• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ سقوطِ ڈھاکا سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ ہم شہر کے ایک پوش علاقے کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ چار دیواری کے اندر کل چھے فلیٹس تھے، ہمارااپارٹمنٹ سڑک کے عین سامنے تھا، جب کہ پچھلی بلڈنگ میں ہمارے تایا ، تائی اور اُن کی بیٹی صوفیہ مقیم تھے۔ تایا کااپارٹمنٹ پچھلی عمارت کی تیسری منزل پر تھا اور مین روڈ سے نظر نہیں آتا تھا۔ ہمارےتایا، تائی اکثر چھٹیوں پر آبائی شہر پٹنہ چلے جایا کرتے تھے۔ اُن دنوں بھی جب انھوں نے وہاں جانے کا قصد کیا، تو اس وقت شہر کے حالات کافی کشیدہ تھے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی لُوٹ مار اور پُرتشدد کارروائیوں کی خبریں مسلسل گردش کررہی تھیں۔ 

حالات کافی تشویش ناک ہونے کے باوجود ہم لوگوں کو یہ قطعی علم نہیں تھا کہ ہم کتنے بڑے سانحے سے دوچار ہونے والے ہیں۔ شہر کے دگرگوں حالات کے باوجود تایا نے یہ سوچ کرکہ کچھ دنوں بعد حالات معمول پر آجائیں گے، اپنی فیملی کو لے کر پٹنہ روانہ ہوگئے۔ روانگی سے قبل تائی اپنے ڈرائیور کوگھر کا خیال رکھنے کی خاص تاکید کرکےگئیں۔ اُن کے جانے کے بعد حالات دن بہ دن بگڑتے چلے گئے۔ بلوائیوں اور شرپسندوں نے کھلے عام لُوٹ مار کے ساتھ غیربنگالیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ اس خوف و دہشت کی فضا میں ہم لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے اور زوروشور سے مختلف قرآنی آیات و وظائف، خصوصاً آیت الکرسی اور سورئہ یاسین کا ورد کرنے لگے۔

اُس روز ہم سب ناشتے سے فارغ ہوکر اُداسی و بے یقینی کے عالم میں بیٹھے تھے کہ بلڈنگ کا چوکیدار، اکبر بھاگتا ہوا آیا اورمسلسل دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ امّی نے گھبراکر دروازہ کھول دیا، حالاں کہ اس کشیدہ ماحول میں ہم لوگ دروازہ کھولنے کے معاملے میں ازحد محتاط تھے۔ چوکیدار نے امّی کو دیکھتے ہی پھولی سانسوں کے درمیان بتایا کہ ’’مکتی باہنیوں کے ٹرک بھر کر آگئے ہیں۔ آپ لوگ بچنے کی کوئی ترکیب کرسکتے ہیں، تو کرلیں۔‘‘اس کے لہجے میں بے پناہ خوف تھا، ہم سکتے کی کیفیت میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ میری نظر پاپا پر پڑی، ان کا چہرہ بالکل زرد ہورہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اگر انہیں ہاتھ بھی لگایا، تو ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جائیں گے۔ سب سے پہلے امّی ہوش میں آئیں اور چیخ کر کہا ’’ڈائننگ ٹیبل دروازے سے لگادو۔‘‘ 

ہم نے فوراً ٹیبل گھسیٹ کر دروازے سے لگانے کے بعد سائیڈ بورڈ بھی لگادیا۔ پھر ڈرائنگ روم کے دروازے کے آگے تمام صوفے ڈھیر کردیے گئے۔ غرض یہ کہ گھر کے اندر آنے کے دونوں دروازے اپنے حساب سے حتیٰ الوسع محفوظ بنانے کی کوشش کی، جب کہ حقیقتاً یہ صرف دل کی تسلّی تھی، ورنہ یہ میز اور صوفے فقط ایک دھکّے کی مار تھے۔ ہمیں موت اپنے سامنے کھڑی نظر آرہی تھی، میری دونوں بہنیں بھی دہشت زدہ تھیں اور ہم سبھوں کو جیسے موت کی دھمک سنائی دے رہی تھی، بلکہ موت سے زیادہ بے عزتی و ذلّت کا خوف تھا۔ پھر ایک دَم سے مجھے ہوش آیا، تو اپنے ربّ کو یاد کرنا شروع کردیا، جو بلاشبہ، شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ایسے میں سورہ یٰسین کی آیت نمبر9لبوں پر آگئی، جسے ہم مسلسل دہراتے رہے۔ 

اس اثناء بلوائیوں کا ایک جتھا فلیٹ میں داخل ہوگیا۔ ان کے شور کی آواز سے پورا فلیٹ گونجنے لگا، اچانک بہت سے لوگوں کے سیڑھیاں چڑھنے کی آوازیں آنے لگیں، تو امّی نے بے ساختہ ہم تینوں کو ساتھ لپٹالیا۔ پاپا، امّی کے آگے کھڑے ہوگئے۔ ہم لوگوں نے شاید خوف سے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ وہ لوگ ہمارے سامنے والی بلبل آنٹی کا دروازہ دھڑدھڑا رہے تھے۔ آنٹی چیخ رہی تھیں کہ ’’آمی بنگالی، تومی چِنتے پارو نہ کی۔‘‘ (میں بنگالی ہوں، کیا تم پہچان نہیں سکتے؟) چھت پر بھاگتے قدموں کی آواز سے ایک قیامت برپا تھی۔ ہم لوگ تھرتھر کانپ رہے تھے اور بلوائیوں کے ہاتھوں کسی بھی لمحے دروازہ توڑنے جانے کے خوف سے لرزہ براندام تھے۔ معلوم نہیں وہ ایک، دو گھنٹے تھے، یا ایک دو صدیاں، اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ پھر ہم نے اُن کے واپس جاتے قدموں کی دھمک سنی۔ 

شور دُور ہوتا گیا اور پھر بالکل سنّاٹا چھا گیا۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ اچانک ہمارے دروازے پر دستک ہوئی اور بلبل آنٹی کی آواز آئی۔ ’’مَیں ہوں، دروازہ کھولو۔‘‘ میز ہٹاکر دروازہ کھولا، تو سامنے آنٹی حیرت زدہ سی کھڑی تھیں، بے ساختہ امّی کے گلے سے لپٹ گئیں۔ ہم نے بلوائیوں کے شر سے بچ جانے پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ وہ اس بات پر حیران تھیں کہ ان کا تو پورا فلیٹ الٹ پلٹ دیا گیا، ہر چیز تہس نہس کردی گئی۔ بلوائیوں نے تلاشی کی غرض سے چھت پہ بنا اوور ہیڈ ٹینک تک کھنگال ڈالا، مگر انہیں ہم لوگوں کا دروازہ نظر ہی نہیں آیا۔ 

آنٹی بتاتی ہیں کہ ’’جب مکتی باہنی کے جتھے لُوٹ مار کے بعد ہمارے گھر سے نکلے، تو میں اپنے دروازے پر یہ سوچ کر کھڑی ہوگئی کہ اگر وہ آپ لوگوں پر حملہ آور ہوئے، تو بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گی، لیکن مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ بلوائی بکتے جھکتے سیڑھیاں اترگئے۔ انھیں آپ لوگوں کا دروازہ نظر ہی نہیں آیا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کی نظربندی کردی ہو۔‘‘ تھوڑی دیر بعد چوکیدار اکبر اوپر آیا، وہ بھی ہم لوگوں کے بچ جانے پر ششدر تھا۔ مکتی باہنی نے لُوٹ مار کے دوران بنگالیوں کے گیارہ فلیٹس کو بالکل الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا، ایک ایک کمرا اور اسٹور تک چھان مارا، حتیٰ کہ پانی کے اوور ہیڈ اور انڈر گراؤنڈ ٹینک تک میں تلاشی کے لیے اُترگئے تھے۔ 

بس تلاشی نہیں لی، تو ایک اسی اپارٹمنٹ کی، جہاں ہم موجود تھے۔ تلاشی تو دُور کی بات، انہوں نے تو ہمارے دروازے پر دستک تک نہیں دی۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ یقیناً قرآن مجید کی آیت کا کرشمہ تھا، اس پر اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ واقعی مارنے والے کے مقابلے میں بچانے والی کی ذات بہت بہت بڑی ہے۔ اس واقعے کی دہشت کافی عرصے تک ہم لوگوں کے دلوں پر طاری رہی۔ اپنے بچ جانے کا یقین ہی نہیں آتا تھا۔ ہم ان گیارہ فلیٹس کے بنگالی مکینوں کے بھی شکر گزار ہیں، جنہوں نے مکتی باہنیوں کو خبر تک نہ ہونے دی کہ یہاں ایک بہاری فیملی چُھپی ہوئی ہے، حالاں کہ وہ سب سے بہاری فیملی کا بار بار پوچھ رہے تھے، مگر سب نے ہماری موجودگی سے واقف ہونے کے باوجود لاعلمی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کا دل ہم لوگوں کے لیے نرم کردیا تھا یا سب کی زبانوں پر مہر لگادی تھی۔ بے شک، میرا ربّ بڑا رحیم و کریم اور بے نیاز ہے۔ (شاہین کمال، کیلگری، کینیڈا)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔