• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اتوار کو کسی خشک موضوع پر کالم لکھنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی نوجوان اپنی محبوبہ کو ویلنٹائن ڈے پر پھولوں اور چاکلیٹ کا تحفہ دینے کی بجائے مہینے کا راشن ڈلوا دے ۔اتوار کی مناسبت سے کالم کا موضوع چونکہ قدرے خشک ہے اِس لئے حفظ ما تقدم کے طور پرمیں نے آغاز میں ہی متنبہ کر دیا ہے، عنوان میں نطشے کانام شامل ہے، اُس کا ذکر آخر میں ہوگا ،پہلے پاکستان کےمردِ آہن فیلڈ مارشل (خود ساختہ)حضرت ایوب خان کی بات کرلیں جنہوں نے ملک میں پہلامارشل لا لگانے کی سعادت حاصل کی تھی ۔ 1958 میں ’دوسو کیس‘ عدالت عظمٰی میں زیر غور تھا،اِس مقدمے کے، جو بعد میں تاریخی اہمیت حاصل کرگیا ،حقائق کچھ یوں ہیں کہ دوسو نامی ایک شخص نے قبائلی علاقے میں کسی کو قتل کردیا، اُس پر ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلا اور قبائلی جرگے نے اسے سزا سنا دی۔ دوسو نے اِس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی ، ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ایف سی آر 1956 کے آئین سے متصادم ہے لہٰذا جرگے کا فیصلہ خلاف قانون ہے ۔ وفاق نے اِس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی مگر 7اکتوبر 1958کو ملک کاآئین منسوخ کر دیا گیا اورایوب خان صاحب، خدا اُن کے آستانہ عالیہ کی حفاظت فرمائے، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے ۔ سپریم کورٹ کے لئےمشکل یہ آن پڑی کہ وہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی تو اِس کا مطلب ہوتا کہ 1956 کے آئین کی توثیق کردی گئی ہے جس کے تحت ہائی کورٹ نے ایف سی آر کو کالعدم قرار دیا تھا۔ضرورت سے زیادہ عزت مآب جسٹس منیرنے اِس کا حل نظریہ ضرورت کے ذریعے نکالا اورایوب خان کے انقلاب کو جائز قرار دے کر آئین کی منسوخی پر مہر ثبت کردی، اعلیٰ حضرت نےاپنے فیصلے میں یہ تاریخی فقرہ لکھا:’’A victorious revolution or a successful coup d’ E’tat is an internationally recognized legal method of changing a Constitution۔‘‘۔اب ایک اور لطیفہ بھی سُن لیں، ہانزکیلسن نامی جس قانون دان سے نظریۂ ضرورت منسوب ہے ، وہ اِس فیصلے کے وقت زندہ تھا، اُس نےاعلان کیا کہ نظریۂ ضرورت کی جو تشریح جسٹس منیر نےکی ہے وہ درست نہیں ۔دنیا کے کسی انقلاب کو عدالت سے تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی ، جسٹس منیر کےاستدلال میں یہی سقم تھا، اگر کوئی حقیقی انقلاب ہوتا تو اُس صورت میں نہ کوئی ہائی کورٹ ہوتی اور نہ سپریم کورٹ اور نہ کسی وفاقی حکومت کی کوئی درخواست ، اُس صورت میں وہی ہوتا جو انقلاب روس یا انقلاب فرانس کے بعد ہوا تھا،وہاں کسی انقلابی نے عدالت سے اپنے اقدامات کے جائز ہونے کی سند نہیں لی تھی کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ بات ہی مضحکہ خیز ہوتی ،انقلاب کا تو مقصد ہی پورے نظام کولپیٹ کر ایک نیا سیاسی آرڈر قائم کرنا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس کارنیلیس نے اِس فیصلے میں جسٹس منیر سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

دنیا میں قانونی حکومت کا ایک ہی ماڈل ہے ، اِس ماڈل میں عوام انتخابات کے ذریعے اپنی حکومت بناتے ہیں، آئین تشکیل پاتا ہے ،ادارے وجود میں آتے ہیں ، حقوق و فرائض کا تعین کیا جاتا ہے اور ہر شہری پرقانون کا یکساں اطلاق کیا جاتا ہے ۔پاکستان کے کیس میں بھی ایسا ہی ہے ، 1973 کا متفقہ آئین موجود ہے ،اِس آئین کے تحت قوانین بنائے جاتے ہیں اور عدالتیں اِن قوانین کے تحت فیصلے کرتی ہیں ،مگر یہ فیصلے اور قوانین اُس وقت تک غیر موثر رہتے ہیں جب تک انہیں قوت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاتا اور صرف ریاست کے پاس ہی یہ قوت نافذہ ہوتی ہے ، اگر ایسا نہ ہو تو پھر ریاست کے قوانین اور کسی واعظ کے کہے ہوئے الفاظ میں کوئی فرق نہ رہے۔ محض اخلاقیات کے بل بوتے پرریاست یا حکومت کا نظام نہیں چلایا جا سکتا، اسی لئے تشدد کا کامل اختیار صرف ریاست کے پاس ہی رہتا ہے ۔لیکن یہ اِس معاملے کاایک رُخ ہے ،دوسر ارُخ قدرے پیچیدہ اور خطرناک ہے ۔ اگر دنیا میں صرف مروجہ قوانین کی تابعداری کرنا ہی انسانیت کی معراج ہوتا تو پھر آج بھی معاشروں میں غلامی اور نسل پرستی جائز ہوتی کیونکہ کسی زمانے میں اِن خرافات کو بھی قانونی تحفظ حاصل تھا۔گویا مروجہ قوانین کے خلاف آواز اٹھانا ، اُن کے خلاف ڈٹ جانا، نظام کو للکارنا اور اُن ان دیکھی قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہونا جو کسی نظام کو اپنے مفادات کے تحت چلاتی ہیں، نہ صرف جائز ہے بلکہ لوگ ایسے شخص کو مہاتما مان لیتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں قانونی حکومت کاتو ایک لگا بندھا ماڈل موجود ہے مگر انقلاب کا کوئی ایک ماڈل نہیں ۔بھگت سنگھ کی جدو جہد ماؤزے تنگ سے مختلف تھی اور فرانز فانن کا فلسفہ مہاتما گاندھی کے فلسفے سے بالکل الٹ تھا۔لہٰذا کسی شخص پر یہ الزام لگا کر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا کہ وہ قانون کی پاسداری نہیں کرتا یا خود کو قانون سے ماورا سمجھتا ہے ، یہ اُس شخص کی مرضی ہے کہ وہ کون سا ماڈل کس وقت آزماتا ہے ۔

نطشے کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہ اُس نےÜbermensch (سپر مین) کا تصور دے کر ہٹلر کو ایک بیانیہ فراہم کیا جس کے بعد جرمن قوم ہٹلر کو سپر مین سمجھنے لگی۔اِس بات سے قطع نظر کہ نطشے نے یہ کام ہٹلر کے لئے کیایا نہیں ، سپر مین کا تصور بہرحال ایک ایسے شخص کاہےجو خود کو عظمت کے اُس مینار پر فائز کرلے گاجہاںوہ اچھائی اور برائی سے بالاتر ہوجائےگا، ایسا شخص اپنا قانون اور اخلاقیات خود بنائے گا ، وہ کسی اخلاقیات کا پابند نہیں ہوگا، کسی دکھ اور خوشی سے متاثر نہیں ہوگا، وہ مافوق البشر انسان ہوگا، وہ بے درد ہوگا ، اگر دنیا اُس کی مرضی پر نہ چلی تو وہ دنیا کو ہی پاش پاش کر دے گا، وہ روایتی کہانیوں کی دھجیاں اڑا دے گااوراُس کا کہا ہوا حرف آخر ہوگا۔نطشے نے جو لکھا،ہٹلر نے وہ عملاً کرکےدکھادیا۔ آج پاکستان کے حالات 1933کے جرمنی جیسے تو نہیں مگر کچھ مماثلت بہرحال ہے ،ایک طرف Übermenschکا بیانیہ ہے تو دوسری طرف ہلکی ہلکی ڈھولکی ہے ۔اِس ڈھولکی سے بھی ایک لطیفہ یاد آگیا مگر وہ پھر کبھی ، فی الحال عوام لطیفے سے زیادہ اچھی خبریں سننے کے لئے بیتاب ہیں مگر بدقسمتی سے اچھی خبروں نے پاکستان سے منہ ہی موڑ لیا ہے ۔آج کی واحد اچھی خبر یہ ہے کہ یہ کالم ختم ہوگیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین