تفاخر محمود گوندل
بحر فکر اقبال میں غوطہ زنی کرنے والے اقبال شناس خوب جانتے ہیں کہ حضرت علامہ نے اپنے فارسی و اردو کلام میں جا بجا جن اسلاف کے زریں کارناموں کا تذکرہ بڑے فخر و مباہات سے کیا ہے وہ بزرگان سلف بلند پایہ ہستیاں اصحاب رسول ہی تھے۔ جہاں اقبال نے اپنی شاعری میں قرآن میں بیان کردہ دیگر رموز ہائے حیات کا تذکرہ بالتفصیل کیا ہے وہاں یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآن میں بیان کردہ اصحاب ؓ محمد عربی ؐ کے تذکار آپ کے اشہب قلم کی جولانیوں سے محو ہو جاتے۔
چونکہ اقبال کو سیرت و فرامین رسول اکرمؐ سے بھی گہرا شغف تھا اس لئے آپ نے حدیث میں موجود فضائل صحابہ ؓ کا بنظر عمیق مطالعہ کیا ہو گا ۔اسی لئے علامہ نے بعض رفقائے نبوت کے اسمائے گرامی کا تذکرہ کر کے ان کی خدمت اقدس میں ہدیہ ہائے عقیدت ایسے شاندار اور نادر انداز میں پیش کئے ہیں تاریخ عروض جن کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کلام اقبال میں اگر اصحاب رسولؐ اسمائے گرامی کو تلاش کیا جائے تو فی الواقع معدودے چند نظر آتے ہیں۔
میرے نقطہ نظر سے جہاں بھی کلام اقبال میں اسلاف کے الوالعزمانہ کارناموں کا ذکر ہے، ایسے محیر العقول اور مافوق البشر ادراک والے کارنامے حضور سرور عالمؐ کے تربیت یافتہ، مجاہدانہ عزائم سے سرشار صحابہ کرام ہی انجام دے سکتے ہیں۔ یہ حضورؐ کے حسن تربیت اور ایمان افروز فیض رسانی کا ہی اعجاز تھا کہ رفقائے نبوت ایک اشارہ ابرو پر اپنا اثاثہ جان و مال اسلام پر فدا کرنے کے لئے تیار رہتے۔ صلح کے وقت وہ رعنا غزال تاتاری مگر معرکہ خیر و شر میں شیران غاب سے بھی بڑھ کر نظر آتے۔
حضرت علامہ نے صحابہ کرام کے دلنشیں اور حیات بخش معرکوں اور کامرانیوں کا نام لئے بغیر اجتماعی طور پر کسی ایک جگہ پر تذکرہ نہیں فرمایا، کلام اقبال میں یہ درہائے تابدار جا بجا بکھرے پڑے ہیں کیونکہ اقبال خوب جانتے تھے کہ یہی وہ رفیع الشان ہستیاں ہیں جو آقاؐ کے رخ والضحی کا نظارہ کیا کرتیں، جن کی آنکھیں محبوب خدا کی زلف عنبریں کا مشاہدہ کیا کرتیں، مقدر کے یہی وہ سکندر تھے جو حضورؐ کے انداز خرام سے حظ اٹھاتے، یہی بندگان مہرو وفا اپنے آقاؐ کے وضو کے قطرات زمین پر گرنے سے پہلے تبرکاً چہروں پر مل لیا کرتے کہ ان میں بوئے محبت بھی تھی اور شفا بھی وہ گوہر شناس ہر وقت محبت کے گراں بہاموتیوں سے اپنی جھولیاں بھرا کرتے تھے ، صحرائے مدینہ ہی ان کے لئے کوہ طور اور نگا ہوں کا نور تھا ، انہی سارباں زادوں کی برق پاش تلواریں معرکہ ہائے خیر و شر میں کچھ اس طرح چمکیں کہ ان کی دھاروں میں بجلیوں نے آشیانے بنانے پر ناز کیا۔
حضرت علامہ اقبال نے جن ایثار و خلوص پرور صحابہ کرامؓ کے حضور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ان میں مزاج شناس نبوت سیدنا صدیق اکبر ؓ ، شہکار دربار رسالت ؐ سیدنا عمر فاروق ؓ ، تاجدار اقلیم سخاوت حضرت عثمان غنی ؓ ، کشتہ شمع رسالت حضرت بلال ؓ ، مقرب رسالت مآب حضرت سلمان فارسی ؓ ، سیف اللہ حضرت خالد ؓ ، پیکر زہد و اتقا حضرت ابوذر غفاری ؓ ، ثنا خوان دربار رسالت ؐ حضرت کعب بن زہیر اور حضرت ابو ایوب انصاری ؓ شامل ہیں۔
حضرت علامہ اقبال نے ان صحابہ کرام کے حضور جس تفصیل سے خراج عقیدت پیش کیا ہے ایک مضمون میں مکمل پیش منظر اور پس منظر کے ساتھ تفصیل سے ان کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ حضرت علامہ نے پہلے خلیفہ راشد سیدنا صدیق اکبر ؓ کے حضور بانگ درا میں’’ صدیق‘‘ کے عنوان سے بارگاہ صدیقیت میں بڑے انوکھے انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا اس کے آخری شعر نے اہل دل کو تڑپا کر رکھ دیا اس میں پائے جانے والے تلذذ اور تلطف کو اہل نظر ہی سمجھ سکتے ہیں۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول ؐ بس
اس جذبہ محبت رسول ؐ کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں۔
معنیء حرفم کنی تحقیق اگر
بنگری بادیدہ صدیق اگر
قوت قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبیؐ
ترجمہ : اگر تو میرے حرف کی تحقیق کرے اور حضرت صدیق اکبر ؓ کی آنکھ سے دیکھے تو نبی دل اور جگر کی طاقت بن جاتے ہیں اور اللہ سے بھی زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح مثنوی میں ذات ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ اقبال کس کمال محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
من شبے صدیق را دیدم بخواب
گل ز خاک راہ او چیدم بخواب
آں امن الناس بر مولائے ما
آں کلیم اول سینائے ما
ہمت او کشت ملت راچو ابر
ثانی ء اسلام و غار و بدر و قبر
ترجمہ: میں نے ایک رات حضرت صدیق اکبر ؓ کو خواب میں دیکھا اور ان کے راستے کی مٹی سے پھول چنے وہ جن کے ہمارے آقا ؐ پر باقی لوگوں سے محبت اور مال میں احسانات زیادہ تھے وہ ہمارے طور سینا کے پہلے کلیم تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ کی ہمت ہماری ملت کی کھیتی کے لئے بادل کی مانند تھی وہ اسلام غار ثور غزوہ بدر اور قبر میں بھی حضور ؐ کے ساتھی ہیں۔ اسی طرح مراد رسول ؐ سیدنا عمر فاروق ؓ تاریخ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے جلال سے تخت و کلاہ قیصر و کسریٰ لرزہ براندام اور شکوہ روم و شام کپکپانے لگتا ۔ اقبال فرماتے ہیں:
جہانگیری بخاک ما سرشتند
امامت در جبین ما نوشتند
درون خویش بنگر آں جہاں را
کہ تخمش در دل فاروق کشتند
ترجمہ : اقبال مرتبہ فاروق اعظم واضح کرتے ہوئے سلاطین امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے حکمرانو! تم اپنے اندر یہ اعتماد اور ایمان پیدا کر لو کہ دنیا کی امامت و جہانگیری خالق ارض و سما نے ہماری سرشت اور جبینوں میں تحریر کر رکھی ہے۔ خوف و ہراس کی اذیت ناک کیفیت سے نکل کر اپنے اندر پوشیدہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائو جنہیں اللہ نے قلب فاروق اعظم میں بویا تھا۔
حضرت علامہ نے کشتہ شمع رسالت ؐ حضرت بلال ؓ کے فداکارانہ جذبہء حب رسول ؐ کو جو لامثال اور بے عدیل خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کے متعلق میرا ایمان ہے کہ ایسا حیات بخش محبت و کیف آفریں اور سوز و گداز میں ڈوبا ہوا ہدیہ تحسین جس کی نظیر آج تک اہل فن کے ہاں کم از کم مجھے نہیں مل سکی۔ بانگ درا میں ’’بلال‘‘ کے عنوان سے نظم میں جو ’’چمک اٹھا جو ستارا تیرے مقدر کا ...حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا ‘‘سے شروع ہوتی ہے کے ایک ایک شعر کا ایک ایک لفط مہ و مہر اور انجم افلاک کی رعنائی و زیبائی سے بڑھ کر معلوم ہوتا ہے۔ بالخصوص حضرت علامہ کا یہ شعر :
تری نظر کو رہی دیدمیں بھی حسرت دید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
اہل دل کے سینوں میں وجد طاری کر دیتا ہے ۔ سوچتا ہوں کہ وہ کون سا تابش انگیز لمحہ ہو گا جب علامہ کی نوک قلم کو جنبش ہوئی ہو گی اور اس نے یہ جواہر آبدار قرطاس پر اگل دئے ہوں گے جن کی چمک چشم اہل ایمان کو خیرہ کر رہی ہے ۔ رفقائے نبوت ؐ میں پیکر فقر و غنا مجسمہ خلوص و وفا حضرت سلمان فارسی ؓ تنہا ایسی محبوب ہستی ہیں جنہیں غایت تقرب مصطفی ؐ کی وجہ سے اہلبیت اطہار میں شمولیت کا اعزاز نصیب ہوا ۔ حضرت علامہ اقبال نے سلمان فارسی کے اسی تقرب نبوی کی وجہ سے ارشاد فرمایا:
فارغ از باب و ام و اعمام باش
ہم چو سلماں زادہ ء اسلام باش
یعنی اے مسلمان راز حیات یہی ہے کہ تو اپنے ماں باپ اور چچائوں سے فارغ ہو کر حضرت سلمان ؓ کی طرح اسلام زادہ بن جا۔ چونکہ حضرت سلمان ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر تعیشات زمن اور تمام رشتے داروں کو چھوڑ کر حضور ؐ کے دامن شفقت میں پناہ لے لی اسی واقعے کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے۔ ان مندرجہ بالا رفیع الشان ہستیوں کا تذکرہ اجمالی طور پر پیش کیا ہے۔