• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین اور امریکہ عالمی قیادت اور معاشی غلبہ کیلئے بدترین حریف بن چکے ہیں۔ اس مقابلہ کی بڑی بھاری قیمت چکائی جا رہی ہے۔ان دو معاشی طاقتوں کا مقابلہ مزید تنازعات کا باعث بن کر اقوام عالم کو تقسیم کر رہا ہے۔ وسائل ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرنے اور اتحادیوں کو جیتنے پر خرچ کئے جا رہے ہیں، غریب قوموں کیلئے بڑھتی مہنگائی اور مسائل پر قابو پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ معاشی جنگ کسی بھی وقت فوجی تنائو میں بدل سکتی ہے۔ چین اور امریکہ اس وقت خطرناک سطح پر پہنچ چکے ہیںان کے درمیان علانیہ تصادم شروع ہونے سے پہلے ہی پوری دنیا میںاس کے اثرات محسوس کئے جا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، امریکی حکومت نے چینی اقتصادی امکانات کوگزند پہنچانے کیلئےایک رسمی اور جارحانہ پروگرام شروع کیا۔چینی برآمدات پر محصولات عائدکئے گئے اور امریکہ میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی متعدد اقدامات کے ذریعے حوصلہ شکنی کی گئی۔ ٹرمپ کے بعد جو بائیڈن نے ان پالیسیوںمیںزیادہ تبدیلی نہ کی بلکہ چین مخالف پالیسیوں کو جاری رکھا۔ چین نے جواباًامریکی کمپنیوں پر ٹیکس لگا کر امریکی برآمدات کی حوصلہ شکنی کی۔ حال ہی میںامریکی حکومت نے چینی حکومت کی امریکہ ساختہ جدید ترین مشینری اور ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کرنے کیلئے ایک پروگرام شروع کیاہے۔ خصوصی ٹیکنالوجی پارک بنائے جا رہے ہیں جہاں نئے سافٹ ویئر اور مشینری کو انتہائی محفوظ رکھا جائے گا۔ اس پالیسی کی وجہ سے بہت سی امریکی کمپنیاں اپنی پیداواری سہولتیں چین سے دنیا کے دوسرے حصوں میں منتقل کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ یہ امریکی کمپنیاں چین اور ایشیا سے خطیرمنافع کماتی ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان معاشی دوڑ اور تعلقات میںتعطل دنیا بھر میں افراط زر میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔امریکہ اور چین ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ چین کا عروج بنیادی طور پر امریکی پالیسیوں اور امریکی کمپنیوں کے پیداوار ی یونٹس چین منتقل کرنے کی وجہ سے ہے۔ ان کمپنیوں کی مہارت سے سیکھتے ہوئے چین نے صنعتی دنیا میں ترقی کی اور چند دہائیوں میں ایک بڑا ملک بن گیا۔ دوسری طرف، امریکیوں نے ایک بہت بڑی منڈی تک رسائی حاصل کر لی جہاں وہ براہِ راست اپنی مصنوعات فروخت کر سکتے تھے ، سستی لیبر اور کم لاگت سے اپنا سامان موثر طریقے سے تیار کر سکتے تھے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی حجم اب بھی اربوں ڈالر میں ہے لیکن اس میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان یہ باہمی انحصار اور کفایت شعاری جاری رہتی تو دنیا تجارتی بلندیوں کا مشاہدہ کر سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوپایا ، امریکی کمپنیاں چین سے نقل مکانی کر رہی ہیں۔

چین اور امریکہ کے درمیان معاشی مسابقت سے یورپ درمیان میں پھنس گیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ یورپ روس کے سستے ایندھن کو چھوڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی چین کے ساتھ شراکت کو ختم کرسکتاہے۔ ان کے خیالات کو دیگر یورپی رہنماؤں نے بھی سراہا کہ یورپ کو چین امریکہ جارحیت کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔دونوں ممالک معاشی جنّات ہیں جبکہ یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ دفاعی اخراجات میں اضافے اور روسی ایندھن کی سپلائی میں کمی نے یورپی منڈیوں میں صدمے کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ اس وقت، چین مہنگائی اور غربت سے نمٹنے ، ریونیو فراہم کرنے اور معیشت کی رفتار برقرار رکھنے کی پوزیشن میں ہے۔ بہت سی قوموں کو ایسے انتخاب پر مجبور کیا جا رہا ہے جو آخر کار مغربی اور مشرقی بلاکس کی تفریق پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔امریکہ چین تنازعہ اور مخالفانہ ذہنیت عالمی معیشت کو بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، کریڈٹ اور فنڈنگ کے مسائل غریب ممالک کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ لبنان جیسے ممالک پچھلے تین سال سے ڈیفالٹ کا شکار ہیں۔ چین، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے درمیان تقسیم کے نتیجے میں غریب ممالک کیلئےقرضے اور فنڈنگ کی کمی کے باعث سری لنکا کو ڈیفالٹ کا اعلان کرنا پڑا۔ ترکی کی کرنسی ہفتوں میں کافی قدر کھو چکی ہے اور یہی حال پاکستان کا ہے۔ کوئی بھی ملک جس کا تجارتی توازن منفی ہے وہ اقتصادی ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی ادارے امریکہ اور چین کے درمیان اختلاف کی وجہ سے ریلیف فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دونوں ممالک ایسے اتحاد بنا رہے ہیں جو ایک دوسرے سے ترقی میںمقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔

امریکہ، بھارت آسٹریلیا،جاپان اور کینیڈا کے اتحاد کو تقویت دے رہا ہے جبکہ چین ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ اور سی پیک کی شکل میں سلک روٹ کی بحالی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ BRICS دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کومنہا کرنے کی کوشش میں ہے۔ بہت سی قومیں پہلے ہی اپنی کرنسیوں میں تجارت کر رہی ہیں، بہت سے ممالک کے پاس اپنے قومی ذخائر صرف ڈالر کی صورت میں موجود ہیں اور اگر ڈالر کی قدرگرتی ہے تو یہ قومیںبہ آسانی آگے بڑھ سکتی ہیں۔ پہلا جھٹکا امریکہ کو لگے گا باقی ان ممالک کو لگے گا جو بین الاقوامی مارکیٹ میں مکمل طور پر امریکی معیشت اور ڈالر پر انحصار کرتے ہیں۔ دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب معاشی تصادم فوجی تنازعات میں تبدیل ہوا تو کیا ہوگا۔

پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو بین الاقوامی سطح پر ایندھن اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاریخی منفی تجارتی توازن نے معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ منفی تجارت نے معیشت کو نقصان پہنچایاہے، تجارتی توازن کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرکے اس بحران سے چھٹکارا ممکن ہوپائے گا۔ پاکستان کو چین کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے ذریعے اپنی صنعت کاری، خود انحصاری ، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور سرمایہ کاری پر توجہ دینا ہوگی۔پاکستان کا تجارتی خسارہ گزشتہ چند مہینوں میں 40 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے اس کے باوجود معیشت میں وسعت کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ سیاسی قائدین اور کاروباری برادری پاکستان کی طرف بڑھنے والے سرمایہ کاروں اور صنعتی اداروںکو سازگار پر امن اور مستحکم حالات مہیا کریں ملک میں تمام انسانی وسائل اور صلاحیت موجود ہے، سیاسی عدم استحکام ملکی بقا کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ پاکستان کیلئے یہ وقت ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کاہے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین