• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9مئی 2023پاکستان کی سیاسی تاریخ کاسیاہ دن تھا ۔ اس روز ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے وہ کچھ کر دکھایا جو75سالہ تاریخ میں ہمار ازلی دشمن بھی نہ کر سکا۔ چند ’’بلوائیوں ‘‘ نے منٹوں میں ہماری شان کو تہس نہس کر دیا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں میں اپنی مسلح افواج کیلئے اتنی شدید نفرت نہیں دیکھی جتنی پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں میں دیکھی۔ جس طرح ہماری عسکری برتری کی یادگاروں کو پائوں تلے روندا گیا اس کو بیان کرتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے، میں نے جب ایک شہید کی پوتی کو اپنے دادا کی تصویر سے لپٹ کر روتے دیکھا تو میں خود بھی آنسو ضبط نہ کر سکا۔ کور کمانڈر ہائوس کور کا وقار ہوتا ہے جس طرح اس کے وقار کوپامال کیا گیا اس پر ہمارا دشمن خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے۔ لاہور میں کور کمانڈر ہائوس در اصل ’’جناح ہائوس‘‘ تھا، محمد علی جناح کی رہائش کی تکریم نہیں کی گئی۔ ایم ایم عالم نے جس سیبر طیارے پر سوار ہو کر ہلواڑہ ائیرپورٹ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا اور بھارت کے 6 طیارے مار گرائے، اس طیارے کو جس بے دردی سے نذر آتش کیا گیا وہ ناقابل معافی جرم ہے۔ 9مئی2023 کو مسلح افواج کو نشانہ بنایا گیا اس پر شدید رد عمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائےمسلح افواج نےجس طرح تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ عمران خان اردوان ہیں اور نہ پاکستان کی فوج ترکی کی فوج جب نوبتENOUGH IS ENOUGH تک پہنچ گئی تو عسکری قیادت نے ان واقعات سخت نوٹس لیا اور بلوائیوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کرنے کافیصلہ کیا تو پی ٹی آئی کے بیشتر رہنمائوں اور کارکنوں نے نہ صرف ان واقعات سے اظہار لاتعلقی کر نا شروع کر دیا بلکہ پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ختم کر دی جن سورمائوں کا ’’سافٹ وئیر‘‘ اپ ڈیٹ ہو رہا ہے وہ پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اعلانات کر رہے ہیں 9مئی2023کے واقعات کے بعد کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد قومی سلامی کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس ہوا ان اجلاسوں میں سیاسی نوعیت کی دہشت گردی کی وار داتوں پر ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ذاتی وسیاسی مفادات کیلئے گھیرائو جلائو اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی شدید مذمت کی گئی وفاقی کابینہ اور پارلیمان کے اجلاسوں میں بھی اسی نوعیت کی قرادادیں منظور کی گئیں اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ 9مئی2023ء کے سانحہ کے منصوبہ ساز دہشت گردوں کے زمرے میں آتے ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ان کے بچ نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آرمی ایکٹ کے تحت سزائیں دینے کے خوف نے پی ٹی آئی کے بڑے بڑے ’’سورمائوں‘‘ کو پی ٹی آئی کی شکستہ کشتی سے چھلانگیں لگانے پر مجبور کر دیا ہے جب سے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو معلوم ہوا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے اپنی سیاسی وفا داریاں تبدیل کرنے لگے ہیں بڑے بڑے سورما گرفتاریوں سے بچنے کے لئے دوڑیں لگا رہے ہیں۔ اب تک پی ٹی آئی کےکم و بیش پانچ ہزار کارکن گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ سردست عمران خان کو عدلیہ سے مسلسل ریلیف مل رہا اور ان کی ضمانت میں 30مئی 2023ء تک توسیع کر دی گئی ہے جب کہ دوسرے نمبر کی قیادت کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے کسی بھی مسئلہ پر احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے پی ٹی آئی کے کارکن مختلف مقامات پر پر امن دھرنے دیتے تو ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ سیاسی جماعت کے کارکن نہیں کرتے۔

ایک طرف سیاسی محاذ گرم ہے حکومت پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے، دوسری طرف مقننہ اور عدلیہ کے درمیان شدید جنگ جاری ہے کبھی سپریم کورٹ سے مقننہ کو سخت پیغام دیاجاتا ہے کبھی مقننہ جوابی کارروائی کے طور قومی اسمبلی سےچیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی قرارداد منظور کرا لیتی ہے، بات یہیں ختم نہیں ہوئی قومی اسمبلی نے توہین عدالت کے ہم پلہ ’’توہین پارلیمنٹ کا بل‘‘ منظور کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے14مئی 2023کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے کیس کی سماعت کرنے کی بجائے آئندہ منگل تک موخر کر دی ہے پچھلے پیر پی ڈی ایم نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے ایک بڑا شو کر کے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا، اگرچہ سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ پی ڈی ایم نے کیا لیکن اصل شو مولانا فضل الرحمن کا تھاجن کی کال پر پورے ملک سے جے یو آئی کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنا حصہ ڈالا لیکن کلی طور یہ مولانا فضل الرحمن کا ہی شو تھا مولانا فضل الرحمن کے کارکنوں کے دھرنا میں بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کر کے ایک بار پھر جے یو آئی کی دھاک بٹھا دی تھی راولپنڈی سے مسلم لیگی رہنما چوہدری تنویر خان، سردار محمد نسیم خان،محمد حنیف عباسی، بیرسٹر دانیال چوہدری، ناصر بٹ اور سجاد خان کی قیادت میں دو بڑے جلوسوں نے دھرنے میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کی جب کہ اسلام آبادسے ڈاکٹر طارق فضل اور انجم عقیل کی قیادت میں مسلم لیگی کارکنوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا لیکن جمعیت علما اسلام کے کارکنوں نے جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا دیدنی تھا۔ جمعیت علما اسلام کے رضا کاروں نےجب پنڈال خالی ہوا تو پورے پنڈال کی صفائی بھی کی۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے سامنے منعقد ہونے والے جلسہ کا ٹمپریچر خاصہ تیز تھا مقننہ اور عدلیہ کے درمیان لڑائی کے باعث پی ڈی ایم کی قیادت کی تقاریرمیں شدت پائی جاتی تھی مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کا مخاطب چیف جسٹس آف پاکستان ہی تھے انہوں نے اپنی تقاریر میں چیف جسٹس آف پاکستان سے استعفیٰ دے کر گھر جانے کا مطالبہ کیا۔ بہرکیف چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کر دی ہے انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ مذکرات بحال ہوں گے تو کوئی حل نکلے گا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے جن رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں ان پر فوری سماعت کی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے اگرچہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ غیر معمولی اقدام ہے لیکن پی ٹی آئی کے نادان کارکنوں نے جو کچھ کیا اس پر ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ عمران خان نے 30سال قبل جس سیاسی عمارت کی بنیاد رکھی اس کوان کے کارکنوں نے اپنے ہاتھوں مسمار کر دیا۔ عمران خان جو اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر اقتدار کے ایوانوں کو دستک دے رہے تھے انکے کارکنوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کر کے ان کیلئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا اب ناممکن بنا دیا ہے۔

تازہ ترین