گزشتہ سال موسم بہاراں کی آمد معمول سے بڑھ کر ٹمپریچر بڑھنے سے اصل رنگ میں نہ ہوئی۔ اپریل میں مئی والی گرمی تھی۔ دورانیہ بھی کم رہا۔ بڑا ستم چلتے سیاسی عمل میں جو گند گھولا گیا اس سے بنا زہر اب آئی دوسری بہار کی آمد تک سرایت کرگیا۔ اسلام آباد میں برسوں کےبعد حکومت اکھاڑ مہم جوئی کے لئے جو ’’گھوڑا بازار‘‘ شہر حکومت و ریاست میں لگا اس کی بڑی تیاری گزری آمد بہار پر ہی لاہور میں ہو رہی تھی۔جو غنچہ و گل اس حسیں موسم میں شارع سیاست چوہدری ظہور الٰہی روڈ پر کھلتے ہنستے گزرتے نظر آتے ہیں، وہ کاروں کی لمبی دوطرفہ قطاروں کی اوٹ میں اپنی مسکراہٹیں کیابکھیرتے، بیچارے گھٹ کر رہ گئے۔ کیا کیا بددعا نہ دی ہوگی ان دبائے پھولوں نے کالی سیاست کو، تبھی تو حکومت اکھاڑ سیاسی شرکا اک دور رَس نتیجہ دوسری آمد بہار پر نکلا، چوہدری پرویز الٰہی اور پسر بالآخر نظام بد سے جان چھڑا کرمشرف بابہاراں ہوگئے۔ ویسے بھی سیاسی ڈیرے داریاں ہی کیا شہریان لاہور سال بھر کی تازگی اس رنگ و بو و گل کے دو اڑھائی ماہ کے موسم میں حاصل کرکے خوش باش اور کھلے ڈلے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ہر اچھے برے وقت کے لئے تیار بھی۔ یارو! کلاسیکی لاہور کے تاریخی روایتی باغوں میں تو گزرے عشروں کے حسین مناظر تو اب پہلے سا سماں نہیں باندھتے، لیکن نئے زمانے کی بہار بھی نئے رنگ و روپ کے ساتھ اپنی کشش جمال میں کم نہیں۔ ایک تو کوئی بھی بزنس اپنی دنیا داری میں حسن ومستی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا۔ لیکن لاہور میں گزشتہ کوئی دو عشروں میں نرسریوں اور گل فروشی کے حسین کاروبار نے لاہور کو اک نئے رنگ کا شہر گلستان بنا دیا ہے۔ بہاری پھل واریوں نے نئی بستیوں اور شاہرائوں میں خوب جگہ بنائی ہے، شہر لاہور کے اس روپ سنگھار میں باذوق بیورو کریٹ کامران لاشاری صاحب کی خدمات لاہوریوں کے نزدیک بہت قابل قدر ہیں، اور وہ اسے بھولے نہیں۔ لاشاری صاحب نے اس تاریخی شہر باغ و بہاراں میں اس کے تشخص کو بچانے، بڑھانے اور نیا رنگ روپ دینے کے لئے پہلے پرویز الٰہی دور میں لاہور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی قائم کی۔ برا ہو ملک پر مسلط نظام بد کا گزشتہ سال کی ہماری بہار گلوبل وارمنگ کے اثرات کے علاوہ سیاسی آلودگی سے بھی متاثر ہوئی۔ اس سال معمول کے قدرتی اور فطری ماحول والی موسم بہاراں تو جوبن پر ہے ، نرسریوں میں پھولوں، پودوں کی مہنگی خرید و فروخت بھی امن و سکون کے ماحول میں پررونق ہے۔ باوجود اس کے کہ کلمہ چوک لاہور سے ملحق نرسریوں کا بڑا مرکز، سائیں بزداری وزارت اعلیٰ میں شروع ہوئے لاہور کمرشل ڈسٹرکٹ کی تعمیر کے بڑے زیر تعمیر ترقیاتی منصوبے جسے پرویز الٰہی حکومت نے تیزی سے بڑھایا، کی نذر ہوگیا لیکن لاہور میں نرسریوں اور گل فروشی کا حسین کاروبار رُکتا معلوم نہیں دے رہا۔ حتیٰ کہ اس شدید سیاسی اقتصادی بحران میں بھی، بہار اپنا جلوہ دکھا رہی ہے۔
وائے بدنصیبی، کوویڈکرائسس 19 اور گزشتہ سال قدرتی اور سیاسی گرم و آلودہ ماحول سے بجھی بہار کے بعد جو منحوس آلودہ قومی صوبائی سیاست کے سایے ملک بھر پر پڑے اس کا فالو اَپ تو موسم گرما شروع ہونے پر 25 مئی کے لانگ مارچ کے احتجاج پر آغاز مارچ اور گزری دو تین راتوں میں اچانک کارکنوں کے گھروں پر گرفتاری کے لئے چھاپے، دھاوا اور فسطائی متشددانہ لاٹھی گولی سرکار کی طرف سے جگہ جگہ ہوا۔ لاہور کی آئی رنگا رنگ بہار حسین موسم اور باغوں شاہرائوں کی مہک تک ہی محدود نہیں، سیاسی عزائم سے سرشار اپنے اصل کردار سے لاپروا متنازعہ نگران حکومت نے موجود ملکی واحد ملک گیر وفاقی سیاسی جماعت، تحریک انصاف کے مرکز و محور کی انتخابی مہم کا آغاز ہونے پر خان کی ریلی کو مقررہ روٹ پر آنے سے پہلے زمان پارک کے گرد و نواح میں جمع کارکنوں پر جو بہیمانہ تشدد بلاجواز دفعہ 144 کے نفاد اور زخمی قائد کی گرفتاری کی تسکین و فرمائش پوری کرنے کے لئے اس میں جمہوریت کا ایک کھلتا مسکراتا پھول قتل اور کئی غریب تابعدار پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ بہار لاہور پر افسردگی کے بادل چھاگئے۔ یہ فسطائی اقدام صوبے کی نگران حکومت کی نگرانی میں ہوا جس پر لاہور کے جمہوریت پسند وکلا اور صحافی سراپا احتجاج بن گئے ہیں انہوں نے شہر میں بہاروں اور بہار جمہوریت کا عزم باندھا ہے۔ نگران حکومت وہ بھی 90 ارکان کابینہ کی لنگڑی، آئین و قانون سے لڑتی بھڑتی حکومت کی اشیر باد سے تشکیل پائی پنجاب کی نگران حکومت فسطائی رنگ کی حکومت کیسے بن گئی؟ یہ تو اب ہمیں احتجاجی وکلا برادری ہی سمجھائے گی۔
دولت راج کی بیساکھیوں پر لڑکھڑاتا نظام بد ہی کوئی لاہوری بہاروں پر حملہ آور نہیں ہوا، اپریل 1977ء میں ملک گیر دھاندلیوں کے خلاف لوہاری مسجد میں جو خون سول آمریت نے بہایا تھا وہ بھی موسم بہار تھا، جب پان منڈی کے نکڑ پر نیوز رپورٹرز کے جھرمٹ میں کھڑا بلوچ لیڈر اکبر بگٹی سینہ تان کر مسجد کی طرف دیکھتا پولیس کے بہیمانہ تشدد پر وقفے ، وقفے سے تبصرہ کر رہا تھا کہ بس، بس اب یہ لاہوری جاگ گئے ’’فلاں‘‘ گیا۔ لاہور میں تشدد بہاروں میں بندھے جمہوری عزائم کے تاریخی نتائج بد عبرتناک اور سبق آموز نکلتے رہے۔ قرار داد پاکستان بھی بہار کے جوبن پر 23 مارچ 1940ء کو ہی منظور ہوئی تھی، اس سے قبل خاکساروں پر فرنگی حکومت نے غضب ڈھایا تھا جس پر مسلم لیگی رہنمائوں اور کارکنوں سمیت سب سخت غم زدہ تھے، جیسے آج لاہور میں ایک مسکراتے کھلتے پھول کے قتل اور نظام بد میں جکڑے نیم غلام پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے پر ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں لاہور کی بہاروں پر حملے سے بہت کچھ مطلوب کشید ہوا اور ہوتا رہے گا، تاوقتیکہ قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول کا حقیقی سفر شروع نہ ہو جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)