• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

سیدنا علی مرتضیٰ ؓ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا، آپ کو فضائل وکمالات کا جامع، علوم ومعارف کا منبع،رشد وہدایت کا مصدر، زہد و ورع ، شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا۔ آپ وہ عظیم البرکات شخصیت ہیں، جن کی ولادت کعبہ شریف کے اندر ہوئی۔ یہ آپ کی ایسی فضیلت ہے کہ جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں۔

حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: تم میری طرف سے اس مرتبے پر ہو، جس مرتبے پر حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھے ،مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ (بخاری و مسلم)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: علم کے دس حصے ہیں، ان میں سے نو حصے حضرت علی ؓ کو دیے گئے اور دسویں حصے میں بھی وہ لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بات حضرت علی ؓ سے ثابت ہوجاتی ہے تو ہم اسے چھوڑ کر دوسری بات اختیار ہی نہیں کرتے۔ اکابر اور جید صحابہ کرامؓ مشکل و دقیق مسائل میں حضرت علی ؓکی طرف رجوع کرتے تھے ۔

حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کامولیٰ ہے۔ حضرت بریدہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جن لوگوں سے محبت کا حکم دیا ہے، ان میں سے ایک علیؓ بھی ہیں، یہ بات آپ ﷺنے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا! ’’علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں‘‘ سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ غزوۂ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکے میں سیدنا حضرت علیؓ نے اپنی شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا بدر و اُحد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرأت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ ہجرت کی شب حضور ﷺ کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے، اور آپؓ نے آخری وقت میں حضوراکرم ﷺ کی تیمارداری کے فرائض انجام دیے اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ آپؓ کو ’’غُسلِ نبوی‘‘کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ 

آپؓ ’’عشرہ مبشرہ‘‘ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں، جنہیں حضور ﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوش خبری دی اور خلافتِ راشدہؓ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے، آپؓ کو بچپن میں قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور بچوں میں سے سب سے پہلے آپؓ ہی دولتِ ایمان سے منور ہوئے، آپؓ کو ’’السابقون الاولون‘‘ میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے۔

حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں صحابہ ؓکے درمیان مواخات قائم فرمائی تو سیدنا علی المرتضیٰ ؓ بے ساختہ رو دیے اور کہا، اے اللہ کے رسولﷺ، آپ ﷺنے صحابہ ؓکے درمیان مواخات کروائی، لیکن میری کسی کے ساتھ مواخات نہیں کرائی ،تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا، جس نے علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، اس نے رب العزت سے محبت کی او رجس نے علیؓ سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اورجس نے مجھ سے بغض رکھا، اس نے اللہ رب العزت سے بغض رکھا ۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے علیؓ ! اللہ تبار ک وتعالیٰ نے تمہیں ایک ایسی زینت اور خوب صورتی سے نوازا ہے کہ اس سے زیادہ کسی زینت سے اپنے بندوں کو نہیں نوازا ،وہ ان لوگوں کی زینت ہے جو اللہ کے نزدیک نیکو کار ہیں یعنی دنیا میں زہد وبے رغبتی اختیار کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مساکین کی محبت عطا کی ہے ۔‘‘

اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب میں سے علی بن ابی طالب ؓ کے بے شمار فضائل و مناقب ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ سابق الاسلام ہونے کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے قرابت دار ہیں۔ آپ کو تربیت کے لیے نبی کریم ﷺ کی پاک گود میں ڈال دیا گیا تو ان کا مرتبہ قرابت مزید دوبالا ہوگیا اور آپ کی شان میں اضافہ ہوگیا۔ سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو آپ کے عقد میں دے دیا تو مزید فضیلت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے شامل حال ہوگئی۔

حضرت زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میری طرح زندگی گزارے اورمیری طرح جنت الخلد میں رہے جس کا میرے رب نے میرے مرنے کے بعد مجھ سے وعدہ کیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ علی بن ابی طالبؓ کی اطاعت کرے، کیوں کہ وہ تمہیں سیدھے راستے سے ہٹنے نہ دیں گے اور تمہیں گمراہی میں داخل نہ ہونے دیں گے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں عجز و انکساری نمایاں تھی، اپنے عہدِ خلافت میں بازاروں میں تشریف لے جاتے ،وہاں جو لوگ راستہ بھولے ہوئے ہوتے انہیں راستہ بتاتے، بوجھ اٹھانے والوں کی مدد کرتے، تقویٰ اور خشیت الٰہی آپؓ میں بہت زیادہ تھی، ایک بار آپؓ ایک قبرستان میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا ! اے ابو الحسن، یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ فرمایا، میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں، یہ کسی کی بدگوئی نہیں کرتے اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔

ایک مرتبہ آپؓ قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر قبر والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا! اے قبر والو! اے بوسیدگی والو! اے وحشت و تنہائی والو! کہو کیا خبر ہے کیا حال ہے، ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد مال تقسیم کر لیے گے اور اولادیں یتیم ہو گئیں، بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیے۔ یہ تو ہماری خبر ہے، تم بھی اپنی خبر سناؤ! اس وقت کمیل آپؓ کے ہمراہ تھے،وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علیؓ نے فرمایا! اے کمیل، اگر ان (مُردوں) کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ جواب دیتے کہ بہترین سامانِ آخرت پرہیز گاری ہے، اس کے بعد حضرت علیؓ رونے لگے اور فرمایا اے کمیل، قبر ،اعمال کا صندوق ہے اور موت کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے۔