• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست مدینہ (عمران خان والی نہیں اصل ریاست مدینہ) میں لازمی تھا کہ جمعہ اور عیدین کا خطبہ مرکز میں امیرالمومنین اور صوبوں میں گورنر دیا کرتے تھے۔ اس موقع پر وہ اپنی حکومت کی پالیسیاں بیان کرتے اور پھر اپنے آپ کو عوامی احتساب کیلئے پیش کرتے ۔

 افغانستان پر قابض ہوجانے والے طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسلامی خلافت قائم کی ہے ۔یوں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسی اصول کے تحت کابل میں جمعہ اور عیدین کی امامت امیرالمومنین ملاھبت اللہ اور صوبوں میں گورنر کرتے اور پھر اپنے آپ کو احتساب کیلئے بھی پیش کرتے لیکن بوجوہ خود ملا ھبت اللہ سامنے نہیں آرہے۔ چنانچہ گزشتہ عید کے موقع پر کابل میں قصر صدارت میں عید کی نماز کا خطبہ طالبان کی امارت اسلامی کے چیف جسٹس عبدالحکیم اسحاق زئی جو عبدالحکیم شرعی کے نام سے مشہور ہیں، نے دیا۔

خطبہ دیتے وقت ملابرادر ، افغان کابینہ کے اراکین اور سرکاری حکام ان کے سامنے بیٹھے تھے ۔

خطبہ کے دوران جہاں انہوں نے خواتین کی تعلیم اور دیگر اقدامات سے متعلق طالبان کی پالیسیوں کا دفاع کیا وہاں وزرا اور سرکاری حکام کو نصیحت بھی کی کہ وہ خوف خدا کو سامنے رکھیں ۔ اپنے آپ کو اللہ اور عوام کے سامنے جوابدہ سمجھیں۔ اس اقتدار کو دنیا کی عارضی چیز سمجھیں وغیرہ وغیرہ ۔

طاقت اور اقتدار کی بے ثباتی سے متعلق ملا عبدالحکیم شرعی نے ایک عبرت آموز اور دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ایک نیم پاگل شخص روز ان کے دربار میں آتا ۔

 اس شخص کا نام ابن وھب تھا۔ وہ آکر خلیفہ ہارون الرشید اور ان کے ساتھیوں کے سامنے لطائف بھی سناتا۔ انہیں ہنساتا بھی تھا اور بعض اوقات کسی حد تک پاگلوں جیسی حرکتیں بھی کیا کرتا تھا لیکن اسکے ان سب کاموں میں خلیفہ ہارون الرشید اور ان کےوزرا کیلئے عموماً ایک نصیحت بھی ہوا کرتی تھی ۔ یوں خلیفہ لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کی گفتگو سے نصیحت بھی حاصل کرتے تھے۔

عبدالحکیم شرعی نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ نیم پاگل شخص یعنی ابن وھب کئی روز کیلئے غائب ہوگیا اورنظر نہیں آیا تو خلیفہ ہارون الرشید کو فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے اپنے کارندوں کو اس کی خبرگیری کیلئے روانہ کیا۔ وہ اس کے مقام پر گئے تو دیکھا کہ وہ ایک درخت کے نیچے آرام سے سو رہا ہے ۔ جب ہارون الرشید کے حکام نے اسے نیند سے اٹھایا تواس نے شدید غصے میں حکام کو کافی ڈانٹ پلادی کہ میری نیند کیوں خراب کی تاہم چونکہ خلیفہ کا حکم تھا

اس لئے وہ ابن وھب کو پکڑ کر خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں لے آئے۔ یہاں بھی ماضی کے برعکس وہ خلیفہ ہارون الرشید سے نہایت ناراض تھااور ان سے ان کے حکام کی شکایت کی کہ تمہارے لوگوں نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی ۔

خلیفہ ہارون الرشید نےپوچھاکہ کیا زیادتی کی ہے تو ابن وھب نے کہا کہ میں آرام سے سورہا تھا لیکن انہوں نے آکر میری نیند خراب کی جبکہ میں اس وقت خواب دیکھ رہا تھا۔ جس پر ہارون الرشید نے ابن وھب سے کہا کہ یہ اتنی بڑی بات تو نہیں کہ تم اس قدر غصہ ہو۔ نیند ہی سے تو اٹھایا ہے اور وقت ملنے پر پھر سوجانا ۔ ابن وھب نےاسی طرح غصے میں کہا کہ وہ معمول کی نیند نہیں تھی بلکہ میں خواب دیکھ رہا تھا ۔ خواب میں میں امیرالمومنین بنا ہوا تھا اور ملک و ملت کے مقدر سے متعلق فیصلے صادر کررہا تھا کہ تمہارے بندوں نے اٹھا کر میری بادشاہت ختم کردی ۔ انہوں نے صرف نیند سے نہیں اٹھایا بلکہ میری وہ ساری سلطنت ہی ختم کردی۔ یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید ہنسے اور کہا کہ یا ابن وھب وہ کوئی حقیقت تو نہیں تھی ۔ خواب ہی تو تھا ۔ کوئی حقیقت میں تو میرے بندوں نے تمہاری حکمرانی ختم نہیں کی ۔اس پر ابن وھب نے خلیفہ ہارون الرشید سے کہا کہ سب خواب ہی تو ہوتا ہے ۔ میری حکمرانی بھی خواب تھی اور تمہاری حکمرانی بھی خواب ہے ۔ میری حکمرانی آنکھ کھلنے سے ختم ہوئی اور تمہاری حکمرانی آنکھ بند ہونے سے ختم ہوگی ۔

ملک و ملت کے مقدر کی قسمت کے فیصلے کرنے کا میرا اختیار میری آنکھ کھلنے سے ختم ہوا اور آپ کا اختیار آپ کی آنکھ بند ہونے سے ختم ہوگا۔ یہ جواب سن کر خلیفہ ہارون الرشید نے ابن وھب سے کہا کہ بے شک تم نے درست فرمایا۔

نہ جانے کرسی، طاقت ، ڈنڈے، ہتھوڑے اور شہرت میں کیا ایسی مصیبت ہے کہ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ زندگی بھر میرے ساتھ ہوگا یا پھر یہ کہ میں زندگی بھر اس عہدے پر بیٹھا رہوں گا۔

حکمرانوں میں دیکھیں تو بھٹو، بے نظیر،مشرف ، نواز شریف اور اب عمران خان کا انجام ہمارے سامنے ہے ۔ ججز میں دیکھیں تو زندہ لوگوں میں ثاقب نثار وغیرہ ہمارے لئے نمونہ عبرت بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی جب آزمانے کیلئے اللّٰہ ہمیں عزت، شہرت یا اختیار دیتا ہے تو ہم نعوذباللّٰہ خدا کی زبان میں بولنے لگتے ہیں ۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں ہزاروں ایسے لوگوں کو دیکھا ہےکہ اپوزیشن یا آزمائش کے دنوں میں ان سے زیادہ شریف ، تابعدار بلکہ غلام کوئی نہیں ہوتا لیکن اقتدار ملتے ہی وہ فرعون بن جاتے ہیں ۔

 پھر جب دوبارہ اقتدار سے محروم ہوجاتےہیں تو دوبارہ اسی لیول پر آجاتےہیں لیکن دوبارہ موقع ملنے کے بعد راتوں رات وہ پھر فرعون صفت بن جاتےہیں۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ سیاستدان، جرنیل اور جرنلسٹ تو سبق نہیں لیتے لیکن دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے چیف جسٹس ، افغانستان کے چیف جسٹس کے بیان کردہ اس عبرت آموز واقعے سے عبرت لیتے ہیں یا پھر ثاقب نثار کا راستہ اپناتے ہیں۔

مرضی ہر کسی کی اپنی ہے لیکن حقیقت بس یہی ہے کہ ایک نہ ایک روز آنکھوں کو بند ہوہی جانا ہے۔ بلکہ اب تو آنکھیں بند ہوئے بغیر پلک جھپکتے ہی انسان آسمان سے زمین پر آگرتا ہے۔ وما علینا الالبلاغ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین