اردو صحافت کا روشن ستارہ اور اس کو اعتماد اور وقار دینے والے بی بی سی اردو سروس کے آصف جیلانی کے انتقال کی خبر نے افسردہ کر دیا۔ وہ ایک وسیع حلقہ احباب اور بڑے خاندان کو سوگوار اور ماتم گسار چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات سے ہم ایک بہترین دوست اور ہمدرد بھائی سے محروم ہو گئے۔ ان کا انتقال پاکستان کی صحافتی برادری کا بھی بڑا نقصان ہے۔
ان کے انتقال کی خبر ہم نے پیر کی صبح اپنے دوست عطا محمد تبسم کی فیس بک پر پڑھی تو یقین نہ آیا، مگر ہمیں کسی اور ذریعے سے اس کی تصدیق نہ ہو سکی۔ آج بروز منگل ۴اپریل کو فیس بک پر بی بی سی کے جناب رضا علی عابدی کی ایک پوسٹ سے ان کے انتقال کی تصدیق ہو گئی کہ ہمارے بزرگ دوست آصف جیلانی اب ہم میں نہیں رہے۔ رضا علی عابدی بھائی نے ان کی اردو صحافت اور بی بی سی کی اردو سروس میں ان کی خدمات پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وہ آسمان صحافت پر 49برس تک چھائے رہے اور اپنے دور میں بہترین نامہ نگار، مقبول کالم نگار، دو اخبارات روزنامہ جنگ لندن اور روزنامہ ملت کے ایڈیٹر رہے اور بی بی سی جیسے نشریاتی ادارے میں نامور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ انہوں نے صحافت کا آغاز 1954میں 18سال کی عمر میں روزنامہ امروز سے کیا، صحافت کے ہر شعبے مختصر خبر نگاری، رپورٹنگ اور مضمون نگاری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور صحافتی حلقوں میں اپنی پہچان بنائی۔
روزنامہ جنگ کے مالک اور ایڈیٹر انچیف میر خلیل الرحمٰن صحافتی میدان کے بڑے جوہر شناس تھے جو ہمیشہ اپنے اخبار کے لئے اچھے اور لائق سب ایڈیٹرز اور رپورٹرز کی تلاش میں رہتے تھے اور ایک سے ایک باصلاحیت اور لائق اخبار نویسوں کو اپنے اخبار کی صحافتی کہکشاں میں مسلسل جمع کر رہے تھے۔ اسی تلاش کے دوران ان کی نگاہ انتخاب آصف جیلانی پر پڑی تو ان کو جنگ میں لے آئے۔ ان کی جنگ میں آمد سے جنگ کے صحافیوں کی کہکشاں میں ایک اور روشن ستارے کا اضافہ ہوا اور وہ مزید درخشاں ہو گئی۔ انہوں نے پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ تک کے اردو بولنے والوں کو اپنی صحافت سے اپنی جانب متوجہ کیا۔
پاکستان میں اکتوبر 1985کے ایوب خان کے مارشل لا کے زمانے میں محترم میر خلیل الرحمٰن نے محسوس کیا کہ پڑوسی ملک ہندوستان میں اخبار کی نمائندگی وقت کی ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے آصف جیلانی کو 1959میں نئی دہلی میں نمائندہ مقرر کیا۔ ان کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ستمبر 1965میں جنگ چھڑی تو ان کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ ایک ماہ تک تہاڑ کی جیل میں پابندِ سلاسل رہے تاشقند معاہدے کے نتیجے میں جنگ کے خاتمے پر ان کی رہائی صحافیوں کے تبادلے کے نتیجے میں عمل میں آئی اور وہ پاکستان آئے اور چند ماہ بعد ہی بعد جنگ کے نمائندے کی حیثیت سے لندن چلے گئے۔ اسی دوران وہ یکم دسمبر کو بی بی سی اردو سروس میں شامل ہوگئے اور نیوز کاسٹر کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ وہ حالات حاضرہ کا مشہور پروگرام سیر بین بھی پیش کرتے تھے۔
1973میں میر خلیل نے ایک بار پھر ان کی خدمات حاصل کیں اور ان کو جنگ لندن کا ایڈیٹر بنایا جہاں وہ دس سال تک خدمات انجام دیتے رہے اخبارات اور بی بی سی کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے لکھنا ترک نہیں کیا اور وہ باعدہ کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ آصف جیلانی کا تعلق برصغیر کے ایک بڑے علمی گھرانے سے تھا۔ان کی تعلیم و تربیت دہلی کی ایک بڑی یونیورسٹی ’’جامعہ ملیہ‘‘ میں نامور علماء اور ماہرین تعلیم کی صحبت میں ہوئی۔ آصف جیلانی اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’میں نے آنکھ مسلم قوم پرست تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کھولی جہاں میرے والد اور والدہ دونوں تدریس سے منسلک تھے۔ میں اپنے آپ کو بے حد خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میری پرورش اس ادارہ میں ہوئی جو ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر محمد مجیب، ڈاکٹر عابد حسین، مولانا اسلم جیراج پوری اور کیلاٹ صاحب ایسے ممتاز ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی کہکشاں سے درخشاں تھا۔‘‘ ان کے مطابق جب پاکستان بنا تو وہ ساتویں جماعت میں تھے اور ان کی عمر 11سال تھی۔ اس لحاظ سے ان کی پیدائش کا سال1936 اور انتقال کے وقت ان کی عمر 89 سال تھی۔ آصف جیلانی کی اہلیہ محسنہ جیلانی بھی مشہور شاعرہ اور ادیبہ ہیں، جو کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ا ٓصف جیلانی کی دو کتابیں چھپ چکی ہیں جن کے نام ’’وسط ایشیا، نئی آزادی، نئے تقاضے اور ساغر شیشے لعل و گہر “ ہیں۔ ان کے کالموں اور تحریروں کو اگر جمع کیا جائے تو ان کے درجنوں مجموعے بن سکتے ہیں۔