نوعمری (Teen age) بچوں اور والدین کے لیے ہمیشہ مشکل عرصہ رہا ہے۔ یو ایس سرجن جنرل کی ایڈوائزری کے مطابق، آجکل نوعمر بچوں کو بےمثال ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ ان کی ذہنی صحت بحران کا شکار ہے۔ 2019ء کے سی ڈی سی یوتھ رسک بیہیوئیر سرویلنس سروے کے مطابق، نوجوانوں میں پچھلی دہائی کے دوران دماغی صحت میں ابتری دیکھی گئی ہے، جس میں افسردگی اور اداسی میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔
یقیناً، اس میں بہت سے بیرونی عوامل ہیں جو کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کی 2018ء میں امریکا میں تناؤ پر رپورٹ کے مطابق نوعمروں اور نوجوانوں کو خبروں میں جو کچھ سننے کو ملتا ہے اس سے وہ تناؤ کا شکار ہوتے ہیں جیسے کہ تشدد، سیاسی اختلاف، موسمیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ، اور ہراسانی کے واقعات وغیرہ۔ لیکن ایک چیز جو اہم اور توجہ طلب ہے وہ نوعمر بچوں کے خود یا والدین کےان سے وابستہ انتہائی اعلیٰ معیارات ہیں۔
یہ امتحانات میں اعلیٰ کارکردگی بھی ہوسکتی ہے، بے عیب جِلد ہونا یا کھیلوں میں نامور کھلاڑی بننے کی خواہش، ’بہترین‘ کے طور پر سامنے آنے کی جستجو اکثر نوعمر بچوں کو خود پر سختی کرنے پر مجبور کرتی ہے، جو کہ نا اہلی اور افسردگی کے جذبات کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے باوجود یہ جاننا کہ اس سب سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے، نوعمر بچوں کے لیے بہت زیادہ راحت بخش ہو سکتا ہے۔
نوعمر بچوں میں ’پرفیکشنزم‘
بہت سے نوعمر بچوں کو لگتا ہے کہ وہ اس وقت تک اچھے نہیں ہیں جب تک کہ وہ اپنی کلاس میں سب سے نمایاں نہ ہوں، اپنی پسند کے کھیل میں سبقت نہ لے جائیں اور جو کام بھی وہ کرتے ہیں اس میں بہترین ہوں، ان کے بہت سے دوست ہوں اور سوشل میڈیا پر ان کے سینکڑوں ’لائیکس‘ ہوں، وہ پوسٹ کرتے ہیں۔ ’کافی اچھا‘ نہ ہونے کا احساس خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے سے آتا ہے۔
اگرچہ دوسروں کے مقابلے میں اپنا موازنہ کرنا بالکل فطری عمل ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ ہماری ذہنی صحت کے لیے اچھا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ناممکن الجھن میں پھنس گئے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اس وقت تک قابل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم ان سے بہتر نہ ہوں جن سے ہم اپنا موازنہ کر رہے ہیں اور ہمیں زندگی کے ہرشعبے میں ہر چیز میں بہتر ہونا چاہیے۔ یقیناً، ہم سب کے لیے ہر چیز میں ہر ایک فرد سے بہتر ہونا ناممکن ہے۔
دوسروں سے اپنا موازنہ کرنا اور کامل (perfect) بننے کی کوشش کرنا دماغی صحت کے مسائل کا ایک نسخہ ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خود تنقیدی پرفیکشنزم (پرفیکشنزم کی ایک قسم جہاں آپ اپنے لیے اعلیٰ معیارات طے کرتے ہیں اور جب آپ ان پر پورا نہیں اترتے تو اپنے آپ پر تنقید کرتے ہیں، جہاں آپ اپنی ناکامیوں پر توجہ مرکوز کرتے اور مسلسل اپنے آپ پر شک کرتے ہیں) کا تعلق ڈپریشن اور اضطراب سے ہے۔
یہ اس سے مختلف قسم کی پرفیکشنزم ہے، جسے محققین ’’ذاتی معیارات کمال پسندی‘‘ کہتے ہیں، جس کا ڈپریشن اور اضطراب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کا مطلب خود پر سخت تنقید کے بغیر اپنے لیے اعلیٰ اہداف کا تعین کرنا۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ خود تنقیدی پرفیکشنزم کے حامل افراد ہفتے کے آخر اور تعطیلات پر بھی فکر مند رہتے ہیں جبکہ اچھی قسم کے کمال پسند افراد ایسا نہیں کرتے اور اس کے نتیجے میں، مجموعی طور پر وہ بہتر مزاج ہوتے ہیں۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم نوعمر بچوں کو یہ دیکھنے میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں کہ خود کے لیے اعلیٰ معیارات کا ہونا ممکن ہے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ سے حسن سلوک کرنا بھی ممکن ہے؟ انہیں اسکول میں سبقت حاصل کرنے اور اچھے کالج میں داخلہ لینے کے لیے خود کو سخت الفاظ اور تنقید کا نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟ وہ اپنی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں، اپنے آپ سے نرمی سے بات کرتے ہوئے جس طرح وہ اپنے دوستوں سے بات کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، بے چینی اور افسردگی کو دور رکھیں؟
پرفیکشنزم کا مقابلہ کرنے کے طریقے
خود ہمدردی (Self- compassion) ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم اپنے ساتھ مہربانی اور مدد کے ساتھ پیش آئیں۔ جیسا کہ کرسٹن نیف نے بیان کیا ہے، خود ہمدردی کا مطلب ہے اس بات سے آگاہ ہونا کہ آپ جدوجہد کر رہے ہیں اور یہ سمجھنا کہ تکلیف، غصہ، مایوسی اور تنہائی جیسے مشکل جذبات انسانی حالت کا حصہ ہیں، اور پھر جب آپ اس طرح محسوس کر رہے ہوں تو اپنے آپ کو سہارا اور تسلی دینے میں فعال کردار ادا کرنا۔
آسٹریلیا میں نوعمر بچوں کے درمیان ہونے والی ایک تحقیق میں، مثال کے طور پر، جب نوعمر بچے زیادہ خود ہمدرد تھے، ایسے میں کمال پسند ہونا ڈپریشن کا باعث بننے کا امکان کم تھا۔ خود ہمدردی نے دراصل کمال پسندی کے رجحانات والے نوجوانوں کو افسردہ ہونے سے بچایا۔ چینی انڈرگریجویٹس کے درمیان ایک اور تحقیق میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جو لوگ زیادہ خود ہمدردی رکھتے تھے ان میں افسردگی کا امکان کم تھا، اور خودہمدردی نے ڈپریشن پر غیر صحت بخش کمالیت کے اثرات کو ختم کیا۔ اگر ہم دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، تو اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم خود اپنے لیے بھی ہمدردی کا مظاہرہ نہ کر سکیں۔ ہم صرف اس کے عادی نہیں ہیں، ہم نے نہیں سیکھا کہ ایسا کیسے کرنا ہے۔
نوعمر بچوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ زیادہ خودمختار بننا سیکھیں۔ خود ہمدردی کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے جیسے کہ خود کو ترغیب دینے کے لیے نوعمربچوں کو اپنے ساتھ سختی سے پیش آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دوسرے بھی ان کی طرح جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، نوعمر بچے مراقبہ کے مختصر طریقے سیکھ سکتے ہیں جو وہ ایسے موقع پر کر سکتے ہیں، جب وہ پریشان یا بے چینی محسوس کریں۔ مراقبے کی طویل مشقیں اس وقت کی جاسکتی ہیں جب ان کے پاس اضافی وقت ہو۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ نوعمر بچے یہ سیکھتے ہیں کہ ان کے اپنے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، اور یہ کہ انہیں کسی دوسرے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مزید برآں، اچھے سلوک کا مستحق ہونے کے لیے ان کا کامل ہونا ضروری نہیں ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ زمین پر بسنے والے ہم سب نامکمل ہیں، اور نامکمل ہونا بالکل ٹھیک ہے۔