• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امام کی اقتداء کے لیے اتصالِ صفوف ضروری ہے (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

مسجدِ نبوی میں خواتین باجماعت نماز کے لیے حاضر ہوتیں ، رسول اللہ ﷺ نے مردوں کے پیچھے اُن کی صفوں کا اہتمام فرمایا، تاکہ اُن پر غیر محرم مردوں کی نظر نہ پڑے ۔ مسجد سے واپسی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے طریقہ مقرر فرمایا: ترجمہ:’’ حمزہ بن اُسیدانصاریؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں: اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اور وہ مسجد سے باہر تھے ،پس (مسجد سے نکلتے ہوئے) مردوں اور عورتوں کا راستے میں اختلاط ہوا، رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا: تم پیچھے رہ کر چلو، اس لیے کہ خواتین کا راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، پس تم(مردوں کے ساتھ مخلوط ہونے کے بجائے) راستے کے کنارے پر چلو،پھر خواتین (گلیوں میں) دیوار کے کنارے چلنے لگیں یہاں تک کہ اُن کے کپڑے دیوار سے رگڑ کھارہے تھے ،(سُنن ابوداؤد: 5272)‘‘۔بعدازاں خواتین کے لیے ایک علیحدہ دروازہ بنایا ، جسے ’’باب النساء‘‘ کہتے ہیں ۔ ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے (اجنبی) مرد کو دو(اجنبی) عورتوں کے درمیان چلنے سے منع فرمایا،( سُنن ابوداؤد:5273)‘‘۔

علامہ علاؤالدین حصکفی صفوں کی ترتیب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ (جماعت میں ترتیب کے اعتبار سے )پہلے مردوں کی صف ،پھر بچوں کی پھر خنثیٰ اور پھر عورتوں کی صفیں بنائی جائیں،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد2،ص:270،دار احیاء التراث العربی، بیروت)‘‘۔ لیکن عہدِ فاروقی میں خلیفۂ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فسادِ زمانہ کے سبب عورتوں کے مسجد آنے پر پابندی لگادی تھی۔

ترجمہ:’’عمرہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ عورتوں کے اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتے جو انہوں نے اب ایجاد کیا تو اُن کو (مسجد میں آنے سے ) منع فرما دیتے ،جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کیا گیا تھا ، (راوی کہتے ہیں:)میں نے عمر ہ سے پوچھا :کیا اُن کو منع کر دیا گیا تھا؟، انہوں نے فرمایا: ہاں، (صحیح بخاری: 869)‘‘۔

علامہ غلام رسول سعیدی (علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی 855ھ کے حوالے سے) لکھتے ہیں:’’اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتیں جو انہوں نے ہمارے زمانے میں ایجاد کرلیا ہے اور اپنی زیبائش اور نمائش میں غیر شرعی طریقے اور مذموم بدعات نکال لی ہیں ،تو یقیناً اپنے موقف میں اور شدّت اختیار فرماتیں ، (عمدۃ القاری ،جلد 6،ص:227)‘‘۔

علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ امام عورتوں اور مردوں کو نماز پڑھاتا ہے اور عورتوں کی صف مردوں کی صف کے برابر ہے ،تو ایک شخص جو عورتوں اور مردوں کے درمیان میں ہے، اس کی نماز فاسد ہوجائے گی اوروہ شخص مردوں اور عورتوں کے درمیان مثل سترہ ہوجائے گا ، اسی طرح اگر مردوں اور عورتوں کی صف کے درمیان میں سترہ بقدر اونٹ کے کجاوے کی لکڑی کے ہو تو مردوں کے لیے حجاب بن جائے گی اورکسی کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اگر درمیان سترہ میں ایک ہاتھ کی مقدار دیوار ہو تووہ بھی سترہ ہوجائے گی ، اگر اس سے کم ہے ،تو سترہ نہیں بنے گی ،(فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص:88)‘‘ ۔

غرض آپ نے جو دو صورتیں تجویز کی ہیں ، وہ درست ہیں: (۱) یہ کہ مسجد کے اندر مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو، جیسے پردہ یا لکڑی /المونیم /فائبر وغیرہ کی رکاوٹ ، جیسے آج کل مساجد میں سترے کے طورپر اس طرح کی رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں، جو ضرورت کے وقت ہٹائی بھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح اگر مسجد کی دیوار کے ساتھ لان ہے، جہاں صف بندی ہوسکتی ہے تو ایسا اہتمام بھی کیاجاسکتا ہے، قبلے کی جانب اورجہاں صفیں ختم ہوتی ہیں ، وہاں قناتیں لگادی جائیں ، پردہ بھی قائم رہے گا، امام کی اقتداء بھی درست ہوگی اور مردوں سے اختلاط کے بغیر عورتوں کا نماز کے لیے آنا اورواپس جانا بھی آسان ہوگا ، البتہ جو صورت اب اختیار کررکھی ہے، وہ درست نہیں ہے، حدیث پاک میں ہے:ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عورت کا دالان میں نماز پڑھنا ،صحن میں پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں دالان سے بہترہے، (سُنن ابو داؤ:570)‘‘۔