• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احسن اقبال کا دورہ جاپان ...یاران وطن ۔۔۔۔۔محمدعرفان صدیقی،جاپان

تھوڑی ہی دیر میں جاپان کی حکومت کی جانب سے پاکستان کے بارے میں منعقد کی جانے والی ایک اہم کانفرنس کا آغاز ہونے والا تھا جس میں جاپان کے دو سو سے زائد معروف ترین کاروباری اداروں کے سربراہ اور نمائندے شرکت کے لئے پہنچ چکے تھے، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے اعلیٰ عہدیدار بھی کانفرنس کی پہلی صف میں موجود تھے ،یہ کانفرنس جاپان کے نجی شعبے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کی حکومت جاپان کی ایک مخلصانہ کوشش تھی تاکہ جاپانی سرمایہ کار حکومت پاکستان کی جانب سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں سے آگاہی حاصل کر سکیں، کانفرنس میں پاکستان سے شرکت کیلئے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات جناب احسن اقبال کو دعوت دی گئی تھی تاکہ وہ اپنے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مہیا کی گئی سہولتوں اور وہاں سرمایہ کاری کیلئے موجود مواقع سے آگاہ کریں۔ میں بھی کانفرنس کے مقررہ وقت پر وہاں پہنچا جہاں کانفرنس روم کے باہر ہی احسن اقبال اپنی پریزنٹیشن کو آخری شکل دینے میں مصروف تھے۔ اس دوران جناب احسن اقبال سے مختصر سی علیک سلیک بھی ہوئی، جس کے بعد میں کانفرنس روم میں اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گیا ،کانفرنس شروع ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی اور میں جناب احسن اقبال کے حوالے سے ماضی کے ایک دلچسپ واقعے کے بارے میں سوچنے لگا۔ احسن اقبال سے پہلی ملاقات میں ان کے بارے میں جو تاثر ابھرا، وہ ایک ذہین، بردبار اور خیر اندیش شخصیت کا تھا،ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت احسن اقبال کو پارٹی کے معاملات میں بڑی اہمیت دیتی ہے۔ میں بھی احسن اقبال کی پارٹی کے لئے دی جانے والی قربانیوں میں سے چند ایک کا چشم دید گواہ ہوں۔
یہ اکتوبر دوہزار سات کی بات ہے لندن میں سرد موسم میں ایجویئر روڈ پر واقع مسلم لیگ( ن )کے دفتر میں درجہ حرارت کافی گرم تھا کیونکہ میاں شہباز شریف کے بعد چند روز قبل میاں نواز شریف کو بھی اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر ملک بدر کر کے جدہ بھجوادیا تھا جس کے بعد نہ صرف ملک کے اندر مسلم لیگی کارکن اور رہنما بلکہ لندن میں موجود اس صورتحال کی مانیٹرنگ کرنے پر مامور مسلم لیگ (ن )کے رہنما میاں شہباز شریف بھی کافی بے چین اور فکرمند تھے اور مسلسل پاکستان میں موجودہ ملکی رہنمائوں اور عالمی رہنمائوں سے پاکستان کی تازہ ترین سیاسی صورتحال پر بات چیت میں مصروف تھے۔ ان دنوں لندن پاکستان کی سیاست کا مرکز بن گیا تھا کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ان دنوں لندن میں ہی مقیم تھیں اور اطلاعات یہ تھیں کہ وہ بھی عنقریب پاکستان روانہ ہورہی ہیں لہٰذا کئی معروف صحافی اس وقت لندن میں موجود تھے، میں بھی انہی دنوں اپنے چند صحافی دوستوں کے ہمراہ لندن پہنچا تھا تاکہ معاملات کا قریب سے مشاہدہ کرسکوں لیکن چند ہفتے قبل میاں نواز شریف نے جب لندن سے پاکستان پہنچنے کی کوشش کی تو ان کو زبردستی جدہ روانہ کردیا اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرکے دبئی سے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا، جس کے بعدمیں نے لندن میاں شہباز شریف سے مسلم لیگ(ن) کے مستقبل کے حوالے سے انٹرویو لینے کا فیصلہ کیا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے ان سے ملاقات کا وقت مل چکا تھا، اگلے روز انٹرویوسے قبل وہاں موجود دیگر رہنمائوں نے کافی کوشش کی کہ میں میاں شہباز شریف سے صرف ایسے سوال کروں جن میں صرف ان کیلئے ہمدردی کا تاثر ملتا ہو تاہم میرے پہلے سوال نے ہی وہاں بیٹھے لیگی رہنمائوں کو پریشان کردیا، میں نے میاں شہباز شریف سے سوال کیا کہ آپ کہتے تھے کہ میاں نواز شریف کے پاکستانی سرزمین پرقدم رکھتے ہی پوری پاکستانی قوم سڑکوں پر آجائے گی اور میاں صاحب کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ایئرپورٹ سے مسلم لیگ ہائوس لے جائیں گے لیکن جنرل مشرف نے تو ان کو بآسانی جدہ ڈی پورٹ کردیا اور کوئی بڑا احتجاج بھی دیکھنے میں نہیں آیا؟ اس سوال پر میاں شہباز شریف کے ساتھ بیٹھے لیگی رہنمائوں نے زور دار آوازوں میں مجھے ٹوکنے کی کوشش کی لیکن میاں شہباز شریف نے سب کو خاموش کراکے مجھے میری پشت کی جانب لگے ٹی وی کی طرف دیکھنے کو کہا جہاں جیو کی نشریات جاری تھیں جس میں احسن اقبال واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے جو اس وقت ملک میں جمہوریت اور میاں نواز شریف کی حمایت میں مظاہرہ کررہے تھے، چار پولیس والے ان کو گرفتار کرکے لے جارہے تھے اور ڈنڈوں سے ان کی خاطر مدارت بھی کی جارہی تھی، شہباز شریف صاحب نے کہا کہ دیکھیں ہماری پارٹی میں احسن اقبال جیسے لوگ بھی ہیں جو سڑکوں پر پولیس کے ڈنڈے کھارہے ہیں اور آمریت کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں، انٹرویو تو مزید جاری رہا لیکن یہ احسن اقبال سے میرا پہلا تعارف تھا جو میاں شہباز شریف نے لندن میں کرایا، ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک بجنے والی تالیاں مجھے دوبارہ ٹوکیو کے کانفرنس ہال لے آئیں جہاں احسن اقبال انتہائی ماہرانہ انداز میں پاکستان کے معاشی حالات اور حکومت کی تجارتی پالیسیوں کے حوالے سے جاپانی سرمایہ کاروں کو آگاہ کررہے تھے، وہ انہیں بتارہے تھے نواز شریف حکومت کی ترجیحات میں توانائی اور مواصلات کا شعبہ سرفہرست ہے، وہ بتارہے تھے کہ ان کی حکومت آئندہ پندرہ برسوں میں چالیس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، ڈیموں کے ذخائر کو بڑھانے کے منصوبے بھی بنائے جارہے ہیں ، ملک میں موجود فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھرکو کوئلے پر تبدیل کرنے پر کام کیا جارہا ہے، ریلوے کے نظام کو موثر بنانے پر کام کیا جارہا ہے ، کراچی سرکلر ریلوے پر جاپان کے تعاون سے کام کو حتمی شکل دی جارہی ہے، احسن اقبال بتارہے ہیں کہ پاکستان ایشیاء میں سب سے زیادہ منافع دینے والا ملک ہے جہاں سرمایہ کاروں کو سترہ فیصد تک منافع دیاجاتا ہے، جاپان سمیت غیر ملکی کمپنیاں بھاری منافع کمارہی ہیں تاہم میڈیا کے بعض حصے پاکستان کے حوالے سے منفی امیج پیدا کررہے ہیں، احسن اقبال کی ماہرانہ پریزنٹیشن کے جواب میں جاپانی سرمایہ کار مسلسل تالیوں سے ان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے ، احسن اقبال کے بعدعالمی بینک اور ایشیائی ترقیاقی بینک کے حکام پاکستان کی جانب سے قرضوں کی واپسی کے حوالے سے معاشی پالیسیوں پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں جس پرجاپانی حکومت اور سرمایہ کار اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔ کانفرنس اب ختم ہوچکی تھی میرے پاس وفاقی وزیر احسن اقبال کا اگلے تین دنوں کا شیڈول موجود تھا ، میں حیران تھا کہ وزیر موصوف کو اگلے تین دنوں میں تیس اہم مصروفیات سے عہدہ برأ ہوناہے ، جن میں وزیر خزانہ سے لیکر سرمایہ کاری کے وزیر تک ، جبکہ وزارت تعلیم سے لیکرتوانائی کی وزارتوں تک کے حکام سے ملاقاتیں شامل تھیں جبکہ جاپان کے نظام تعلیم کو سمجھنے کیلئے جاپانی اسکول کے علاوہ اور کوئلے سے چلنے والے ایک بجلی گھر کا دورہ بھی احسن اقبال کی مصروفیات میں شامل تھے جبکہ پاکستانی کاروباری شخصیات سے لیکر، پاکستان کے جاپان میں ڈاکٹریٹ کرنے والی طلباء و طالبات سے ملاقاتیں بھی دورے میں شامل تھیں جبکہ مسلم لیگ کے مقامی عہدیداروں کو بھی دورے میں اہمیت دی گئی تھی۔ اگلے تین دنوں میں مجھے بھی احسن اقبال کے ساتھ ان کی کئی سیاسی مصروفیات میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ان کی مصروفیات میں سب سے دلچپ کوئلے سے چلنے والے بارہ سو میگاواٹ کے بجلی گھر کا دورہ تھا جو یقیناً پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا، توقع ہے کہ پاکستانی حکومت جاپان کے تعاون سے یہ پلانٹ پاکستان کے لئے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، وفاقی وزیر احسن اقبال نے تین دن صبح آٹھ بجے سے رات گیارہ بجے تک مسلسل مصروفیت میں گزارے تاہم میں نے ان کی کوئی نماز قضا ہوتے نہیں دیکھی۔ احسن اقبال کو تین سال تک گورنر مدینہ کے مشیر کے طور پر مدینہ کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی میں شریک رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جبکہ ان کے دورہ جاپان کے دوران جاپانی وزارت خارجہ کے حکام بھی احسن اقبال کی قابلیت کے بے حد معترف نظر آئے تاہم جاپانی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار کا احسن اقبال کے حوالے سے تجزیہ انتہائی دلچسپ تھا کہ احسن اقبال وزیر اعظم نواز شریف کا کابینہ میں بہترین انتخاب ہیں ۔
تازہ ترین