• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تم منصف و عادل ہی سہی شہر میں لیکن

کیوں خون کے چھینٹے سرِ دستار بہت ہیں

اس نگری کے احوال بھی کیا نرالے ہیں؟ بھلا نہایت متنازعہ سیاسی اوکھلی میں عدالت عظمیٰ کو سر دینے کی کیا ضرورت تھی؟ ابھی معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں ہی تھا، جب سات رکنی بنچ کے چار اراکین نے سوموٹو اختیار کے استعمال ہی کو بے محل قرار دے دیا تو چیف جسٹس کو بیچ میں کود پڑنے کی مصیبت سر لینے کی کیا پڑی تھی؟ اب جتنا معزز عظمیٰ پائوں پھیلاتی جاتی ہے، اتنا ہی بنچ کی عددی طاقت گھٹتی جاتی ہے اور آخر میں سات کی بجائے صرف تین پیارے آئینی ترازو کا بوجھ اٹھائے نظر آتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ پہ حملے ہوتے تو دیکھے تھے اور چیف جسٹسز افتخار چوہدری، ثاقب نثار اور گلزار چوہدری کے سوموٹو اختیار کے ہاتھوں انتظامیہ اور مقننہ کے پرخچے اڑتے ہوئے بھی بہت دیکھے، لیکن مہذب حدود میں رہتے ہوئے بھی معزز جج صاحبان کی خانہ جنگی نے سیاسی معاملات میں محترمہ عظمیٰ کے شوقِ دلبری کو شرمسار کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاست کوئی آسان کھیل نہیں اور ہمارے ہاں کھیلنے والے کسی مہذب جمہوری ضابطے کے پابند بھی نہیں، تو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس نے تو مسلا جاناہی ہے۔ پاکستان کی ریاست و سیاست میں میزان تو ہمیشہ ہی سے فولادی ڈھانچے کے ہاتھ میں رہا ہے۔ اب جو اس نے سیاست سے مبینہ طور پر ہاتھ کھینچا ہے تو خلا کو پر کرنے کی عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ کی کوششیں سیاست کے طوفان کو آئینی کوزے میں بند کریں تو کیسے؟ اوپر سے ججوں میں متضاد احکامات کی جو گولہ باری ہوئی، اس میں کسی کا ذوق منصفی نہیں بچا۔ مگر جانے کیوں چیف جسٹس اپنے پیش روئوں کی مداخلت بے جا کی برقی راہ پہ چل نکلے۔ بہتر ہوتا کہ سیاست کے گناہوں کا بوجھ تمام جج مل کر اُٹھا لیتے تو بھاری پتھر اٹھانا آسان رہتا۔ اسی طرح یہ اور بھی بہتر ہوتا کہ عدلیہ کے ضوابط کار فل کورٹ میٹنگ میں بہت پہلے طے کر لئے جاتے تو پارلیمنٹ کو مصلحت کے تحت سرعت سے قانون سازی نہ کرنی پڑتی۔ عدلیہ کا اندرونی بحران اتنا بڑھا کہ ایک بے پیندے کی حکومت جو ججوں کا انتخاب ہو یا پھر اٹارنی جنرل کی تعیناتی چیف کی ناگواری کا بوجھ نہ اٹھا سکنے پر قلابازیاں کھاتی رہ گئی، وہ اب تگڑی ہوکر عدالت عظمیٰ ہی کے تین پیاروں کے ممکنہ فیصلے کے ناقابل عمل ہونے کی بڑھکیں لگا رہی ہے۔ عمران خان نے دو صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کے ایسے چھکے لگائے کہ آئین کو اپنی ایک شق کی قسم نبھانے کے 90 روز میں ان اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے لئے تمام انتظامی اداروں کی مزاحمت اور عدم تعاون کا سامنا ہے۔ اب بھلا بیچارا مقہور الیکشن کمیشن سوائے انتخابی شیڈول کے اعلان کے کیا کرتا جو کہ اس کا فریضہ تھا۔ لیکن نہ جیب میں دھیلا، نہ افرادی قوت اور نہ سلامتی کا اہتمام۔ تو لاچار مرتا نہ تو کیا کرتا، اس کے سامنے اپنے ہی شیڈول کو ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارا نہ رہا۔ بس پھر کیا تھا، ایک آئینی ادارے کو دوسرے آئینی ادارے کے سامنے ملزموں کے کٹہرے میں سر جھکا کر کھڑا ہونا پڑا۔ دیکھا جائے تو مسئلے کا ماخذ بھی پیاروں کا بنچ ہی تھا جس نے آئین کی ایک شق کو دوبارہ لکھ کر پنجاب میں حکومتوں کی اُلٹ پلٹ کر دی۔ اب عمران خان کو نہ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت کے شاندار کارناموں کی ضرورت تھی اور نہ پختونخوا کے مسکین وزیراعلیٰ کی بے ضرر انتظامیہ کا کوئی لحاظ تھا۔ لہٰذا ان دو وزرائے اعلیٰ کے گلوں پہ انگوٹھا رکھ کے خان صاحب نے دو اسمبلیاں تڑوادیں۔ انہوں نے نہ صرف اتحادی حکومت کو بوکھلا دیا بلکہ آئین کی پوری روایتی انتخابی اسکیم کو ہی اُلٹ پلٹ دیا۔ عمران خان اپنے تئیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبائی انتخابات جیت کر عام انتخابات میں اُترے بنا اپنی کامیابی کے جھنڈے لہرانا چاہتے تھے جب کہ مہنگائی و معاشی کنگالی کے بوجھ تلے دبی حکومت کی اتحادی جماعتیں قبل از وقت انتخابات میں عمران خان کے وقت پر اترنے کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہ تھیں۔ اور اس سارے سیاسی کھیل کا خطرناک ترین پہلو یہ تھا کہ دو قسطوں میں ہونے والے انتخابات کے بطن سے جو سیاسی فساد بپا ہونا تھا، اسے آئین کی لفظی تشریح کرنے والے ماننے کو تیار نہیں۔ عمران خان کے لئے تو فتح کی اُمید کے باوجود یہ دو صوبائی انتخابات ہونے سے پہلے ہی مشکوک ہو گئے ہیں۔ وہ نہ عبوری حکومت اور نہ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری تسلیم کرتے ہیں اور نہ اپنی مخالف وفاقی حکومت سے خیر کی اُمید رکھتے ہیں۔ دوسری جانب اتحادی جماعتیں ایسے عام انتخابات کے نتائج ماننے کو تیار نہ ہوں گی جو دو بڑے صوبوں میں سیاسی حکومتوں کے ہوتے ہوئے ہوں گے۔ اب اسی انتخابی الجھن کو حل کرے تو کوئی کیسے؟ کم از کم عدلیہ کے پاس سیاسی شطرنج میں فریقین کی چالبازیوں کو متوازن کرنے کا کوئی پلڑا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ مزید ہرزہ سرائی سے بچنے کے لئے عدالت عظمیٰ کا فل بنچ بیٹھے اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام کے بنیادی حق رائے دہی کے استعمال کو یقینی بنائے۔ اس کے لئے پوری آئینی اسکیم کو بھی دیکھنا ہوگا اور انتخابات کے بطن سے ایک منتخب حکومت کی جگہ ایک نہ سنبھالے جانے والے سونامی کا بھی سدباب کرنا ہو گا۔ لیکن یہ کام عدلیہ کا نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا ہے اور سیاستدان ایسے لڑرہے ہیں جیسے ان کے پائوں تلے سے آئین کی سرزمین کبھی نہیں پھسلے گی۔ وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ سیاستدانوں کی باہمی محاذ آرائیوں میں غیر سیاسی قوتوں کو نہ صرف مداخلت کا موقع ملا بلکہ انہوں نے طویل عرصے تک آمریت کے آہنی شکنجے کس دئیے۔ اب بھی معاملات سیاستدانوں کے ہاتھوں سے تیزی سے نکل رہے ہیں۔ آئے روز بحران بڑھتا اور لاینحل ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی بحران تو تھا ہی، معاشی بحران سے جلد نکلنے کی سبیل بھی نظر نہیں آ رہی اور اوپر سے عدلیہ بھی بحران اور آئین گرداب میں پھنسا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان یاد آرہے ہیں جو ہر سیاسی بحران میں سیاسی مکالمے کی راہ نکالنے کے لئے بے چین ہوتے تھے۔ کاش ایسے زعما ہوتے جو متحارب سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ بٹھا کر سیاسی بحران کا کوئی قابل عمل جمہوری حل نکال پاتے۔ اب سول سوسائٹی کے دہائیوں تک جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کرنے والوں نے میڈی ایٹرز کے نام سے ایک مصالحتی گروپ تشکیل دیا ہے جو سیاستدانوں کی منت زاری کر رہا ہے کہ باہم بیٹھ کر انتخابات کے حوالے سے تمام معاملات کا متفقہ جمہوری حل نکالیں۔ اس کی جگہ اے پی سی بھی ہوسکتی ہے اور پارلیمنٹ بھی۔ لیکن بیچاری سول سوسائٹی تو عرضداشت ہی پیش کر سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین