• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب فانی ہیں، کسی کی باری آج ہے کسی کی کل، قبریں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔

بڑے سے بڑے عہدے دار کو بھی فنا ہے، ریاستیں، ملک زندہ رہتے ہیں، آج 23 کروڑ لوگ اس میں سانس لے رہے ہیں، 7 برس بعد 2030ء میں 26 کروڑ اور 2050ء میں یہ 33 کروڑ ہو جائیں گے۔

آج ہمارے متعلقہ اربابِ اختیار اقتصادی چیلنجوں کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ واہگہ سے گوادر تک وسائل سکڑ رہے ہیں۔ مسائل پھیل رہے ہیں۔ مقامی سطح پر فعال بلدیاتی ادارے موجود نہیں ۔ ہیں تو ان کے پاس پیسہ نہیں ۔ اور ہمارا پیسہ بین الاقوامی کرنسی ڈالر کے سامنے عجز کا شکار ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں ۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر ساتھ بیٹھنے۔ ان کے عزائم ان کے سوالات سننے کا دن۔ کیا آپ کو خوف نہیں آتا کہ یہ آپ کے اپنے لاڈلے ان کروڑوں میں شامل ہوں گے جنہیں آپ کے جانے کے بعد کہیں زیادہ اذیتوں کا سامنا کرنا ہے۔ آج آپ جن ابتلاؤں سے کانپ رہے ہیں یہ آپ کے بزرگوں کی خاموشی اور مصلحت کوشی کا نتیجہ ہے۔جو انہوں نے اپنے وقت کے حاکموں آمروں ریاستی عہدیداروں کی بربریت، ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے قومی مفادات کی قربانی کے سامنے اختیار کی۔ ہر روز اللہ تعالیٰ آپ کو بے حساب امکانات کے ساتھ ایک نئے دن سے نوازتا ہے۔ ایک فرد کے حوالے سے بھی اور ایک قوم کی حیثیت سے بھی قدرت یہ دیکھتی ہے کہ آپ یہ دن کیسے گزارتے ہیں۔

آپ کو اپنے معاملات کا جائزہ لیتے وقت اپنے خطّے میں اپنے ہمسایہ ملکوں خاص طور بھارت کے معاشی اشاریوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہے۔ پاکستانی نوجوان لڑکی یا لڑکا بھارت بنگلہ دیش کے ہم عمر کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہے کہ نہیں۔عالمی سطح پر بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہے۔ آپ کو جو بھی عہدہ ،جو بھی مقام ،جو بھی اختیارات ملے ہوئے ہیں۔ اس کے مقامی تقاضے بھی ہیں علاقائی اور عالمی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ آپ اپنے زیرنگیں علاقوں اور انسانوں سے کیسا سلوک کررہے ہیں۔ ملک کے اصل مالک یہ ہیں۔ ریاست سے ان کا ایک عمرانی معاہدہ ہوا ہے کہ ان کی خدمات ان کے محصولات کے بدلے آپ ان کی جان مال کی حفاظت کریں گے۔ ان کو عزت دیں گے۔ روزگار فراہم کریں گے۔ آپ کو ساری سہولتیں۔ مراعات اور پروٹوکول اسی لئے ملے ہوئے ہیں ۔ ایک دن آپ کے عہدے کی مدت ختم ہونی ہے۔ اس سے پہلے پہلے آپ کو اپنی سرکاری، اخلاقی، معاشی اور دینی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ اندرون ملک آپ کو اپنے متفقہ منظور شدہ آئین 1973کی حدود میں رہنا ہے۔ ملک نے اقوام متحدہ سے، آئی ایم ایف سے، عالمی تجارتی ادارے سے وابستہ بہت سے عالمی اصولوں پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ ان کے متعین کردہ ضوابط کے اندر رہنا ہے۔

1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سے ہماری عظیم مملکت غیر معمولی معاشی نا ہمواریوں کا شکار ہے۔ قرضوں پر قرضے لئے جارہے ہیں۔ آبادی بڑھ رہی ہے۔ امیر پہلے سے زیادہ امیر ہورہے ہیں۔ جائز نا جائز طریقے سے کمائی دولت سے وہ اپنے مفادات خرید رہے ہیں۔ ملک کے مفاد کا تعین ہی نہیں کیا جارہا ۔ آج ہم جس خطرناک اقتصادی انحطاط سے دوچار ہیں۔ وہ 1985سے اب تک ملک پر حکمرانی کرنے والی شخصیتوں،سیاسی جماعتوں اور اداروں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ان 38سال کی اقتصادی، زرعی، تعلیمی، مواصلاتی پالیسیوں کا تجزیہ کریں۔ حکمرانوں کی اندرون ملک، بیرون ملک املاک اور دولت کا جائزہ لیں۔ اعداد و شُمار دستیاب ہیں۔

ہم نہیں اعداد و شُمار کہہ رہے ہیں کہ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومتی ارکان نے کرسیاں، بنگلے اور گاڑیاں تو سنبھال لیں مگر ملک نہیں سنبھال سکے۔ یہ انتظام اور انصرام اتنا آسان بھی نہیں تھا اور نہ اس 13رکنی سیاسی اتحاد کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تھی۔ یہ گزشتہ 38سال کی انتظامی نا انصافیوں، ترجیحات کے عدم تعین، جن منصوبوں اور سہولتوں کیلئے قرضے لئے گئے۔ ان قرضوں کے عدم استعمال، قومی سیاسی جماعتوں کی عدم تنظیم، علاقائی سیاسی تنظیموں سے جبری اشتراک اور کسی بھی شعبے میں آئندہ دس پندرہ برس کا لائحہ عمل نہ بنانے کی روایت کا منطقی نتیجہ تھا۔ زر مبادلہ کے ذخائر غربت کی لائن سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ایک ڈالر 300روپے سے زائد کا ہوگیا ہے۔ افراط زر کی شرح غیر معمولی ہے۔ ملک میں استحکام نہیں ہے۔

انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ انصاف ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اکثریت کی قوت خرید کم ہورہی ہے۔ پہلے کورونا کی وجہ سے دوسرے ملکوں میںمقیم پاکستانی واپس آرہے تھے۔ اب ملکی بد امنی، ظلم کی وجہ سے پھر نوجوان ہجرت کررہے ہیں۔ سیاسی اور قبائلی انتقام زوروں پر ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 38سال کی بد ترین حکمرانی سے پاکستانی بالخصوص نوجوان اپنے شعور اور سوشل میڈیا سے ملنے والی آگاہی کے باعث پرانی سیاست گری سے بیزار تھے۔ اور وہ ایک نئی پارٹی سے اپنی امیدیں حقیقی آزادی کیلئے باندھ چکے تھے۔ پاکستان ایک 60فی صد نوجوان آبادی والا ملک ہے۔ اس لئے اس کے سماجی اشاریے بدل رہے ہیں۔ ضرورت یہ تھی کہ ہماری قومی سیاسی جماعتیں اپنا انداز سیاست بدلتیں۔ 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق پالیسیاں بناتیں۔ انہوں نے اس نئی جماعت کو ’’غیر ضروری عنصر‘‘ قرار دے کر جسد سیاست سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ اس میں اب وہ کچھ ہفتوں سے کامیاب نظر آرہی ہیں۔ اسی کشمکش میں 9مئی کا یوم سیاہ آگیا۔ جب حساس عمارتوں میں لوٹ مار ہوئی۔ آتشزنی کی گئی۔ تحقیقات اور تفتیش کے بعد ہی حقائق سامنے آئیں گے کہ اصل ذمہ داران کون ہیں اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کا منصوبہ کس کا تھا۔ پاکستان میں پہلے بھی سیاسی پارٹیاں خلاف قانون قرار دی گئیں۔ پارٹی سربراہوں کا عدالتی قتل بھی ہوا۔ حکومتیں بر طرف کی گئیں۔ لیکن ملک کو حقیقی طور پر آزاد با اختیار معاشی خود کفیل نہیںبنایا جاسکا۔

اب بہت ہی ٹھنڈے دل سے انتقام کے اشتعال سے ہٹ کر یہ سوچنے کا لمحہ ہے کہ ہم آج گزشتہ 38سال کی غلط منصوبہ بندی سے بے بس ہیں۔ آج کے جو غلط منصوبے ہیں۔ معاشی ناکامیاں ہیں۔آج ہمارے پڑوسی بھارت، افغانستان، چین، ایران، بنگلہ دیش بہت آگے نکل گئے ہیں۔ آج کی بد نظمی کے اثرات ہمیں کتنے سال برداشت کرنے ہوں گے۔ ہم میں سے، حکمرانوں میں سے بہت سے چار پانچ سال بعد نہیں ہوں گے۔ لیکن ہمارے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بہوئیں اور داماد تو ہوں گے۔ کیا ان کی ذہنی اذیت روحانی کرب ہمیں اور آپ کو قبر میں چین سے رہنے دے گا۔

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

تازہ ترین