• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ کا متن

فائل فوٹو
فائل فوٹو

جسٹس سید منصور علی شاہ (اپنی اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی طرف سے)

ابتدائیہ

عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین آئین اور قوانین سے ہوتا ہے، نہ کہ ججوں کی مرضی یا سہولت سے۔ اور، یہ تنازع کی نوعیت ہے جو عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین کرتی ہے نہ کہ اس میں شامل مفادات کی وسعت۔ جب ججوں کی مرضی اور سہولتیں غالب آ جاتی ہیں تو ہم ’’سامراجی سپریم کورٹ‘‘ کے دور میں داخل ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر مارک اے لیملی کے مطابق، امریکی سپریم کورٹ نے گزشتہ چند برسوں میں سنائے گئے فیصلوں کے ذریعے کانگریس، انتظامیہ اور زیریں وفاقی عدالتوں کے اختیارات کو محدود کر دیا ہے اور طاقت کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔

پروفیسر لیملی لکھتے ہیں کہ سامراجی سپریم کورٹ کا فوری خطرہ یہ ہے کہ وہ اُس طاقت کو غصب کرکے آئینی نظام کو نقصان پہنچائے گی، جو اس کی ہے ہی نہیں۔ لیکن طویل مدتی خطرہ اس کے برعکس ہے۔ عدالت، اسے عوام کے ذہنوں میں صرف ایک اور سیاسی ادارے میں تبدیل کر کے، بالآخر اپنے فیصلوں کی قانونی حیثیت اور اعتبار کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہماری سپریم کورٹ اپنے عدالتی فیصلوں کے ساتھ ایک سامراجی سپریم کورٹ کا کردار ادا نہ کرے جس میں پارلیمنٹ، حکومت اور صوبائی ہائی کورٹس کے تمام اختیارات کو خود تک محدود کر دیا جائے، اور یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے پاس حاصل دائرہ اختیار کے استعمال کو مسترد کرنے کا حق نہیں ہے، یہ اختیار نہیں کہ ہم اختیارات کو غصب کر کے استعمال کریں۔۲۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس میں شامل معاملات پہلے سے ہی صوبائی ہائی کورٹس میں زیر سماعت ہیں اور ایک کیس میں سوال کا فیصلہ ہائی کورٹ پہلے ہی کر چکی ہے، موجودہ از خود کارروائی اور اس سے منسلک آئینی درخواستیں عدالت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کی دعوت دیتی ہیں، لہٰذا، یہ بیحد ضروری ہے کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کے تحت کارروائی شروع کرنے سے قبل یہ عدالت اس بات کا بغور جائزہ لے کہ صوابدیدی دائرہ اختیار کی اس طرح کی مشق عدالتی حد سے تجاوز تو نہیں کیونکہ پروفیسر لیملی اپنے الفاظ میں عدالت کو ’’سامراجی سپریم کورٹ‘‘ کہہ چکے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا اصل دائرہ اختیار نہ صرف ’’صوابدیدی‘‘ ہے بلکہ ’’خصوصی‘‘ اور ’’غیر معمولی‘‘ بھی ہے، جسے صرف عوامی اہمیت کے ’’غیر معمولی معاملات‘‘ میں ’’احتیاط کے ساتھ‘‘ استعمال کرنا چاہئے۔

عدالت کا یہ دائرہ اختیار خاص اور غیر معمولی ہے، کیونکہ اس کے استعمال میں عدالت واحد اور آخری ثالث کے طور پر کام کرتی ہے اور اگر کوئی فریق عدالتی فیصلے سے ناراض ہو جائے تو اس کے پاس اپیل کا کوئی فورم باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا، اس دائرہ اختیار کو بار بار اور بے احتیاطی سے استعمال نہیں کرنا چاہیے، مبادا عدالت کے ایک غیر جانبدار عدالتی ادارے کے عوامی امیج کو نقصان پہنچے۔

عدالتی ادارے کی بنیادیں عوامی اعتماد پر کھڑی ہوتی ہیں اور اس بنیاد، عوامی اعتماد اور قبولیت کے بغیر عدالت اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے مطلوب قانونی حیثیت کھو دیتی ہے۔ لہذا قانونی حیثیت کے ساتھ عدالت کی تشویش اس کے اپنے مفاد کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کی خاطر ہے جن کیلئے وہ ذمہ دار ہے۔۳۔ 14؍ فروری کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کیلئے عام انتخابات کرانے کی تاریخ کے حوالے سے تنازع پیدا ہوا جس میں ایک قانونی نوعیت کا سوال سامنے آیا:وزیراعلیٰ کی جانب سے گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجی گئی لیکن گورنر نے اس ضمن میں کوئی آرڈر جاری نہیں کیا تو ایسی صورت میں صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل 112 کی شق ایک کے دوسرے حصے کے تحت کس کے پاس صوبائی اسمبلی کیلئے عام انتخابات کرانے کی تاریخ کرنے کا اختیار اور فرض ہے؟ایک سیاسی جماعت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے سیکریٹری جنرل کے توسط سے صوبائی ہائی کورٹ یعنی لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور آرٹیکل 199؍ کے تحت ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں مذکورہ سوال پر بحث کی دعوت دی گئی۔

لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے اس رٹ پٹیشن کے ساتھ دیگر منسلک درخواستوں کا فیصلہ 10؍ فروری کو جاری کیا جس میں قرار دیا گیا کہ آرٹیکل 112؍ کی شق ایک کے دوسرے حصے کے تحت اگر صوبائی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، ساتھ ہی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ گورنر کے ساتھ مشاورت کرکے فوراً الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے۔۴۔ الیکشن کمیشن اور گورنر پنجاب نے انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) ڈویژن بینچ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے روبرو 10؍ فروری کو دائر کیں، جن کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔

انٹرا کورٹ اپیلز میں گورنر نے عبوری ریلیف کے طور پر کالعدم فیصلہ معطل کرنے کی درخواست کی، تاہم ڈویژن بینچ نے یہ ریلیف نہیں دیا، اور سنگل بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے پی ٹی آئی نے توہین پٹیشن دائر کی جو ابھی زیر سماعت ہے۔

از خود نوٹس کی کارروائیاں اور اس عدالت میں زیر سماعت آئینی پٹیشنز۵۔ اسی دوران 16؍ فروری کو اس عدالت کے دو رکنی بینچ نے ایک سرکاری ملازم کی ملازمت کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے حیران کن طور پر صوبے میں عام انتخابات کرانے میں تاخیر کا اعتراف کیا اور اس معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے مندرجہ ذیل مشاہدات پیش کیے:7۔ ہم یہاں یہ بات نوٹ کرتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی 14؍ فروری کو وزیراعلیٰ کی 12؍ فروری کو بھیجی گئی ایڈوائس کے مطابق تحلیل ہوگئی تھی۔

اسلئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات آئین کے آرٹیکل 224 (2) کی روشنی میں کرانا ہیں۔ تاہم، بظاہر اس ضمن میں کوئی پیشرف نظر نہیں آتی اور یہاں واضح اور غیر مبہم آئینی احکامات کی سنگین اور اصل خلاف ورزی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔

مذکورہ بینچ کے ججز نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیج دیا کہ وہ اس عدالت کے آئین کے آرٹیکل 184(2) کے تحت حاصل از خود نوٹس لینے کے اختیار کا فیصلہ کر سکیں:8۔ تاہم، ہماری رائے ہے کہ ہمارے روبرو پیش کیے جانے والے معاملے سے عوامی اہمیت کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو آئین کے دوسرے حصے کے باب اول میں بنیادی حقوق کے حوالے سے ہے۔

اس حقیقت کے پیش نظر کہ جب تک اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بروقت اقدام نہیں لیے جاتے اس وقت تک آئین کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ موجود ہے اور آئین کی بالادستی ہماری قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا، ہمارے نزدیک یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھجوانے کیلئے موزوں ترین ہے کہ وہ اگر چاہیں تو مذکورہ آرٹیکل کو استعمال کرتے ہوئے ایک بینچ تشکیل دیں جو اس معاملے پر سماعت کرے۔ دفتر یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان کے روبرو پیش کرنے کیلئے اقدامات کرے۔

دو دن بعد یعنی 18؍ فروری کو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان (جو اسپیکر منتخب ہونے سے قبل پی ٹی آئی کے رکن تھے) اور پی ٹی آئی کے دیگر سرکردہ رہنماؤں جیسا کہ میاں محمود الرشید وغیرہ نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت آئینی پٹیشن (2/2023) اس عدالت میں دائر کی جس میں وہی شکایت پیش کی گئی جو دو رکنی بینچ کے آرڈر میں بھی شامل ہے۔

کے پی کے اسپیکر اسمبلی نے بھی اسی پٹیشن میں فریق کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور شکایت کی کہ صوبے کے گورنر الیکشن کی تاریخ نہیں دے رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دو رکنی بینچ کی جانب سے لیے گئے از خود نوٹس میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر نے پٹیشن نمبر 1/2023 مورخہ 9؍ فروری کو دائر کی تھی اور یہ درخواست بھی اُس وقت تک سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئی تھی۔۶۔ دو رکنی بینچ کی سفارش پر چیف جسٹس پاکستان نے آرٹیکل (3)184 کے تحت اس عدالت کے از خود نوٹس کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 22؍ فروری کو فیصلہ سنایا اور 9؍ رکنی بینچ تشکیل دیا تاکہ اٹھائے گئے سوالات کا جواب تلاش کیا جا سکے، انہوں نے منسلک پٹیشنز نمبر ایک اور دو برائے 2023ء اسی نو رکنی بینچ کے روبرو سماعت کیلئے رکھیں۔

از خود نوٹس لینے کے اختیار پر ہمارے تحفظات اور بینچ کی تشکیل، ۷۔ ہمیں اس طریقے اور انداز سے شدید تحفظات تھے جن کے تحت اس عدالت کے (3)184 میں وضع کردہ اصل دائرہ اختیار کو موجودہ معاملے میں استعمال کیا گیا اور نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس کا اظہار ہم نے اپنے 23؍ فروری کے فیصلے میں بھی کیا تھا، اور اسی لیے یہاں تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے تحفظات چیف جسٹس پاکستان کے اس معاملے میں از خود نوٹس لینے کے حوالے سے تھے، کیونکہ یہ معاملہ ایک سرکاری ملازم کے غیر متعلقہ سول معاملے پر اٹھایا گیا تھا، جس پر اُس دو رکنی بینچ کے ججز میں سے ایک کی آڈیو لیک ہونے کی پرچھائیں نظر آتی تھی۔

یہ واضح کیا جاتا ہے کہ بینچ میں مذکورہ دو ججوں کی شمولیت یا ان کا سماعت سے معذرت کا اظہار ہمارے لیے باعث تشویش نہیں، کیونکہ یہ معاملہ ججوں اور ان کے ضمیر کا ہے، جس کا فیصلہ صرف تاریخ ہی کرے گی۔ تاہم، ہمارے تحفظات چیف جسٹس کی جانب سے استعمال کیے گئے انتظامی اختیارات کے حوالے سے ہیں اور ان کی وضاحت فیصلے میں آگے کی گئی ہے۔

دو ججوں کی طرف سے کیا جانے والا فیصلہ اور دو ججوں کی جانب سے سماعت سے معذرت اور اس کے بعد باقی رہ جانے جانے والے پانچ ججوں کی طرف سے کی گئی سماعت۸۔ سماعت کے پہلے دن یعنی 23؍ فروری کو آغاز سے ہی ہم میں سے ایک جج (جسٹس جمال مندوخیل) نے عدالت میں ایک نوٹ پڑھا جس میں از خود نوٹس پر کارروائی کے حوالے سے اپنی رائے پیش کی کہ یہ بلاجواز تھیں۔

نو رکنی بینچ میں سے دو ججوں (جسٹس یحیٰ آفریدی اور اطہر من اللہ) نے اپنے 23؍ فروری کے آرڈر میں از خود کارروائی اور ساتھ ہی منسلک پٹیشنز کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ:آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا دائرہ اختیار ایک آزاد اصل دائرہ اختیار ہے جو کسی بھی عدالت یا فورم کے سامنے اسی موضوع پر کسی بھی معاملے کے زیر التوا ہونے سے متاثر نہیں ہوتا، لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے پہلے ہی دیا گیا فیصلہ رٹ پٹیشن نمبر 6093/2023 میں، 2023 کی انٹرا کورٹ اپیل نمبر 11096 میں زیر التوا چیلنج، اور فریقین کی جانب سے اختیار کردہ عجیب و غریب اور غیر متزلزل سیاسی موقف، اس عدالت کو حق ملکیت کے اصول کو تقویت دینے کیلئے عدالتی تحمل کی ضمانت دیتے ہیں۔

یہ اس عدالت کے فیصلے کیلئے پیشگی خواہش پر کسی بھی منفی عکاسی سے بچنے کیلئے ہے۔سماعت کے دوسرے دن یعنی 24؍ فروری کو تین سیاسی جماعتوں (نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف) نے درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ نو رکنی بینچ کے دو ججز (اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی) خود کو سماعت سے علیحدہ کر دیں اور اس کی وجوہات درخواست میں بیان کی گئی تھیں۔

اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے، چیف جسٹس نے نو رکنی بینچ کے ججوں کا اجلاس طلب کیا جو 27؍ فروری کو ہوا۔۹۔ اس اجلاس میں دو ججز (اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی) نے مشاورت کے بعد خود کو سماعت سے علیحدہ کر دیا۔ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ دو ججز (یحیٰ آفریدی اور اطہر من اللّٰہ) جو پہلے ہی از خود نوٹس اور آئینی درخواستوں کو مسترد کرنے کے حوالے سے 23؍ فروری کو اپنا فیصلہ کر چکے تھے، اور اپنا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑ چکے تھے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہیں نو رکنی بینچ کا حصہ رہنا ہے یا نہیں، نے یہ الفاظ لکھے: ’’تاہم، میں یہ بات چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ میں اُس بینچ کا حصہ رہوں یا نہیں جو اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔‘‘

اس طرح، چیف جسٹس نے نو رکنی بینچ میں سے پانچ ججز کا ایک بینچ تشکیل دیا جو اس کیس کی مزید سماعت کرے اور دو ججوں کو بینچ سے خارج کرنے کے حوالے سے کوئی مخصوص آرڈر جاری نہیں کیا گیا۔۱۰۔ اس تناظر میں، بینچ کے پانچ ججوں نے آئینی پٹیشنز میں فریقین اور سیاسی جماعتوں (نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی فے) کے وکلاء کےدلائل سنے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا۔

ہائی کورٹس میں اسی معاملے کے زیر التوا ہونے کے دوران آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے دائرہ اختیار کا دائرہ۱۱۔ جیسا کہ اسی معاملے پر آئینی پٹیشنز متعلقہ ہائی کورٹس میں زیر سماعت ہیں، ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہائی کورٹس میں اسی معاملے کے زیر التوا ہونے کے دوران پہلے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے دائرہ اختیار کے بارے میں سوال اٹھایا جائے۔۱۲۔ آئین پاکستان کے 1973ء میں نافذ ہونے کے بعد سے زیادہ وقت نہیں لگا کہ اس عدالت کو آرٹیکل (3) 184 کے تحت حاصل اختیارات کی نوعیت اور دائرے پر سوالات اٹھنے لگے، اور یہ معاملہ منظور الٰہی کیس میں اس عدالت میں سماعت کیلئے پیش کیا گیا تھا۔ عدالت نے نہ صرف ’’عوامی اہمیت کا معاملہ اور اس کا مخصوص بنیادی حقوق کے حوالے سے اطلاق‘‘ کی اصطلاح پر بحث کی بلکہ دائرہ اختیار کی باریک بینیوں کو بھی واضح کیا، جن کا اطلاق آج موجودہ کیس میں بھی ہوتا ہے جسے مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔۱۳۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا اصل دائرہ اختیار ایک "غیر معمولی" دائرہ اختیار ہے، جسے "احتیاط کے ساتھ" استعمال کیا جانا ہے۔

یہ "باصلاحیت بنانے کے اختیارات" سے نوازتا ہے، اور عدالت انہیں استعمال کرنے کی پابند نہیں ہے حتیٰ کہ جب اس کے سامنے لائے گئے مقدمے میں کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال شامل ہو۔ اس غیر معمولی دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے پہلے، عدالت کو یہ دیکھنا ہے کہ آیا کیس کے حقائق اور حالات اس کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہیں اور کیا یہ مقدمہ اس دائرہ اختیار کے تحت عدالت کے ذریعے نمٹائے جانے کیلئے موزوں ہے یا نہیں۔ چونکہ آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا دائرہ اختیار آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹس کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اگر آرٹیکل 199 کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار پہلے ہی استعمال کیا گیا ہے اور معاملہ زیر سماعت ہے، تو اس عدالت کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے پہلے اچھی طرح سے دو طے شدہ اصولوں پر بھی غور کیا جانا چاہئے: اول ) سب سے پہلے، جہاں دو عدالتوں کا ایک ساتھ دائرہ اختیار ہے اور ایک درخواست دہندہ عدالتوں میں سے کسی ایک کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کا انتخاب کرتا ہے تو وہ اپنے انتخاب کے فورم کا پابند ہوتا ہے اور اسے اسی عدالت سے اپنی شکایت کا ازالہ حاصل کرنا چاہیے۔ اور دوم ) اگر عدالتوں میں سے ایک ایسی عدالتی دائرہ اختیار والی اعلیٰ عدالت بنتی ہے جس میں ہم آہنگی کے دائرہ اختیار کی دوسری عدالت سے اپیل کی جاتی ہے تو اعلیٰ عدالت کو عام طور پر ایسی درخواست پر غور نہیں کرنا چاہیے جہاں ان ہی حقائق پر ایک جیسی درخواست کے بعد پہلے ہی دائر کیا جا چکا ہے اور نچلی عدالت میں فیصلہ زیر التواء ہے، بصورت دیگر یہ فریقین میں سے کسی ایک کو اپیل کے حق سے محروم کر دے گا۔

حتیٰ کہ جہاں پہلے سے ہی کسی بھی ہائی کورٹ میں ان ہی حقائق پر ایک جیسی کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی ہے، اگر یہ معلوم ہو جائے کہ نظر انداز کرنے کیلئے کافی جواز پیش نہیں کیا گیا نہ کہ کنکرنٹ ہائی کورٹ کی جانب سے اختیار استعمال کرنے کے حوالے سے، تو یہ عدالت اپنے غیر معمولی دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔ ۱۴۔ ہم ایک تیسرا اصول شامل کر سکتے ہیں، یعنی فورم نان کنوینیئنس (ناقص فورم) کا اصول، جسے یہ عدالت آرٹیکل 184(3) کے تحت کسی خاص معاملے میں اپنی صوابدید پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مفید طور پر غور کر سکتی ہے۔ فورم کے ناقص ہونے کا یہ اصول عام قانون کے دائرہ اختیار میں ایک قانونی نظریہ ہے جو کسی عدالت کو کسی مقدمے کے دائرہ اختیار کو مسترد کرنے کی اجازت دیتا ہے اگر وہ اس بات کا تعین کرتی ہے کہ دوسری عدالت اس میں شامل فریقین کے لیے زیادہ مناسب یا آسان ہوگی۔

مقدمات کی سماعت انتہائی موزوں جگہ پر کرنے کو یقینی بناتے ہوئے یہ اصول عدالتی نظام میں انصاف اور کارکردگی کو فروغ دیتا ہے۔ دیگر الفاظ میں کہا جائے تو جب کوئی عدالت اس بات پر مطمئن ہو جاتی ہے کہ کوئی اور عدالت ہے جس کے پاس مجاز دائرہ اختیار ہے جس میں تمام فریقین کے مفادات اور انصاف کی منزلوں کیلئے مقدمے کی سماعت کی جا سکتی ہے اور زیادہ مناسب فیصلہ کیا جا سکتا ہے، تو یہ اصول اسے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ عدالت اپنے دائرہ اختیار کے استعمال سے انکار کرے۔

یہ اصول عام طور پر ان معاملات میں لاگو ہوتا ہے جہاں دو یا دو سے زیادہ ممالک کی عدالتوں کا ایک ساتھ دائرہ اختیار ہوتا ہے، اور وہ عدالت جس کے دائرہ اختیار میں فریقین میں سے ایک کی طرف سے درخواست کی جاتی ہے، اس کا خیال ہے کہ کسی دوسرے دائرہ اختیار میں عدالت مقدمے کا فیصلہ کرنے کیلئے زیادہ موزوں ہے اور اس طرح کوئی عدالت اس کیس پر اپنے دائرہ اختیار سے علیحدگی اختیار کرتی ہے۔ تاہم، اس اصول کی دلیل وہی عدالتیں پیش کر سکتی ہیں جو ایک ہی ملک میں واقع ہیں۔

لہٰذا، اس اصول کے پیش نظر، یہ عدالت اگر فریقین کی سہولت اور اس میں شامل معاملے کی نوعیت پر غور کرنے کے بعد یہ محسوس کرتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے ذریعے کیس کی سماعت اور فیصلہ زیادہ مناسب ہو سکتا ہے، تو وہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار پر عمل کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔۱۵۔ بینظیر بھٹو کیس میں اس عدالت کے 11 رکنی فل کورٹ بینچ نے عدالت کے اصل دائرہ اختیار کا دوبارہ جائزہ لیا تھا۔ عدالت نے اس معاملے میں اس دائرہ اختیار کے استعمال کے سلسلے میں منظور الٰہی کیس میں بیان کردہ اصولوں پر غور کیا اور مزید وضاحت پیش کی۔

منظور الٰہی کیس میں بیان کردہ کسی اصول سے اختلاف یا ان میں سے کسی کو رد نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اپنے روبرو موجود کیس کے حقائق اور حالات کے پیش نظر اپنے اصل دائرہ اختیار کو آرٹیکل 184(3) کے تحت استعمال کرنا مناسب سمجھا۔16۔ بے نظیر بھٹو میں عدالت نے منظور الٰہی کے بیان کردہ اصول کی توثیق کی کہ موافق حالات کے دائرہ اختیار کے معاملات میں عام طور پر پہلی صورت میں نچلی عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ درست ہے کہ عام طور پر نچلی درجہ بندی میں عدالت کے فورم کو مدعو کیا جانا چاہئے لیکن اصول واجب العمل نہیں ہے اور اس میں حقیقی استثناء ہو سکتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے کا معاملہ جہاں ہائی کورٹس کے سامنے کی کارروائیوں کے نتیجے میں انصاف سے انکار کیا گیا اور جب ہائی کورٹس نے درخواستوں کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرنے کا حکم دے کر اس معاملے میں اپنی عدالتی طاقت کا استعمال نہیں کیا اور اس طرح تنازعہ پر قابو نہیں پایا گیا۔

عدالت نے یہ بھی خبردار کیا کہ اس اصول کے اطلاق کو ہر کیس کے مخصوص حقائق اور حالات کی روشنی میں پرکھنا ہوتا ہے جیساکہ اس اصول کا غلط استعمال ہو سکتا ہے اگر آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالتی طاقت کے استعمال کو روکنے کے لیے متحرک افراد کی جانب سے اندھا دھند درخواستیں دائر کی جائیں۔ عدالت نے وضاحت کی کہ اس سے پہلے درخواست گزار کسی دوسرے شخص کے ذریعہ بنائے گئے فورم کے انتخاب کا پابند نہیں جس نے اپنی انفرادی حیثیت میں ہائی کورٹ میں درخواست گزار، متاثرہ سیاسی جماعت کے شریک چیئرپرسن کی جانب سے کسی اجازت کے بغیر اسی طرح کی درخواست دائر کی اور کہا کہ دونوں درخواست گزاروں کے ’’مشترکہ مفاد‘‘ کا عنصر صرف اس صورت میں فورم کے انتخاب پر حملہ کرے گا جب ان کے درمیان مشترکہ مقصد کو سامنے لانے کا کوئی ثبوت موجود ہو۔

عدالت نے آخر کار قرار دیا کہ منظور الٰہی اور اس سے پہلے کی درخواست کے حقائق لائق امتیاز ہیں، اور اس طرح آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت منظور الٰہی میں بیان کردہ اصولوں کی کسی بھی طرح سے بالا دستی کے بغیر اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے آگے بڑھی۔

نہ ہی اس عدالت کا کوئی دوسرا فیصلہ آیا ہے اور نہ ہی ہمارے نوٹس میں لایا گیا ہے، جس میں منظور الٰہی کے بیان کردہ اصولوں کو مسترد کیا گیا ہو۔ چنانچہ منظور الٰہی میں بیان کیے گئے اور بینظیر بھٹو میں بیان کیے گئے اصول اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے اصل دائرہ اختیار کی نوعیت اور دائرہ کار آج تک زمین کا قانون ہے لہٰذا اس عدالت کی جانب سے اسے لاگو کیا جائے اور اس کی پیروی کی جائے جب تک کہ 11 رکنی بنچ سے بڑا اس عدالت کا بنچ اسے رد نہ کر دے۔

مندرجہ بالا قانونی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے، اس عدالت نے بینظیر بھٹو کے کیس پر غور کرنے کے بعد، فروغ صدیقی کے بعد کے مقدمے میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے ہائی کورٹ کو ایک جیسی درخواست کی سماعت سے محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں دیکھی جو وہاں زیر التواء تھی، خاص طور پر جب حقائق اور قانونی مسائل ایک جیسے ہوں اور جب ہائی کورٹ میں کوئی تاخیری حربہ نہیں اپنایا گیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ کیس کے حالات میں آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کے سامنے براہ راست پٹیشن اس بنیاد پر قابل سماعت نہیں کہ اسی موضوع پر آرٹیکل 199 کے تحت ایک درخواست سندھ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اور آرٹیکل 184(3) کے تحت پٹیشن کو اس آبزرویشن کے ساتھ خارج کر دیا کہ ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کے تحت زیر التواء درخواست کو چھٹی کے بعد پہلے ہفتے میں سماعت کے لیے لے گی۔

اسی طرح وکلاء محاز میں اس عدالت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت کسی آئینی درخواست کو نہیں سن سکتی اور کسی فریق کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائرہ اختیار رکھنے والی ہائی کورٹ کو نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ 18۔ منظور الٰہی میں بیان کردہ اور بینظیر بھٹو میں وضاحت کردہ مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں جب ہم موجودہ کیس کے حقائق اور حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اور دیگر کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر رٹ پٹیشنز کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے ذریعے اصل دائرہ اختیار کو بے اثر کرنے کے لیے دائر کی گئی ہیں اور نہ ہی اس ہائی کورٹ میں ہونے والی کارروائی میں کوئی غیر معمولی تاخیر ہوئی ہے جو آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے ذریعے غیر معمولی دائرہ اختیار کے استعمال کو جائز قرار دے سکتا تھا۔ ہمیں فورم کے انتخاب کا اصول ملتا ہے، جیسا کہ منظور الٰہی میں بیان کیا گیا ہے اور بینظیر بھٹو میں بیان کیا گیا ہے، موجودہ کیس پر بھی لاگو ہوتا ہے جیساکہ لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی رٹ پٹیشنز اور آئینی پٹیشنز، خاص طور پر سی پی نمبر 2 آف 2023 جسے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اور دیگر کی جانب سے اس عدالت میں دائر کیا گیا، میں درخواست گزاروں کے ’’مشترکہ مفاد‘‘ کے عنصر شامل ہیں۔

اس لیے ہماری رائے ہے کہ منظور الٰہی اور بے نظیر بھٹو میں طے شدہ اصولوں کے پیش نظر موجودہ سوموٹو کارروائی اور اس سے منسلک آئینی درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے غیر معمولی اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے موزوں کیس نہیں بناتیں۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ پہلے ہی میدان میں ہے۔

آرٹیکل 184(3) کے تحت اصل دائرہ اختیار ہائی کورٹ کے عدالتی فیصلے کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ 19۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، موجودہ معاملے میں جو قانونی مسئلہ شامل ہے: صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ مقرر کرنے کا آئینی اختیار اور فرض کس کے پاس ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 112 کی شق (1) کے دوسرے حصے کے تحت تحلیل ہو جاتی ہے، اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے بعد وزیراعلیٰ نے گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دیا لیکن گورنر نے اس پر کوئی واضح حکم نہیں دیا؟ اور اس معاملے کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کا سنگل بنچ پہلے ہی 10.02.2023 کو اپنے فیصلے کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے آئینی دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کر چکا ہے جس فیصلے کو کسی اعلیٰ فورم کی جانب سے منسوخ یا معطل نہیں کیا گیا وہ مصروف عمل ہے اور اس طرح مکمل طور پر فعال ہے اور فریقین پر ان رٹ درخواستوں کا پابند ہے جس میں اسے منظور کیا گیا تھا۔

20۔ مندرجہ بالا پوزیشن کے پیش نظر موجودہ سوموٹو کارروائی اور آئینی درخواستوں کی برقراری کا سوال، ہمارے عزم پر منحصر ہے: آیا یہ عدالت آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اس کے اصل دائرہ اختیار کی مشق کے تحت کسی ہائی کورٹ کے عدالتی حکم کے خلاف آئین کے آرٹیکل 199 میں بیان کردہ نوعیت کا حکم براہ راست یا بالواسطہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ 21۔ ہم اس عدالت کے بعض فیصلوں سے واقف ہیں جن میں اس عدالت نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو مخصوص حقائق اور مقدمات کے حالات میں استعمال کیا ہے، ہائی کورٹس میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت رٹ پٹیشنز کے زیر التواء ہونے کے باوجود، لیکن ہم کسی ایسے فیصلے پر ہاتھ نہیں ڈال سکے جس میں اس عدالت نے خاص طور پر مذکورہ معاملہ کا فیصلہ کیا ہو، اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار کا استعمال کیا، باوجود اس کے کہ اس عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے معاملے میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت منظور شدہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے۔ لہٰذا موجودہ معاملہ پہلے تاثرات میں سے ایک معلوم ہوتا ہے۔ 22۔ آئین کا آرٹیکل 184(3) اس عدالت کو مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا حکم دینے کا اختیار دیتا ہے جیسے کہ آرٹیکل 199، اور آرٹیکل 199 کی شق (5) کے مطابق ایک ہائی کورٹ اور اس عدالت کو اصطلاح ’’شخص‘‘ کی تعریف سے خارج کر دیا گیا ہے جسے کوئی حکم یا ہدایت دی جا سکتی ہے، یا جس کے کسی بھی عمل یا کارروائی کو آرٹیکل 199 کے تحت دائرہ اختیار کے استعمال میں قانونی اختیار کے بغیر کیا گیا یا اٹھایا گیا قرار دیا جائے ۔

اس طرح آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ایک درخواست ہائی کورٹ کے سامنے قابل سماعت نہیں ہے اور نہ ہی آرٹیکل کے تحت کوئی حکم، ہدایت یا اعلان، اپنے یا کسی دوسری ہائی کورٹ یا اس عدالت کے خلاف، یا ایسی عدالتوں کے ذریعے کیے گئے کسی عمل یا کارروائی کے سلسلے میں کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ 199 کی شق (5) کے ذریعے بنائی گئی بار، جو کہ اس آرٹیکل کے تحت دی گئی ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کو متاثر کرتی ہے، جو کہ ایک اہم شق ہے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے اپنے دائرہ اختیار کے استعمال پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ لہٰذا نہ ہی کوئی ہائی کورٹ اور نہ ہی یہ عدالت آرٹیکل 199 اور 184(3) کے تحت اپنے متعلقہ دائرہ اختیار کو کسی ہائی کورٹ یا اس عدالت کے خلاف یا ہائی کورٹ یا اس عدالت کے کسی ایکٹ یا کارروائی کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔ 23۔ اس معاملے کا ایک اور قانونی پہلو بھی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار میں ہائی کورٹ کے کسی بھی فیصلے، حکم نامے یا حکم میں اس عدالت کی مداخلت کو روکتا ہے، آرٹیکل 184 کے تحت اس عدالت کو دیا گیا دائرہ اختیار اس کا اصل دائرہ اختیار ہے، جیسا کہ اس آرٹیکل کے عنوان میں ذکر کیا گیا ہے، آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت اپیلیٹ کے دائرہ اختیار کے برعکس، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عدالت اسے ایسے معاملے میں استعمال کرے گی جس کی پہلے ہی کسی ہائی کورٹ نے سماعت اور فیصلہ نہیں کیا ہے۔

یہ عدالت ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے کسی بھی فیصلے، فرمان یا حکم کی قانونی حیثیت کا جائزہ لے سکتی ہے اور اسے ایک جانب رکھ سکتی ہے، اگر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ قانون کے مطابق نہیں ہے، صرف آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت یا کسی قانون کے تحت یا کسی قانون کے تحت اسے عطا کردہ اپیلیٹ کے دائرہ کار کے استعمال میں اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کے استعمال میں نہیں۔

24۔ اسی طرح کا نظریہ بھارتی سپریم کورٹ نے نریش میراجکر اور دریاؤ میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کے تناظر میں سنایا ہے جس کا دائرہ اختیار ہمارے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے جیسا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے نریش میراجکر میں یہ بات کہی کہ ہائی کورٹ کے ذریعے منظور کیے گئے عدالتی حکم کی درستگی کو صرف اپیل کے ذریعے چیلنج کیا جا سکتا ہے نہ کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت اس کے سامنے رٹ کی کارروائی کے ذریعے۔ اور دریاؤ میں پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت رٹ کی اصل درخواست بھارتی آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے حکم کے خلاف اپیل کی جگہ نہیں لے سکتی (جو ہمارے آئین کے آرٹیکل 199 سے ملتا جلتا ہے)۔

25۔ یہ قانون کا ایک اچھی طرح سے طے شدہ اصول ہے کہ جو کام براہ راست نہیں کیا جا سکتا بالواسطہ کرنا جائز نہیں۔ جب کوئی چیز ممنوع ہوتی ہے تو ہر وہ چیز بھی ممنوع ہوتی ہے جس سے اس تک پہنچا جاتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 175(2) واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ کسی بھی عدالت کے پاس کوئی دائرہ اختیار نہیں ہوگا سوائے اس کے جیسا کہ اسے آئین یا کسی قانون کے ذریعے یا اس کے تحت دیا گیا ہے۔

اس عدالت سمیت کوئی بھی عدالت بالواسطہ یا چکردار ذرائع سے اس آئینی حکم کو ٹال نہیں سکتی۔اس طرح جب کوئی ہائی کورٹ یا یہ عدالت آئین کے آرٹیکل 199 یا آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے یا ایک دوسرے کے خلاف یا ان کی جانب سے کیے گئے کسی عمل یا کارروائی کے خلاف آئینی درخواست کو براہ راست نہیں سن سکتی، ان میں سے کوئی بھی ان میں سے کسی کی جانب سے ایک ہی حقائق اور ایک ہی معاملے میں مذکورہ آرٹیکل کے تحت اپنے اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے پہلے سے دیئے گئے فیصلے کے خلاف فیصلہ دے کر بالواسطہ یا مضمر طور پر ایسا نہیں کر سکتا۔

لہٰذا ہم محفوظ طریقے سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ عدالت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کسی ہائی کورٹ کے عدالتی حکم کے خلاف آئین کے آرٹیکل 199 میں مذکور نوعیت کا حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ لہٰذا شروع کی گئی موجودہ از خود کارروائی، اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی آئینی درخواستیں آئین کے آرٹیکل 175(2) کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 199(5) کے آئینی بار کے پیش نظر محکم نہیں ہیں جیسا کہ ان کا تعلق اس معاملے سے ہے جس کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کیا ہے۔

26۔ ہم نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے کہ اگر یہ عدالت موجودہ معاملے میں شامل قانون کے سوال پر اس فیصلے کے خلاف فیصلہ دیتی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیئے بغیر کیا فیصلہ کیا ہے تو ای سی پی کس فیصلے کو ماننے اور کس پر عمل کرنے کا پابند ہوگا۔ پہلے تاثر میں ایسا لگتا ہے کہ یہ اس عدالت کا فیصلہ ہوگا آئین کے آرٹیکل 201 کے پیش نظر جو آرٹیکل 189 اور مؤخر الذکر آرٹیکل کی دفعات سے مشروط ہے جو اس عدالت کے فیصلے کو ملک کی دیگر تمام عدالتوں پر پابند بناتی ہیں۔ تاہم جب ایسی پوزیشن کا گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ مذکورہ جواب میں ایک سنگین قانونی مسئلہ پیش کرتا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 189 اور 201 میں شامل نظیر کے مطابق قانونی چارہ جوئی میں نکات کا تعین کرنے کے قانونی اصول کے نظریے اور کوڈ آف سول پروسیجر 1908 کے سیکشن 11 میں ضابطہ اخلاق کے نظریے کے درمیان فرق ہے۔

خوش قسمتی سے ہمیں دونوں نظریات کے درمیان فرق کی وضاحت کے لیے گہرائی میں جانے اور محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 27۔ ’’Stare decisis‘‘ اور ’’res judicata‘‘ دونوں لاطینی اصطلاحات ہیں؛ stare decisis کا لفظی معنی فیصلے پر قائم رہنا ہے اور res judicata کا مطلب ہے طے شدہ معاملہ۔ دونوں نظریات کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ کیس عام طور پر کیا فیصلہ کرتا ہے اور اس کیس کے فریقین کے درمیان کیا فیصلہ کرتا ہے۔

کیس کا فیصلہ عام طور پر فیصلہ یا قانون کی حکمرانی کی دلیل ہے جس پر فیصلہ ہوتا ہے جس کے لیے یہ ایک نظیر کے طور پر کھڑا ہوتا ہے اور بعد کے معاملات میں stare decisis کے نظریے کی وجہ سے اس کا اطلاق اور پیروی کرنا ہوتی ہے؛ اور فریقین کے درمیان جو فیصلہ کرتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے، جس میں قانون کے دونوں مسائل پر فیصلہ اور کیس میں پیدا ہونے والے حقائق کے مسائل کے ساتھ ساتھ فریقین کے متنازعہ دعووں پر فیصلہ بھی شامل ہے اور فریقین اور ان کے راز دار res judicata کے نظریے کی وجہ سے اس فیصلے کے پابند ہوتے ہیں۔

 stare decisis کے نظریے کی بنیاد قانون کے یقین، استحکام اور پیشین گوئی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جبکہ res judicata فریقین کے درمیان جھگڑے پر قانونی چارہ جوئی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ stare decisis صرف قانونی مسائل پر لاگو ہوتا ہے res judicata کا اطلاق قانونی مسائل اور حقائق دونوں پر فیصلوں پر ہوتا ہے۔ 28۔ stare decissi اور res judicata نظریات کے دائرہ کار اور اطلاق پذیری میں فرق کی مذکورہ بالا نمائش کے پیش نظر ہماری رائے ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ، اگر اسے ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے سامنے زیر التواء آئی سی ایز میں یا آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت اس عدالت کے سامنے کیس یا کسی دوسرے متاثرہ شخص کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں الگ نہیں کیا جاتا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف اس عدالت کے کسی بھی فیصلے کے باوجود ای سی پی اور گورنر پنجاب پر res judicata کے نظریے کی بنیاد پر مستقل رہے گا اور ایسی صورت حال قانونی مسئلہ حل کرنے کی بجائے مزید آئینی اور قانونی بے ضابطگیوں کو جنم دے گی۔

اس لیے اس بنیاد پر بھی ہمیں لگتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کیلئے یہ مناسب کیس نہیں ہے۔ 29۔ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے اور اس کا آئین ایک وفاقی آئین ہے۔ آئین کا دیباچہ کہتا ہے کہ پاکستان میں شامل یا اس کے ساتھ الحاق میں شامل علاقے ایک فیڈریشن بنائیں گے جس میں اکائیاں اپنے اختیارات پر ایسی حدود کے ساتھ خود مختار ہوں گی جو کہ تجویز کی گئی ہوں، اور آئین کا آرٹیکل 1 اعلان کرتا ہے کہ پاکستان وفاقی جمہوریہ ہوگا جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جائے گا۔

وفاقی آئین کی عام طور پر قبول شدہ خصوصیات یہ ہیں: (۱)حکومت کی دو سطحوں کا وجود؛ پورے ملک کے لیے ایک عمومی [وفاقی] حکومت اور اس ملک کے اندر مختلف علاقوں کے لیے دو یا زیادہ علاقائی [صوبائی] حکومتیں؛ (۲) قابلیت یا طاقت کی تقسیم - مقننہ، ایگزیکٹو، عدالتی، اور مالیاتی - عام [وفاقی] اور علاقائی [صوبائی] حکومتوں کے درمیان؛ (۳) آئین کی بالادستی؛ یعنی مذکورہ بالا انتظامات نہ صرف آئین میں شامل ہیں بلکہ وہ اس حد تک کسی بھی حکومت کی پہنچ سے باہر ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ (۴) کسی بھی طاقت کے استعمال یا کسی کام کو انجام دینے کے لیے دونوں حکومتوں کی اہلیت کا تعین کرنے کے لیے تنازعات کے حل کا طریقہ کار۔

یوں وفاقیت وفاق اور اس کی وفاقی اکائیوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر مبنی ہے جہاں یہ دونوں اپنے اپنے میدان عمل میں آزاد اور خود مختار ہیں۔ 30۔ ہمارے آئین کے تحت وفاقیت، اس لیے خود مختار مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے ساتھ آزاد وفاقی اکائیوں کا بھی تصور کرتی ہے۔ آئین کے حصہ پانچ کا پہلا باب وفاق اور صوبوں کے درمیان قانون سازی کے اختیارات کی تقسیم فراہم کرتا ہے۔ اسی حصے کا دوسرا باب وفاق اور صوبوں کے درمیان ایگزیکٹو پاور کی تقسیم سے متعلق ہے۔

آئین کے حصہ سات کے باب 1 تا 3 نظام عدالت سے متعلق ہیں۔ وہ ہر صوبے کے لیے ایک علیحدہ ہائی کورٹ فراہم کرتے ہیں جس کا دائرہ اختیار اس صوبے کے علاقے تک محدود ہوتا ہے اور پورے ملک کے لیے ایک اعلیٰ عدالت کا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ 31۔ وفاقیت کا بنیادی اصول صوبائی خود مختاری ہے، جس کا مطلب صوبائی قانون سازی، انتظامی اور عدالتی اداروں کی خود مختاری ہے۔

وفاقی اداروں کو وفاقیت میں اس اصول کی پابندی کرنی چاہیے۔ ہمارے آئین کے تحت کسی صوبے کی ہائی کورٹ اس صوبے کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت ہے اور اسے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائرہ اختیار سے نوازا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقائی دائرہ اختیار میں، فیڈریشن، کسی صوبے یا مقامی اتھارٹی کے معاملات کے سلسلے میں کام انجام دینے والے تمام افراد کے کاموں اور کارروائیوں کا عدالتی جائزہ لے۔

صوبائی خودمختاری کے اصول کا تقاضا ہے کہ جب کوئی ایسا معاملہ جس کا تعلق صرف ایک صوبے سے ہو، نہ کہ وفاق یا ایک سے زیادہ صوبوں سے، اس صوبے کی ہائی کورٹ کو عام طور پر اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے اپنا آئینی دائرہ اختیار استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اور اس عدالت کو عام طور پر آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ایسے معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور اپنے دائرہ اختیار کا استعمال نہیں کرنا چاہیے جس کا دائرہ اختیار بنیادی طور پر وفاقی ہے۔

ہمارے آئین کا وفاقی ڈھانچہ اس کا تقاضا کرتا ہے کہ کسی صوبے کی اعلیٰ ترین صوبائی آئینی عدالت کی خودمختاری اور آزادی میں اس عدالت کو آسانی سے مداخلت نہیں کرنی چاہیے بلکہ صوبائی خودمختاری کو مضبوط بنانے اور صوبائی آئینی عدالتوں کی خود مختاری کو مجروح کرنے سے بچنے کے لیے تعاون کیا جائے۔ایسا معاملہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کا دائرہ اختیار بنیادی طور پر وفاقی نوعیت کا ہے ہمارے آئین کا وفاقی ڈھانچہ صوبے کی آئینی صوبائی عدالت کی خود مختاری اور آزادی کو ضروری تسلیم کرتاہے جس میں اس عدالت کی جانب سےمداخلت نہیں کی جانی چاہئے بلکہ صوبائی آئین عدالت خودمختاری کومضبوط و مستحکم کیا۔

پارلیمنٹ مناسب ترین اور سیاسی تنازعات کے حل کےلیے بہترین فورم ہے۔ 32؍از خود نوٹس کے تحت موجودہ کارروائی اور اس سے متعلقہ آئینی پٹیشنز کے باعث یہ عدالت سیاست کی خاردار جھاڑیوں میں الجھ گئی ہےجس کاآغاز گزشتہ سال قومی اسمبلی کی تحلیل سےہوا اور رواں سال دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر پورا ہوا جس میں منحرف ارکان کے ووٹوں کی گنتی پرتنازع کھڑا ہوا جو وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر ہوئی۔ جہاں سیاسی جماعتیں اور عوام کے موقف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جس نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ ایسے میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کے جو صوابدیدی اور غیر معمولی اختیارات ہیں ایسے سیاسی جھمیلے میں وہ نامناسب ہوں گے۔ اور یقیناً عوام کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے تنقید کو دعوت دیں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جمہوریت کبھی رائے کی تقسیم سے محروم نہیں ہوتی۔

سیاسی نظام کی روح یہ ہے کہ نا اتفاقی کو دور کرے۔ لیکن اسے اپنے دائرہ اختیار سے نکال کر عدلیہ کومنتقل کردینا جمہوری انتخاب کی بنیاد کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ہمیں اس بات سے بھی آگاہ رہنا چاہئے کہ قوموں کی زندگی میں ایسے اہم اور نازک واقعات ہوتے ہیں جب سیاسی نظام مایوسی کا باعث بن جاتا ہے۔ لیکن اس سے یہ بات اخذ نہیں کی جاسکتی کہ عدلیہ اس کا بہتر حل پیش کرے گی۔ ایسے معاملات کا تاہم سیاسی عمل کے ذریعہ ہی بہترین حل نکالا جاسکتا ہے۔ 33 سپریم کورٹ آف پاکستان بنام وفاق پاکستان، بنام ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی 34 جمہوریت کے بارے میں یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا مطلب اکثریتی اقتدار نہیں۔

جمہوریت کی روح یہ ہے کہ تمام متعلقین کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ تاکہ اجتماعی فیصلہ کیا اسکے۔ تمام فیصلے کثرت رائے سے کرنا آمریت سے کم نہیں ہے۔ وطعیت کے ساتھ متنازع معاملات پر فیصلے انتہاپسندوں کا طریقہ کار ہے۔ جمہوری عمل میں سیاستدانوں کو جو سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کو علیحدہ نہیں کیا اسکتا۔ کسی نقطہ نظر سے غیر لچکدار تعلق سیاسی طور پر بنجر ثابت ہوتا ہے۔ مقدمے بازی کوئی مشاورتی اور شراکتی عمل نہیں ہے لہٰذا اس سے اختلافات ختم نہیں ہوسکتے جہاں معقول لوگوں کی جانب سے اختلاف رائے کی گنجائش نکلتی ہے۔ صرف سیاسی عمل کے ذریعہ ہی متنازع امور کاحل نکل سکتا ہے لہٰذا ایک قوم عوامی تقسیم کو کم نہیں کرسکتی جب تک سیاستدان اور عوامی نمائندے سیاسی مکالمے کے لیے سیاسی و جمہوری عمل میں شراکت کا طریقہ کار اپنانہیں لیتے۔ چار، تین یا دو، تین سے اکثریتی فیصلے 35 موجودہ کیس میں حکم جاری نہ کرنے کی وجوہ بتانا بھی ضروری ہے تاکہ ریکارڈ کا حصہ رہے۔ ہم سمجھتے ہیں ہمارا فیصلہ ہمارے معزز برادران (یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ) کا موجودہ ازخود نوٹس کے تحت کارروائی اور اس سے متعلقہ آئینی درخواستوں کو 4-3 کی اکثریت سے مسترد کرنا جبکہ تین معزز برادران کا یہ موقف اختیار کرنا کہ ان کا موقف اور حکم 3-2 کی اکثریت سے عدالتی فیصلے پر مبنی ہے۔

موجودہ ازخود کارروائی اور متعلقہ آئینی درخواستیں 4-3 کی اکثریت کے ساتھ عدالتی فیصلے سے جڑا ہے۔ جس کی پابندی تمام پر لازم ہے۔ اس بات کا جواب یہ سمجھنے میں ہے کہ بنچ کی ازسرنو تشکل کے انتظامی اختیارات معزز چیف جسٹس کو حاصل ہیں۔ جب بنچ تشکیل دے دیا جاتا ہے تو وہ اس مقدمے کی سماعت بھی شروع کردیتا ہے۔ بنچ کی تشکیل کے بعد کازلسٹ بھی جاری کردی جاتی ہے۔ پھر بنچ کا کوئی بھی رکن ذاتی وجوہ پر بنچ سے علیحدہ ہونے کے لیےمعذرت کرسکتا ہے۔ اگر دو کے بجائے تین رکنی بنچ مطلوب ہو تو اسے ازسرنو تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

ایسے مواقع پر بنچ چیف جسٹس کو نئی بنچ کی تشکل معاملہ سپرد کرنے کا کہہ سکتی ہے۔ جب بنچ تشکیل پا جائے اور مقدمے کی سماعت شروع ہوجائے مذکورہ بابا صورتحال سے ہٹ کر چیف جسٹس نئی بنچ تشکیل نہیں دے سکتے۔ عدالت نے مزید قرار دیا کہ بنچ کے کسی رکن کی جانب سے معذرت کے بعد کسی معاملے میں دیگر ارکان کے درمیان اختلاف رائے کسی نئی بنچ کی تشکیل کا جواز نہیں بنتی۔

دوران سماعت معذرت کرنے والے جج یا کسی اور وجہ سے جو جج کے آزادانہ نقطہ نظر میں حائل ہو اس عدم اتفاق رائے کو چھپانے یا اختلاف ر ائے کو دبانے کی کوئی بھی کوشش سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ نظام انصاف کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ 36 ہم مذکورہ بالا موقف کی توثیق کرتےہیں۔ ایک جج کو اس وقت تک بنچ سے نہیں نکالا جاسکتا جب تک کہ وہ خود سماعت سے معذرت نہ کرلے۔ مقدمے کی ابتدائی سماعت میں حتمی فیصلہ دینے کے بعد مقدمے کی باقی سماعت میں شریک نہ ہونے والے جج کی وجہ سے ختم نہیں ہوجاتی اور نہ ہی اسے بنچ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔

اس کیس میں دو ججوں نے بنچ میں شرکت یا عدم شرکت کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑ دیا۔ ا ن کی جانب سے اس اختیار کے آزمانے سے مقدمے کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بنچ کی تشکیل نو ایک سادہ انتظامی معاملہ ہے۔ تاکہ کیس کی مزید سماعت جاری رہ سکے۔

یہ بات واضح ر ہے کہ بنچ کے دو معزز ارکان (جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی) کو بنچ سے نکالا نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے از خود مقدمہ کی سماعت کےلیے بنچ میں شمولیت سے معذرت کرلی تھی۔ لہٰذا مختصر فیصلے بھی بڑی حد تک مقدمے کاحصہ ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کی جانب سے بنچ کی تشکیل نو سے دو معزز ججوں کے فیصلےکو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا جو انہوں نے 9؍ رکنی بنچ میں رہتے ہوئے دیئے تھے۔

ہمارے دو معزز برادران (یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ) کے فیصلوں کو شمار نہ کرنے کا مطلب انہیں ان کی مرضی کے بغیر بنچ سے خارج کرنا ہوگا۔ جس کی قانون کے تحت اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ چیف جسٹس کے اختیار میں ہے لہٰذا ہماری رائے میں موجودہ ازخود نوٹس کے تحت کارروائی اور متعلقہ آئینی درخواستیں عدالت کا 4-3 کی اکثریت سے عدالتی حکم ہے۔ مشہور زمانہ پاناما پیپرز کیس کے تناظر میں ہمارے فیصلے کو مزید تقویت ملتی ہے جو 3-2 کی اکثریت سے منظور ہوا تھا۔ جن دو ججوں نے اختلاف کیا تھا وہ بنچ میں نہیں بیٹھے لیکن انہیں بنچ سے علیحدہ بھی نہیں سمجھا گیا۔

باقی تین ججوں نے انہیں حتمی فیصلے میں شامل ر کھا۔ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے وہ بھی بنچ میں شامل رہے۔37 آخر میں ہم اس بات کو بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اداروں کے استحکام، عوامی اعتمادکو یقینی بنانے اور عدالتوں پر عوامی بھروسے کے لیے وقت آگیا ہے کہ ’’ون مین شو‘‘ کے اختیارات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے، جو چیف جسٹس کو حاصل ہیں۔ یہ عدالت ایک شخص چیف جسٹس کے فیصلے پر انحصار نہیں کرسکتی بلکہ ان اختیارات کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔ 38 عمران خان بنام نواز شریف کیس میں عدالت کے تمام ججوں نے آئین کے آرٹیکل۔191 کے تحت حدود اختیار کے لیے آرٹیکل 184(3) کو ریگولیٹ کرنے کی مشق کی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عدلیہ سمیت اداروں کی طاقت ان کے بارے میں عوامی تاثر اور رائے ہوتی ہے۔

اس عدالت کا بھرم بھی عوامی تاثر پر ہے۔ بنچوں کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کو وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔ سپریم کورٹ رولز 1980کے تحت اس عدالت کے پاس وقت ہے کہ وہ عوامی نمائندوں کو باور کرائے کہ ان کے صوابدیدی اختیارات کا ڈھانچہ کیا ہو۔ لیکن وہ اپنا معیار بنانے میں بری طرح ناکام رہے اور معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ وہ عوامی آزادیوں کی محافظ ہے۔ گزشتہ یکم مارچ کو جاری مختصر فیصلے کی وجوہ یہی ہیں۔ جس میں آئینی درخواستوںا ور از خود نوٹس کے تحت کارروائی کو ختم کردیا گیا۔ اس آبزرویشن کے ساتھ کہ متعلقہ ہائی کورٹس ان معاملات کو دیکھیں۔ اور زیر التوا مقدمات کے تین دنوں میں فیصلے کریں۔ جبکہ بہتر یہ ہے کہ ایسے معاملات کو پارلیمنٹ میں حل کیا جائے۔ ہم لہٰذا گزشتہ 23؍ فروری کوجاری احکامات سے ہمیں اتفاق ہے۔ جو معزز برادران یحیی ٰآفریدی اور اطہر من اللہ نے آئینی درخواستوں کو مسترد اور از خود نوٹس ختم کرنے کے لیے جاری کئے تھے۔

ابتداء میں ایک 9؍ رکنی بنچ معاملے کی سماعت کی۔ بعد ازاں دو معزز ججوں نے خود کو بنچ سے علیحدہ کرلیا۔ مذکورہ بالا دو ججوں نے آئینی درخواستیں مسترد کردیں۔ گزشتہ 27؍ فروری کو جاری حکم کے تحت 5؍ رکنی بنچ تشکیل دی گئی۔ مذکورہ بالا دو ججوں کے گزشتہ 23؍ فروری کے فیصلے کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

قومی خبریں سے مزید