہر ہے جو کردار ریاست ادا کرسکتی ہے وہ یہ این جی اوز تو ادا نہیں کرسکتیں۔ 

مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم 8 مارچ کی ریلی کو اتنا زیادہ تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں ،جب ریاست خواتین کو انصاف دلوانے میں ناکام ہو تو پھر ان کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر روکا کیوں جاتا ہے ؟ آج خواتین ریاستی اقدامات سے مطمئن نہیں ہے تو اس کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے دیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریاست میں قوانین بہت اچھے پاس ہوئے ہیں لیکن ایسے قوانین کا کیا فائدہ جن پر عمل در آمد نہ کیا جائے۔ مجھے خواتین کے حقوق اور مسائل قومی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں لگتے۔ چند دن تو ہرکیس کاشروع ہوتا ہے، اُس کے بعد پتا ہی نہیں ہوتا کہ کیس کا کیا ہوا۔ آج ہمارے عورت کسی بھی جگہ محفوظ کیوں نہیں ہے ؟ جنسی جرائم کی تعداد بڑھانے کی اہم وجہ ریاست کی ناکامی ہے۔

ابھی تک پدر شاہی نظام قائم ہے، عظمٰی نورانی 

ممتاز سماجی رکن ،پنا ہ شیلٹر ہوم کی روح رواں ،عظمٰی نورانی کا کہنا ہے کہ، ہمارے معاشرے میں پدر شاہی نظام قائم ہے، ہم ابھی تک اسی نظام میں جی رہے ہیں اور جب تک یہ نظام قائم رہے گا، خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی رہے گی۔ واقعات تو پہلے بھی ہوتے تھے لیکن رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے کس کو خبر نہیں ہوتی تھی، مگر یہ میڈیا کا دور ہے، اسی لیےاب ہر کیس کو سر ِعام پر لانابہت آسان ہو گیا ہے۔ دیہات میں ابھی تک مرضی سے شادی کرنے پر تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

زیادتی کے واقعات بڑھانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے لگی ہیں ،جس کو کچھ شہروں میں آج بھی بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ،کیوں کہ مردوں کی ذہینت تو بدل نہیں رہی ہے۔ وہ ابھی تک روایتی سوچ کے حامل ہیں۔ قانون سازی تو کردی گئی ہے لیکن خواتین کو ان قوانین کو استعمال کرنے کا شعور نہیں دیا گیا ہے ،ان کو یہ نہیں بتا یا جاتا کہ یہ قوانین تمہیں انصاف دلوانے کے لیے بنے ہیں۔ کسی بھی جرم کے خلاف قوانین بنانا تو بہت آسان کام ہے لیکن ان پر عمل در آمد کرنا بہت ہی مشکل کام ہے، کیوں کہ جن کو ان پر عمل کروانا ہوتا ہے وہ بھی پدر شاہی سوچ کے مالک ہیں۔

قانون میں جتنی چیزیں شامل ہیں ان میں سے ایک بھی پوری نہیں ہو رہی۔کسی کیس کی صحیح طر یقے سے جانچ پڑتال نہیں کی جاتی، ایسی صورت ِحال میں زیادتی کا شکار خواتین انصاف ملنے کی اُمید کس سے کریں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ویمن منسٹری اپنی ذمہ داری بہ خوبی کیوں نہیں نبھا پارہی ،ظلم وزیادتی کا شکار خواتین کو انصاف دلوانا ،مجرم کو انجام تک پہنچانا انہیں کی ذمہ داری ہے۔ کیا قوانین صرف قانون کی کتاب میں درج کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

ہمارے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں خاتون جاکر اپنے لیے انصاف مانگ سکے۔ پہلے خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات زیادہ تر اندرونی شہروں میں ہوتے تھے لیکن اب تو شہروں میں بھی بہت زیادہ ہونے لگے ہیں ،حال ہی میں اسلام آباد میں دو، تین کیسز سامنے آئے۔ پارک میں تو لڑکی کو گن پوائنٹ پر ریپ کیا گیا، اس کی اہم وجہ یہی ہے کہ مجرموں کو سزا کا ڈر نہیں ہے ،ان کو یہ بات بہت اچھے سے معلوم ہے کہ ان کو سزا ملنی نہیں ہے ،چند پیسوں کے عوض وہ چھوڑ دئیے جائیں گے۔ لیکن اب عورت کو شعور آگیا ہے، وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کررہی ہے جو کہ مردوں کو کسی صورت بھی برداشت نہیں ہے، خواتین کے عالمی دن کی ریلی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،اس میں موجود خواتین کو برا سمجھاجاتا ہے، میرا ان لوگوں سے یہ سوال ہے کہ جب ایک لڑکی کو بس میں ریپ کیا جاتا ہے ،پارک میں زیادتی کانشانہ بنا یا جاتا ہے، شادی سے انکار کرنے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے ،جب آپ لوگ کہاں ہوتے ہیں ؟ جب کوئی مرد اس مظلوم عورت کے لیے آواز بلند کیوں نہیں کرتا؟اس کو انصاف دلوانے کے لیے عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتا؟ کہنے تو ہم جدید دور میں داخل ہو چکے ہیں لیکن خواتین کے مسائل وہی کے وہی ہیں۔آج کی عورت بھی اسی طرح ظلم و زیادتی کا شکار ہے ،جس طر ح پہلے کی عورت تھی ۔اور ایسا صرف ریاست کی ناکامی کی وجہ سےہورہا ہے ۔ عورت کے ساتھ زیادتی کرنے پر اگر صرف ایک یا دو مجرم کو سخت سزا دے دی گئی ہوتی تو آج کی صورت ِحال کافی مختلف ہوتی۔ اگر اب بھی عمل در آمد کرلیا جائے تو ان واقعات میں کمی آسکتی ہے۔

جنسی جرائم میں کمی لانے کے لیے مجرموں کو سزا دینا ضروری ہے ،مظلوم عورت پر الزام لگانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں ہمیں مائنڈ سیٹ بدلنے کی بہت ضرورت ہے ،کیوں کہ جب تک پدر شاہی نظام قائم رہے گا، اس وقت تک ظلم وزیادتی کے واقعات بھی ہوتے رہیں گے۔ خواتین کی عزت وآبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گی عورت مارچ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو خواتین کے حقوق کے لیے بہت اچھے قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین ریاستی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں ،اس حوالے سے ریاست کو ضرور سوچنا چاہیے ،کیوں کہ این جی اوز اور دیگر ادارے صر ف کوشش کرسکتے ہیں، قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے آواز بلند کرسکتے ہیں، ایک حد تک کیس لڑ سکتے ہیں، مگر آخر میں انصاف دلوانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

انصاف ملتا نہیں ، مجرم ڈرتے نہیں، آسیہ منیر 

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ،آسیہ منیر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ مردوں کو لگتا ہے راہ چلتی عورت بھی ان کی اجارہ داری ہے وہ جب چاہے ،جیسے چاہے اس کے ساتھ زیادتی کرسکتے ہیں ،کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک کی law and order کی صورت ِحال تو بہت ہی خراب ہے کوئی ہمارا کچھ نہیں کرے گا ،تھوڑے دنوں تک شور ہوگا، اس کے بعد سب بھول جائیں گے۔ ہمارے پاس عدالت میں بے شمار ریپ او ر زیادتی کے کیسزآتے ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی کیس انجام تک نہیں پہنچتا۔ خواتین انصاف دو کا نعرہ لگا لگا کر تھک جاتی ہیں ،مگر فیصلہ کچھ نہیں ہوتا۔

کیس اتنے لمبے لمبے چلتے ہیں کہ مظلوم عورت ہمت ہی ہار جاتی ہے ۔سب سے اہم بات عدالتوں میں بیٹھے مرد بھی اسی سوچ کے حامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوانین بہترین بننے ہیں، مگر قوانین بنانا مسئلے کا حل نہیں ہے اب تک تو نہ جانے کتنے بل پاس ہوچکے ہیں، قوانین بن چکے ہیں لیکن فائدہ کسی ایک خاتون کو نہیں ہوا تو ایسی کارروائی یا قوانین کا کیا فائدہ جس سے کسی کوانصاف نہ مل سکے۔

اگر حقیقتاً ان قوانین پر عمل در آمد کرلیا جائے اور مجرموں کو سزا دے دی جائے تو معاشرے میں سدھار آسکتا ہے ۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ زیادتی اور ریمپ کیسز کے حوالے سے موبائل پر مسیج چلائے ،تا کہ ہمارے خواتین کو اس حوالے سے آگاہی ملے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھا سکیں ۔کچھ خواتین بدنامی کے ڈر سے بھی آواز نہیں اُٹھاتیں، کیوں کہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ انصاف تو ملے گا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر چند کیسز کو انجام تک پہنچادیا جائے تو ان کی تعداد میں واضح کمی آجائے گی۔

سب سے پہلا جو کام کرنے کی ضرورت ہے وہ مائنڈ سیٹ بدلنے کا ہے ،کیوں کہ کلاس کوئی بھی ہو سوچ تو ایک ہی ہے ،اسی وجہ سے اب کیسز دیہات کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی ہو رہے ہیں ،جس ملک میں جنگل کا قانون ہوگا وہاں یہ سب ہونا عام سی بات ہے ،جب مجرم کو کسی چیز کا ڈر نہیں ہے تو وہ کوئی بھی غلط کام کرتے ہوئے ڈرے گا بھی نہیں۔

اس کویہ معلوم ہوتا ہے کہ مجھے سزا تو ملے گی نہیں، زیادہ سے زیادہ چند جیل میں رہوگا ،اس کے بعد پیسے دے کر باہر آجائوں گا۔ میرے خیال سے خواتین کے عالمی دن پر نکالنے والی ریلی سے ابھی تک تو کوئی فائدہ نہیں ہوا، ہوسکتا ہے مستقبل میں اس سے کوئی تبدیلی آجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کو چاہیے کہ خواتین کے تحفظ کو مزید یقینی بنائیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے مجرموں کو سر عام سخت سے سخت سزا دیں ،تاکہ اگلی مرتبہ کوئی یہ کام کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے ضرور۔

ظلم خاموشی سے سہنے کا دور گزر گیا، فاطمہ حسن 

فاطمہ حسن ادب کی دنیا کا ایک معروف نام ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،لا قانونیت، انصاف کے نظام کا مفقود ہونا، ملزمان کا سزا سے بچ جانا اور پھر روایتی طور پر عورت کو کم تر حقیر مخلوق سمجھنا، جس کی جان عزت ،حرمت انتقام لینے کے لئے ہے۔ خواہ وہ گالیوں کی شکل میں ،تاوان و تحفے کی صورت میں یا عصمت دری اور قتل کی انتہا تک اگر جزا وسزا کا ایک مستحکم اور شفاف نظام موجود ہو تو جرائم بڑھتے نہیں کم ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں اضافہ ہواہے۔قوانین بن جاتے ہیں، مگر عمل در آمد نہیں ہوتا۔آئین وقوانین شکنی کی وجہ سے تو خواتین پر ظلم وزیادتی کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور جرائم کی نوعیت بھی سنگین ہوتی گئیں، جب لاقانونیت ہوتی ہے تو کو ئی بھی زد میں آسکتا ہے غریب ہو یا امیر۔

عورت پر تو ویسے بھی ہر طبقے میں محکوم و کم تر سمجھ کر امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ Law and order and justice system درست کرکے قوانین پر سختی سے عمل درآمداور مقدمات وانصاف کے نظام میں بہتری، کورٹ تک رسائی، فیصلوں میں تاخیر کا خاتمہ اور سزا پر عمل درآمد۔ مجرم اگر انجام تک پہنچا ئے جاتے تو جرائم میں اضافہ نہیں ہوتا۔ خواتین کیا اب تو کوئی بھی مطمئن نہیں۔ ریاستی اقدام کبھی ہوتے ہوں گے اب تو عوام کے لئے کچھ بھی نہیں ہورہا۔ آگہی، ادراک اور شعور تو پیدا ہوا ہے۔ اب خواتین آواز اٹھاتی ہیں۔بہت سے شعبوں میں فعال کردار انجام دے رہی ہیں۔ ظلم خاموشی سے سہنے کا دور گزر گیا۔ معاشی خود انحصاری بھی نظر آگہی ہے۔