• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرحوم فضل الہٰی چوہدری کا نام آپ نے سن رکھا ہے۔ مغربی پاکستان اسمبلی کےا سپیکر اور پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں۔ تقسیم کے بعد کے ماحول میں ان کی مولانا آزاد سے ملاقات ہوئی۔ مولانا نے پاکستان کے سیاسی حالات پر فکرمندی کا اظہار کیا۔ کسی بھی بڑے بحران سے بچنے کیلئےانہوں نے ایک نصیحت آمیز تجویز دی۔’’دیکھئے، ملک میں انتخابات کرائیے اور بار بار کرائیے، اسی سے عوام میں سیاسی شعور پیدا ہوگا۔‘‘

اک ذرا پیچھے مڑ کر دیکھئے۔جنرل ضیا کے دور تک نہیں، تاریخ کی دوربین لگا کر 1948تک دیکھئے۔جگہ جگہ کنٹینرلگے ہوئے نظر آرہے ہیں؟ یہ کنٹینر آئین کے راستے میں لگے ہوئے ہیں۔اشرافیہ نے نظر رکھی ہوئی ہے کہ کہیں الیکشن ہی نہ ہوجائیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد صرف دو ڈھائی سال میں بیس بائیس صوبائی حکومتوں کو چلتا کیا گیا۔ایک بھی حکومت یا وزیر اعلیٰ کو برطرف کرنے کیلئے کسی اِن ہاوس پراسس کا تکلف نہ کیا گیا۔ وہاں سے صور پھونکا گیا اور یہاں تختہ الٹ دیا گیا۔

مشرقی پاکستان کا احوال بالکل الگ سے ایک کیس اسٹڈی ہے۔ ایک بار اقتدار عوام کو سونپ کر واپس لے لیا گیا۔ کیونکہ عوام کا فیصلہ بھرپور تھا۔ دوسری بار اقتدار دیا ہی نہیں گیا، کیونکہ عوام کا فیصلہ پہلے سے زیادہ بھرپور تھا۔پھر سیاسی راستہ نکالنے کا وعدہ کرلیا گیا مگر عوام کے ارادے معلوم تھے۔دو لخت ہوجانا گوارا کرلیا گیا عوام کی رائے نہ مانی گئی۔ بھٹو صاحب قدسیوں کے زیر سایہ تھے تو خیر خیریت تھی۔عوام کے کاندھوں پرسوار ہوکر آئے تو مسئلے ہوگئے۔ ملک بھر میں تحریکیں اٹھادی گئیں۔ قومی اتحاد کی تحریکوں نے کُل ملاکر ہمیں جنرل ضیا دیا اور جنرل ضیا نے ہمیں مملکتِ ضیا داد پاکستان دی۔جبر کا استعارہ ہوکر یہ اقتدار سن اٹھاسی میں غروب ہوگیا۔بے نظیر بھٹو نے ریاستی نورتنوں کو شکست دی تو وہی ستر اکہتر والا بحران پیدا ہوگیا۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ بی بی جیت گئی ہیں، مسئلہ یہ تھا کہ عوام کے فیصلے سے جیتی ہیں۔پیغام پہنچا دیا گیا کہ حکومت تو آپ کو سونپ رہے ہیں مگر خیال رہے کہ حکومت کرنی نہیں ہے۔ بس گزارنی ہے۔

نوے کی پوری دہائی میں بے نظیر نواز شریف تھیں اور نواز شریف عمران خان تھے۔ کوئی بھی شخص عمران خان کب ہوتا ہے؟ تب ہوتا ہے جب وہ پڑوسیوں کو تنگ کرنے اور گھر والوں سے مشاورت نہ کرنے پر یقین رکھتا ہے۔زرداری صاحب کی بات نہیں کرتے۔ وہ تو پہلے بھی زرداری تھے اب بھی زرداری ہیں۔ (چال چلتے ہیں اور بساط کے اوپر چلتے ہیں)۔ تاہم نواز شریف ایک وقت کے بعد عمران خان نہیں رہے۔ بات جیسے سمجھ آئی، چھانگا مانگا کی خیمہ بستی سے باہر آگئے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کہ سولو فلائٹ پکڑی اور لاہوت و لامکان کی طرف نکل گئے۔ عوام کو ساتھ لیا اور بقائے باہمی کے جذبے کے ساتھ عوامی رہنماوں کی طرف نکل گئے۔ یہاں سے ’مودی کا جویار ہے‘ والا نعرہ رٹواکر گلی کے بچوں کو میاں صاحب کے پیچھے لگادیا گیا۔

اس الٹ پھیر میں جو چیز ہر چیز سے بڑھ کے رہی، وہ میثاق جمہوریت تھا۔ابھی سیاست کا سبق میثاقِ جمہوریت کے تیرھویں صفحے پر تھا کہ واردات ہوگئی۔ دستاویز پر سے ’ 'میثاقِ جمہوریت‘ کا عنوان ہٹاکر’سیاسی مُک مُکا‘لکھ دیا گیا۔ اپنی باری کے انتظار اور تعمیری اپوزیشن کو مل بانٹ کر کھانے سے تعبیر کر دیا گیا۔ یعنی تحریکِ انصاف کی صورت میں چلنے والی ہواؤں میںمیثاق کے سارے پنے اڑ ا دیے گئے۔

پون صدی گزر گئی، سوال آج بھی وہی ہے کہ الیکشن کروانے ہیں یا نہیں ۔آئین کی رائے یہ ہے کہ الیکشن کروانے چاہئیں اور حالات کہہ رہے ہیں کہ نہیں کروانے چاہئیں۔آئین اور حالات جو ایک پیج پر نہیں آرہے، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ وہی مولانا آزاد والا خدشہ، ہم نے انتخابات میں تسلسل نہیں رکھا۔یہ خان صاحب کی ایک آواز پر نظام میں رخنے ڈالنے والے لوگ کون ہیں؟ یہ انتخابی تربیت گاہ کے نہ ہونے کا لازمی نتیجہ ہیں۔ یعنی یہ حادثہ اچانک نہیں ہوا، وقت نے برسوں اس کی پرورش کی ہے۔ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا، مگر جو ہوا سو ہوا۔ اب ہمیں ایک کام کرنا ہے۔ شراکت اور شمولیت کو سیاست کا مستقل وظیفہ بناکر وقت پر الیکشن کروانے کی روایت ڈالنی ہے۔ مگر کیسے؟ موجودہ الیکشن وقت پر کروادینے سے چمن میں بہار نہیں آئے گی۔ بہار کا امکان آخری بار جنرل مشرف کی ایوانِ اقتدار سے رخصتی کے بعد پیدا ہوا تھا۔عوام فیصلہ کر رہے تھے اور اقتدار آگے حق دار کو منتقل ہو رہا تھا۔ ہر انتخابی مرحلہ سیاسی کارکن کی تربیت کر رہا تھا۔ مگر اس عرصے کو بیچ سے کاٹ کر وقت کو واپس نوے کی دہائی میں دھکیل دیا گیا۔

اب یا تو بیچ کا یہ عرصہ کہیں سے ڈھونڈ کر واپس لایا جائے یا پھر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیداکئے جائیں۔جو بھی کیا جائے، راستہ ایک ہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے مل کر کسی نئے میثاق کی طرف جائیں۔ کچھ ضروری باتیں طے کرلینے کے بعد انتخابات کا طبل بجادیا جائے۔ یہ قدم اب آسان اس لئے ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی طرح کے تجربات سے گزر گئی ہیں۔ یہی قدم مشکل اس لئے ہے کہ خان صاحب خود پر دیوتاوں والی کیفیت طاری کرکے معرفت کے کسی نامعلوم درجے پر پہنچ گئے ہیں۔ کوئی خان صاحب کو چٹکی کاٹ کر جتنی جلدی زمین پر لے آئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ ورنہ دائرے کا سفر ہے، پہلے بھی کر رہے تھے آگے بھی کرتے رہیں گے۔

تازہ ترین