سید ابوالاعلیٰ مودودی نہ صرف بے پناہ نڈر تھے بلکہ چٹان کی طرح اخلاقی اصولو ں پہ قائم رہتے ۔ حریفوں نے اور بالخصوص مذہبی لیڈروں نے ا ن کی کیسی کیسی کردار کشی کی ۔ انہوں نے کبھی کوئی ردّعمل نہیں دیا۔ سید صاحب سے جو سب سے بڑی غلطی سرزد ہوئی ، وہ یہ تھی کہ انہوں نے نیک لوگوں کی ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا خو ش آئند مگر سیاسی جدوجہد میں گنہگار بھی اتنے ہی اہم ہوتے ہیں ۔ قائدِ اعظم نے کبھی نیکو کار اکھٹے نہیں کئے ۔ نیک لوگوں کی سب سے خوفناک عادت ہے زعمِ تقویٰ ۔ اپنے نیک اور دوسروں کے گنہگار ہو نے کا احساس ۔ موقع بے موقع اپنی نمازیں ، روزے ، اذکار اور حج گنوانے کا رجحان ۔ گنہگار میں پارسائی کا تکبر نہیں ہوتا۔ اس نے کسی سے ملاقات کا وقت طے کرناہو تو یہ نہیں کہتا کہ ظہر کی دس رکعتیں ادا کرتے ہی آپ کی طرف روانہ ہو جائوں گا ۔ اس کے پاس کوئی کرامات ہوتی ہیں اور نہ گنہگاروں کے اسکرین شاٹ ۔
اس پورے سیاسی بحران ، جس میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایک طرف ہیں اور عمران خان دوسری طرف، میں سراج الحق صاحب کہاں کھڑے ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے لیڈروں اور کارکنوں کو تو ہم سوشل میڈیا پہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ کھانے ، سونے ، عبادات اور رفع حاجت سے جووقت بچ رہتاہے ، اس میں وہ عمران خان پہ تبرہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کی گفتگوئوں کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کی 75سالہ غلطیوں ، بدحالی ، غربت اور بے روزگاری کا ذمہ دار صرف اور صرف ایک ہی شخص ہے اور اس کا نام ہے عمران خان ۔ ان کا بس چلے تو قائدِ اعظم کی ایمبولینس خراب کرنے کی ذمے داری بھی کپتان پر ہی ڈال دیں ۔ دن میں اگر وہ چالیس پوسٹس داغتے ہیں توان میں سے انتالیس عمران خان کے خلاف ہوتی ہیں ۔ لبِ لباب یہی ہوتا ہے کہ عمران خان ایک بدکار شخص ہے ، جس نے اس ملک کو تباہ کر دیا ۔
ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ آپ کا ماضی کا اتحادی آپ پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے ، چنانچہ آپ بھی ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں ۔ یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خان نے کبھی انہیں کچھ کہا ہی نہیں ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اگر تحریکِ انصاف سے اتحاد کیا ہوتا اور مستقبل میں بھی اگرسیاسی و انتخابی اتحادکا آپشن کھلا ہوتا تو وہ کیا کرتے ۔ کوئی انتخابی و سیاسی فائدہ نہ بھی ہوتا تو اس صورتِ حال میں وہ مظلوم کا ساتھ دیتے اور ڈنکے کی چوٹ پر دیتے ۔قاضی صاحب صاحبِ حمیت شخص تھے ، وہ بھی ایسا نہ کرتے ۔ سراج الحق صاحب نے غرض مندی کا ایک نیا کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے فرمایا کہ تحریکِ انصاف کے مایوس کارکن جماعتِ اسلامی میں آجائیں ۔ اس وقت جب ملک کی تمام قوتیں مل کر تحریکِ انصاف کو ذبح کرنا چاہتی ہیں ، سراج الحق صاحب اپنے ایک پائو گوشت پہ رال ٹپکا رہے ہیں ۔ سید صاحب ہوتے تو کہتے کہ موجودہ صورتِ حال میں تحریکِ انصاف والے اپنی جماعت میں ہی ثابت قدم رہی۔سوشل میڈیا پہ جو لوگ گرے ہوئے سیاسی لیڈر کا مذاق اڑا رہے ہیں ، وہ بھی گری ہوئی حرکت کے مرتکب ہیں ۔ ایک خاندانی شخص گرے ہوئے کو کبھی پتھر نہیں مار تا۔آپ نے حساب برابر کرنا ہے تو اس کے اٹھ کھڑے ہونے کا انتظار کریں ۔ چودہ بندے اگر مل کر ایک شخص کو مار رہے ہیں اور آپ ان چودہ لوگوں کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں تو آپ کے بارے میں جو لفظ میرے ذہن میں آرہا ہے ، وہ میں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں ۔
عمران خان میں تو جماعتِ اسلامی کو بے پناہ خامیاں نظر آتی ہیں ۔ اب تو خیرتحریکِ انصاف کے سوا تمام جماعتوں اور لیڈرو ں کے تمام گناہ دُھلتے جا رہے ہیں ۔ وہ لوگ جو کل تک مفرور قرار پائے تھے اور جن کی جائیدادیں قرق ہونے کے قریب تھیں، وہ وفاقی وزرا بنے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی بھی حیرت سے چیخ نکل گئی کہ کل تک ایک شخص مفروراور قید ہوتاہے اور مہینے بعد وہ وزیر بنا ہوتا ہے ۔
دوسری طرف عبد القادر پٹیل کی شکل میں پاکستان کو ایک نیا نابغہ نصیب ہوا ہے ۔پہلے میں سوچتا تھا کہ اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتاہے کہ ایک حکیم نبض سے آپ کی تمام بیماریاں جان لینے کا دعویٰ کرے ۔ عبد القادر پٹیل مگر پیشاب اور خون سونگھ کر ذہنی بیماریوں کو پکڑ سکتے ہیں ۔اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہے کہ ایسے لوگ اس ملک میں وزیرِ صحت بن جاتے ہیں ، جنہوں نے ساری زندگی میڈیکل سائنس کی ایک بھی کلاس نہ لی ہو ۔ ہے دنیا کے کسی ملک کے پاس ایسا وزیرِ صحت ، جو خون اور پیشاب سے دماغی بیماریاں پکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ظاہر ہے کہ عمران خان ذہنی مریض ہے ہی تو ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کے خلاف ایکا کرنا پڑا ۔کل تک جو ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور الٹا لٹکانے پہ تلے تھے، وہ آج بھائی بھائی ہیں ۔ مومنوں کا ایسا اتفاق 75سالہ تاریخ میں نہیں ہوا۔
پاکستا ن کے معاشی حالات اتنے خراب ہیں ۔ آپ نبض اور پیشاب سے دانت درد اور دماغی بیماریاں پکڑ لینے کی صلاحیت رکھنے والے اپنے نابغے ہی یورپ کو ایکسپورٹ کردیں۔ایک ایک دانہ اربوں کا بکے گا۔یہاں ایسے نابغہ روزگاروں کی قدر کرنے والاہے کون ۔ ؟