پاکستان کی سیاست میں عام خیال یہ رہا کہ مسلم لیگ نواز اور اسٹیبلشمنٹ کا ساس اور بہو کا رشتہ ہے، جن کے درمیان نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ مگر جیسے ہی میاں محمد نواز شریف کی بیٹی مریم نواز سیاست میں داخل ہوئیں انھوں نے کچھ کیا نہ کیا مگر عوام کے ذہنوں میں برسوں سے موجود اس خیال کو یکسر بدل ڈالا، آج اہلِ پنجاب اور خاص طور پر پنجاب کی لوئر کلاس، کسان اور مزدور جس طرح سوچ رہے ہیں وہ سوچ پنجاب میں کبھی ممکن نہ تھی، اور سوچ کی اس تبدیلی کا سہرا مریم نواز شریف کے سر جاتا ہے، جنہوں نے کہا تھا کہ مفاہمت تب ہی ہوگی جب مزاحمت ہوگی۔یہ ملک تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب یہاں پتلی تماشہ ختم ہوگا، یہاں انتخاب شفاف ہوں اور عوام کے حقیقی نمائندوں کے پاس مکمل اختیار ہو۔ شہباز شریف نے 2017سے ہی کوشش کی کہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف میں پیدا ہوئی خلیج کو ختم کیا جا سکے۔مگر گزشتہ 6 سال سے مسلم لیگ نواز کیلئے صلح کے تمام دروازے بندرہےتھے سوائے شہباز شریف کے جو اسٹیبلشمنٹ سے ہمیشہ تعلقات بہتر رکھنا چاہتے تھے ۔ باوجود اس کے نواز شریف ، شہباز شریف ، حمزہ سمیت مریم نواز شریف تک کو جیل یاترا کرنا پڑی۔ شہباز شریف کے چاہتے ہوئے بھی مفاہمت کا دروازہ بند رہا۔ ایسے میں مسلم لیگ نواز کیلئے پاکستان کی سیاست میں تلخ دور تھا۔ 90کی دہائی میں پی پی پی کے ساتھ جو ہوتا رہا وہی کردار کشی کی مہم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف جاری تھی، پنجاب سمیت مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی، جلسے، ریلیاں کرنا آسان نہیں تھاایسے میں مسلم لیگ نواز کو زندہ رکھنا ایک نا ممکن کام تھا، مگر وہ جیل سے آنے کے بعد ایک بار پھر متحرک ہوگئیں۔ انہوں نے ایک تاریخی بات کی تھی کہ مزاحمت ہوگی تو مفاہمت ہوگی اور پھر ایسا ہی ہوا مزاحمت ہوئی اور مزاحمت نے شریف خاندان کیلئے مفاہمت کے راستے کھول دیے۔ شہباز شریف نہیں چاہتے تھے کہ مسلم لیگ کی طرف سے کوئی تلخی پیدا ہو اور نہ ہی حمزہ شہباز شریف مزاحمتی سیاست کرنے کو تیار تھے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں یہ مزاحمت کا کھیل خاندانوں کو ختم کردیتا ہے، مگر مریم نواز ڈٹ گئیں اور ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کا بیانیہ لے کر کراچی سے خیبر تک جمہوریت کی پاسداری اور عوامی مینڈیٹ کی سربلندی کیلئے بغیر کسی مصلحت سے کام لئے کھل کر ہر غیر جمہوری کردار پر بات کرتیں اور قوم کے سامنے ان چہروں سے پردہ فاش کرتی نظر آئیں۔ کیوں کہ ان کو خوب اندازہ تھا کہ مفاہمت کا راستہ مزاحمت کی سڑک سے ہی جاکر ملتا ہے۔مریم نواز پر ایک وقت تھا کہ ان کے ٹی وی پر آنے پر بھی پابندی لگائی گئی مگر پھر انہوں نے وہ کیا کہ پابندیاں لگانے والے عوامی غم و غصے سے بچنے کیلئےنہ صرف ان کے جلسوں، ریلیوں کی راہ میں رکاوٹ بننے سے باز رہے بلکہ خاموش مفاہمت کرنے پر بھی راضی ہوگئے۔ انہوں نے پاکستان بھر میں جلسے جلوس کئے، ٹی وی پر ان کا خطاب سننے والوں میں ان کے مخالفین بھی شامل ہوگئے، یہ ہی وجہ بنی کہ چینلز کی ریٹنگز ان کے خطاب کا موضوع بحث بن گئیں، ہر چینل انھیں زیادہ سے زیادہ کوریج دینے لگا۔مریم نواز کی بہادری اور ہمت نے عمران خان حکومت کو مسلم لیگ نواز کے خلاف مزید کارروائیوں سے دور رکھا۔ اس سارے عمل میں کیپٹن صفدر نے جس طرح مریم نوازاور مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا، وہ بھی قابل تحسین ہے۔ انہوں نے تلخ سے تلخ حالات میں اپنی بیوی کا ایسا ساتھ دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔آج مسلم لیگ نواز کی حکومت بن چکی ہے۔ ن سے ش نکالنے والے ماتم کرتے نظر آرہے ہیں کہ کاش مریم نواز کو مزید جیل میں رکھ کر اور کیپٹن صفدر کو پابند سلاسل رکھ کر اس خاندان کو جھکنے پر مجبور کردیا ہوتا تو شائد آج حالات مختلف ہوتے، دوسری طرف چوہدری نثار بھی آج سوچتےہوں گے کہ انھوں نے اپنی سیاست کا خاتمہ اپنے ہاتھوں کر ڈالا ورنہ اگر وہ مریم نواز کے ساتھ کھڑے رہتے تو شاید پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج انہی کے سر سج چکا ہوتا۔ مریم نواز کی مزاحمتی سیاست نے ثابت کردیا ہے کہ جب جب قومی قیادت عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے، بڑے سے بڑے فرعون جھکنے اور مفاہمت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کوان کا احسان مند رہنا چاہئےانہوں نے کسی قربانی سے دریغ کئے بغیر مسلم لیگ کے بیانیے کو عام کر کے اپنی جماعت کے سر اقتدار کا تاج پہنا دیا ۔