• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری

’’یوم باب الاسلام‘‘ درحقیقت اس عہد کی تجدید اور اس عزم کا اظہار ہے کہ ہم ظلم و جبر اور باطل کے خلاف آوازِ حق بلند کرتے ہوئے اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ حق کی بقا، ظلم کے خاتمے اور دین کی سربلندی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، اس لیے کہ حق کا مقدر باقی رہنا ہے اور باطل کا کام مٹ جانا ہے، کیوں کہ باطل تو ہے ہی مٹ جانے کے لیے۔

10؍رمضان المبارک، اسلامی تاریخی کا ایک اہم دن، جسے ’’یوم باب الاسلام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس اہم اور تاریخی دن سندھ میں اسلامی جھنڈا لہرا کر پورے سندھ میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسلامی تاریخ میں سندھ پر عربوں کے حملے کے متعدد اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔

٭… سندھ کی ایک کثیر آبادی مذہباً بدھ مت سے وابستہ تھی، جو ہندو راجا کی حکومت کے باعث اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے تھے، ’’چچ نامہ‘‘ کے مطابق بدھوں نے حجاج سے روابط قایم کیے اور درخواست کی وہ ہندو راجاؤں سے چھٹکارا دلانے کے لیے سندھ پر حملہ کرے۔

٭703 ء میں قبیلہ بنو ازد کے ایک سردار نے عمان کے والی سعید بن اسلم بن ذراع الکلابی کو مار ڈالا اور اپنے پانچ سو آدمیوں کے ساتھ راجا داہر کے ہاں پناہ لے لی۔ حجاج نے راجا داہر کو لکھا کہ وہ ان آدمیوں کو واپس کر دے، لیکن راجا داہر نے اس پیغام کی کچھ پروا نہیں کی۔’’تاریخ معصومی‘‘ کے مطابق خلیفہ نے اپنے شامی سفراء کو غلام خریدنے کی غرض سے سندھ بھیجا تھا، لیکن واپسی میں ان پر بحری قزّاقوں نے دیبل کی بندرگاہ کے قریب حملہ کر کے بہت سے تاجر مار دیئے اور کچھ قید کر لیے۔ ان میں سے بچ نکلنے والوں نے خلیفہ کے علم میں یہ معاملہ پیش کیا۔خلیفہ نے راجا داہر سے رابطہ قایم کیا، مگر راجا داہر نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ جس پر خلیفہ نے اپنے بیٹے ولید کی سرکردگی میں مجرموں کو سزا دینے کے لیے فوج روانہ کی۔

٭باضابطہ بیان جو اس سلسلے میں پیش کیا جاتا ہے، یہ ہے کہ حملے کا خاص سبب یہ تھا کہ خلیفہ سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے لنکا کے راجا نے خلیفہ کے لیے بہت سے قیمتی تحائف بھیجے تھے۔ اسی جہاز میں فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے کچھ عورتیں اور بچّے بھی جا رہے تھے۔ دیبل کے مقام پر بحری قزّاقوں نے انہیں لوٹ لیا، عورتوں اور بچّوں کو غلام بنا لیا۔ حجّاج کے علم میں جب یہ بات آئی تو اس نے سندھ پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لیے محمد بن قاسم الثقفی کو مقرر کیا۔ محمد بن قاسم کا تعلق قبیلہ بنوثقیف سے تھا۔ محمد بن قاسم کے والد کچھ عرصے بصرہ کے گورنر بھی رہے تھے، لیکن انہیں زیادہ اہمیت و شہرت نصیب نہ ہوئی۔ 

محمد بن قاسم نے بصرہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ حجّاج نے محمد بن قاسم کی سرکردگی میں چھ ہزار سپاہ کے ساتھ لشکر سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم خشکی کے راستے سندھ میں داخل ہوئے اور سب سے پہلے قزپور، مکران( پنج گور) کو فتح کر کے ارمائیل(ارمن بیلہ) کو فتح کیا۔ دیبل کی جنگ فیصلہ کن رہی۔ تمام علاقے مطیع بن گئے، اس کے بعد نیرون کو فتح کر کے حجاج سے آگے بڑھنے کی اجازت چاہی۔ حجاج نے جواب میں لکھا کہ تم جہاں تک فتح کرو گے، سب پر تمہاری حکومت و امارت ہوگی۔

93ھ میں محمد بن قاسم اور راجا داہر کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی اور داہر کے کام آ جانے کے بعد پورا علاقہ مسلمانوں کے لیے صاف ہو گیا ، حتیٰ کہ کئی مورخوں نے لکھا ہے کہ اسی جنگ کے بعد گویا تمام ہندوستان فتح ہو گیا تھا اور وہ اسی سال کو یہاں کی فتح کا سال قرار دیتے ہیں۔ خلیفہ بن خیاط کی ’’تاریخ‘‘ سب سے قدیم اور سن وار تاریخ ہے۔ اس میں محمد بن قاسم کی فتوحات کا سن وار ذکر یوں ہے۔ 92ھ میں محمد بن قاسم نے قزپور اور ارمائیل کو فتح کیا۔ 93ھ میں دیبل فتح کر کے نیرون کی طرف کوچ کیا، 94ھ میں راجا چچ مارا گیا، 95ھ میں ملتان کو فتح کیا اور ابنِ قتیبہ نے ’’کتاب المعارف‘‘میں فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 93ھ میں محمد بن قاسم کے ہاتھوں ہندوستان کی فتوحات مکمل ہوئیں۔

سندھ کی فتح کے متعلق روایت ملتی ہے کہ تاریکی میں راجا داہر ایک جم غفیر کے ساتھ مسلمان فوج پر حملہ آور ہوا، شدید معرکے کے بعد راجا داہر اور اس کے بہت سے سپاہی قتل ہوئے۔ زندہ بچ جانے والے بھاگ کھڑے ہوئے، محمد بن قاسم ان کا تعاقب کرتے ہوئے شہر برہما (برہمن آباد) تک آئے، یہاں پر دشمن نے فوج کے ساتھ مقابلہ کیا، مگر محمد بن قاسم نے ان کو شہر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ اس طرح برہمن آباد فتح کرکے کیرج کو فتح کیا۔

محمد بن قاسم الثقفی نے راجا داہر کے خلاف دارالکفر میں رمضان المبارک 93ھ کو مقابلے کے لیے اسلامی لشکر کو صف آراء کیا، پانچ دن تک گھمسان کی جنگ کے بعد آخر 10؍ رمضان المبارک 93ھ کو دارالکفر دارالاسلام میں تبدیل ہوا۔اس طرح سندھ کا خِطّہ اسلام کے نور سے منور ہوا۔