• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی ایم کیو ایم پراپرٹیز کا کیس لندن ہائیکورٹ میں ہار گئے

فوٹو—الطاف حسین
فوٹو—الطاف حسین

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین پراپرٹیز کا کیس لندن ہائی کورٹ میں ہار گئے۔

‎لندن ہائی کورٹ کے جج کلائیو جونز نے فیصلہ دیا کہ ایم کیو ایم پاکستان 2015 کے آئین کے تحت نہیں، جب الطاف حسین نے ایم کیو ایم ختم کر کے اپنے اختیارات سے دستبرداری اختیار کر لی تھی، بلکہ 2016 کے آئین کے تحت اصلی ایم کیو ایم ہے اور وہ لندن میں الطاف حسین کے زیر کنٹرول 6 پراپرٹیز کی اصل مالک ہے۔

الطاف حسین نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اصلی ایم کیو ایم وہ ہے، جو وہ چلا رہے ہیں اور وہ ایم کیو ایم اصلی نہیں ہے جو فاروق ستار نے ہائی جیک کر لی ہے۔ 

جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے اپنی 23 اگست کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم پاکستان سے استعفیٰ دے دیا تھا، اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جج نے خالد مقبول صدیقی کی زیر قیادت ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں اور ایم کیو ایم لندن کے خلاف فیصلہ دیا ہے، اب اگلے مرحلے میں ٹرسٹیز کے کردار کا فیصلہ کیا جائے گا۔ 

جنگ اور جیو نے اس فیصلے کی کاپی حاصل کر لی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جج نے لکھا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سید امین الحق کے وکیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایم کیو ایم کا اپریل 2016 کا آئین منظور کیا گیا تھا جبکہ 2015 کا آئین منظور نہیں کیا گیا تھا۔

جج نے لکھا ہے کہ الطاف حسین نے 23 اگست 2016 کو ایم کیوایم سے عارضی طور پر یا مستقل بنیادوں پر علیحدگی اختیار کر لی تھی، اس سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہوں نے ایک نئی تنظیم قائم کرلی، جو وہ لندن سے چلا رہے تھے۔ 

اس فیصلے سے الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، یہ مقدمہ سید امین الحق نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے پارٹی کے بانی الطاف حسین اور دیگر ٹرسٹیز اقبال حسین، طارق میر محمد انور، افتخار حسین، قاسم علی اور یورو پراپرٹی ڈیولپمنٹس لمیٹڈ کے خلاف اس ٹرسٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔

جوابے دیو ہاؤس ایجوبیئر جہاں الطاف حسین رہائش پذیر ہیں، ہائی ویو گارڈن فرسٹ 12 ہاؤس، ہائی ویو گارڈنز سیکنڈ ہاؤس، جہاں افتخار حسین اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، وٹ چرچ لین فرسٹ ہاؤس، جو لاجرز ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وٹ چرچ لین سیکنڈ ہاؤس، 53 بروک فیلڈ ایونیو ہاؤس، جہاں سلیم شہزاد اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور ایم کیو ایم فرسٹ فلور ملز بتھ ہاؤس کا دفتر، جو انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کے طور پر جانا جاتا تھا، پر مشتمل 6 پراپرٹیز کو کنٹرول کرتا ہے۔

اقبال حسین، طارق میر محمد انور نے ایم کیو ایم کے دعویٰ کی مخالفت نہیں کی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ معاہدے کے تحت علیحدہ ہو گئے۔ 

ایم کیو ایم کے سابق رہنما ندیم نصرت، جو وائس آف کراچی کے نام سے اپنی پارٹی چلا رہے ہیں، ڈاکٹر فاروق ستار، جو حال ہی تک اپنی ایم کیوایم چلا رہے تھے اور کراچی کے سابق میئر وسیم اختر نے ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کی اور الطاف حسین کے خلاف عدالت میں پیش ہو کر کھل کر اپنے سابق قائد کا سامنا کیا، ان سب نے کہا کہ ایم کیوایم نے 2015 کا آئین منظور نہیں کیا تھا اور 2016 کا آئین بحال ہے اور اس وقت بھی موجود تھا، جب الطاف حسین نے رضا کارانہ طور پر پارٹی سے علیحدگی کااعلان کیا تھا اور اس کے بعد فاروق ستار اور دوسروں نے انہیں کبھی پارٹی میں شامل نہیں کیا۔

برطانوی ہائی کورٹ کے فیصلے کا تعلق مقدمے کے پہلے حصے کے بارے میں تھا اور اب اس کے دوسرے حصے کی سماعت جلد ہی شروع کی جائے گی، جس میں مختلف امور بشمول ٹرسٹیز کے کردار اور ایم کیو ایم کے نام پر وصول کیے گئے فنڈ کو بینی فشریز کے لیے استعمال کیا گیا یا نہیں، جیسے امور شامل ہوں گے، کا تعین کیا جائے گا۔

ہائی کورٹ انگلینڈ اور ویلیز اب اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ ایم کیو ایم کے نام پر وصول کیے گئے فنڈ کے بینی فشری الطاف حسین کی زیر قیادت گروپ ہے یا ایم کیو ایم پاکستان، جس کی نمائندگی سید امین الحق کر رہے ہیں، اس کے بینی فشری ہیں۔

عدالت میں سید امین الحق کا مؤقف تھا کہ 22 اگست 2016 سے ایم کیو ایم کی قیادت میں الطاف حسین کا کوئی قائدانہ کردار نہیں تھا اور الطاف حسین نے اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ 

ایم کیو ایم پی کا کہنا تھا کہ 22 اگست 2016 کو اپنی متنازع تقریر کے بعد ان کے معافی نامے کے بعد ان کا ویٹ کا اختیار ختم ہو گیا تھا، ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ مدعا الیہان جو ٹرسٹیز ہیں، ٹرسٹ کو معاہدے کے مطابق نہیں چلا رہے ہیں اور تمام آمدنی اور اثاثے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اس لیے انہیں ٹرسٹیز کے عہدے سے ہٹا دیا جائے اور ان کا احتساب کیا جائے، یہ مقدمہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا، پہلے حصے میں یہ تھا کہ حقیقی بینی فیکٹر کون ہے، ایم کیو ایم پاکستان یا ایم کیو ایم لندن۔

مقدمے کی سماعت کے دوران ایم کیو ایم پاکستان نے تنظیم کے آئین کی شکل میں متعدد ڈاکومنٹس پیش کیے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں،  2015 کے آئین جس پر الطاف حسین اور دیگر مدعا الیہان انحصار کر رہے تھے، ای سی پی کے ریکارڈ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جج جونز نے ایم کیو ایم پاکستان کے پیش کردہ مؤقف کو تسلیم کیا اور الطاف حسین کی لیگل ٹیم کی جانب سے پیش کردہ کیس پر یقین نہیں کیا۔

جج نے الطاف حسین کا یہ مؤقف تسلیم کیا کہ انہوں نے 22 اکتوبر 2015 کو ایک آئین کی منظوری دی تھی، جس میں بیشمار غلطیاں تھیں، مقدمے کے پہلے حصے کی سماعت کے دوران الطاف حسین کی لیگل ٹیم کو بے تحاشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اب پہلا مرحلہ ایم کیو ایم پاکستان نے جیت لیا ہے اور جج نے قرار دیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی اصل ایم کیو ایم اور حقیقی بینی فشری ہے۔

 مقدمے کے دوسرے مرحلے میں مدعا الیہان کا ٹرسٹ سے وصول کردہ رقم کے حوالے سے احتساب ہوگا کہ آیا یہ رقم بینی فشریز کے فائدے کے لیے استعمال کی گئی یا نہیں ، اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے تو انہوں  نے اپنے فرائض کی خلاف ورزی کی ہے اورانہیں اب ساری رقم واپس کرنا ہوگی۔

فیصلے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ فیصلہ کرنے کے لیے 31 اگست یا یکم ستمبر 2016 کو منظور کی گئی قرار دادوں سے اپریل 2016 کے آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں ؟ اس کے لیے مزید ایک سماعت ضروری ہے۔

قومی خبریں سے مزید