• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے جواں سال وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری دنیا بھر کے ممالک کی سیر کرتے کرتے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھارتی شہر گوا پہنچے۔ ان کا دورہ عالمی میڈیا میں زیر بحث رہا۔ تاہم میری دانست میں ایک مرتبہ پھر بھارت کے مکروہ چہرے پر پڑا ہوا نقاب الٹ گیا اور ترقی کے خوشنما پردے کے نیچے دہشت گرد مودی کا بدنما چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ بھارت عالمی سیاست کی بساط پر امریکہ کے مہرے کے طور پر نمایاں کردار حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔امریکہ بھی اسے چین کے مقابلے میں ایک متبادل طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔اگر بھارت عالمی طاقت بننے کا خواہشمند ہے یا سلامتی کونسل کی رکنیت کی توقع رکھتاہے تو اسے اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ علاقہ کا ’’بڑا‘‘بننے کے لئے صرف رقبہ کا زیادہ ہونا کافی نہیں بلکہ تلخ ماضی سے چھٹکارا حاصل کرکے روشن مستقبل کی طرف نیا سفر شروع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ عالمی سیاسی میدان میں چین کی سفارتکاری ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے بھارت کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔چینی صدر نے دنیا کیلئے ایسی پالیسیاں ترتیب دی ہیں جن کا محور و مرکز ترقی اور انسانیت کی خدمت ہے۔چین دنیا کے تمام ممالک کے سیاسی عمل میں مداخلت کے بغیر وہاں ترقی کا خواہش مند ہے۔یوں تو اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں تاہم یہاں پر ساؤتھ امریکہ کے ممالک برازیل،ارجنٹائن،چلی اور وینزویلا کا تذکرہ کافی ہوگا جو محل وقوع کے اعتبار سے امریکہ کی بغل میں واقع ہیں اور چین کے ساتھ ان ممالک کی تجارت کے حجم میں تین سال کے اندر تین سو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے۔ان ممالک میں وقوع پذیر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے بے نیاز ہو کر چائنا نے انفراسٹرکچر کی تشکیل، اسپتالوں اور بندرگاہوں کی تعمیر اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ سونے کی تلاش کے نئے منصوبے شروع کر کے وہاں ترقی کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔جبکہ انہی ممالک کو امریکہ نے ہمیشہ بد امنی میں مبتلا رکھ کر وہاں کے معدنی وسائل پر قبضہ کیا۔عوامی خواہشات کے برعکس حکومتیں قائم کیں۔اسلحہ کی تجارت بڑھائی جس کا نتیجہ خاک و خون کے سوا کچھ نہ نکلا۔چین نے امریکہ سے متصل ملک وینزویلا میں مستقبل میں توانائی کے حصول کے ایک بڑے ذریعے ’’لیتھیم ''کے ذخائر دریافت کئےہیں۔ان ذخائر کی دریافت کے بعد مستقبل میں نہ صرف یہ ملک ترقی کرے گا بلکہ اس کی توانائی کی ضروریات بھی پوری ہوں گی۔چین نے سائوتھ ایشیا میں سری لنکا،بھوٹان،نیپال بنگلہ دیش اور پاکستان میں سی پیک جیسے منصوبے شروع کئے۔دوسری طرف سعودی عرب اور ایران میں صلح کے بعد خود کو ایک مستند عالمی کھلاڑی کے طور پر منوایا۔چین جیسی سپر پاور کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارتی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کے دامن پر آج بھی گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کا خون ہے۔

بھارت کے تمام ہمسایہ ممالک اس سے تنگ ہیں۔پاکستان کے ساتھ اس کے جھگڑوں کی ایک طویل تاریخ ہے خاص طور پر آرٹیکل 370 معطل کر کے بھارت نے اس پورے خطے میں جنگ کی چنگاری سلگا دی ہے۔مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے نے علاقے میں امن کا توازن خراب کر دیا ہے۔چین کے ساتھ اس کا سرحدی تنازعہ ہے۔بھوٹان اور نیپال کے سیاسی معاملات میں اس کی مداخلت پر دونوں ممالک نوحہ کناں ہیں۔بھارت کے غیر دانشمندانہ رویہ کی وجہ سے اس کے تمام ہمسایہ ممالک چین کے بلاک میں غیر علانیہ شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ہندوستان میں تمام اقلیتیں خصوصا مسلمان جبری قیدی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہاں پر جان محفوظ ہے نہ مال۔بھارت کی 30 سے زائد ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔یہ سارے تلخ حقائق ’’ائنگ انڈیا‘‘کے خوشنما چہرے کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔بھارت کی سفارتی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ گھر آئے مہمانوں کو عالمی سفارتی آداب کے مطابق عزت دینے کا ڈھنگ نہیں،تقریروں میں سچ سننے کی ہمت نہیں،اور ایک عالمی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی سطح کی کانفرنس کی میزبانی کا ڈول ڈال لیا۔کاش اس سطح کا اجلاس منعقد کرنے کےلئے اسی سطح کے ظرف کا بھی مظاہرہ کیا جاتا تو آج عالمی برادری میں بھارت کا قد بڑھ جاتا۔کشمیری مسلمانوں کی قاتل مودی حکومت نے اجلاس کے دوران ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘کی بات کچھ اس زور سے کی کہ بلاول بھٹو زرداری کو سخت ردعمل دینا پڑا جس سے کانفرنس کا ماحول تلخ ہوگیا۔شنگھائی تعاون تنظیم امریکی مالیاتی بالادستی کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔لیکن بھارت جیسے شدت پسند ملک اور انتہا پسند قیادت کی موجودگی میں ان مقاصد کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔اس موقع پر پاکستانی وزارت خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ نے مناسب طرز عمل اختیار کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ کو پاکستان مدعو کر کے بھارت کو مناسب پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔لیکن اس خطے میں امن و امان کی کنجی اب بھی بھارت کے پاس ہے۔بھارت اور پاکستان دونوں کو ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف سفر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔غیر حل شدہ تنازعات کے خاتمے کے لئےدونوں ممالک کے سنجیدہ دانشوروں اور فیصلہ سازوں کی بامعنی بیٹھک ہونی چاہئے۔دونوں ممالک کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اب جنگیں مسئلے کا حل نہیں۔ اب معاشی اور سائنسی ترقی کا زمانہ ہے۔ اس ترقی کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں گے تو امن کا خواب پورا ہوگا۔پاکستان اور بھارت کے عوام کو خط غربت سے اٹھا کر ترقی کی دوڑ میں شامل کئے بغیر خوشحالی کا تصور ممکن نہیں۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ بھارتی قیادت انتہا پسندانہ رویہ ترک کرے۔

تازہ ترین