(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور کے اندر جن تاریخی اور قدیم حویلیوں پر لوگوں نے قبضے کئے ہیں، انہوں نے ان کے بارے میں یہ مشہور بھی کر رکھا ہے کہ یہاں آسیب یا جن بھوت ہیں تاکہ کوئی اس طرف نہ آئے۔ حکومت پاکستان کے ایکٹ 1975ء برائے آثار قدیمہ کے مطابق کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی بھی تاریخی عمارت یا جس عمارت کو قومی یا تاریخی ورثہ قرار دے دیاگیا ہو اس کے دو سو فٹ تک کوئی بھی دیوار تک تعمیر نہیں کرسکتا۔ مگر یہاں تو لوگوں نے گورنمنٹ کالج لاہور کی اس تاریخی عمارت کے 62کمروں اور اس سے ملحقہ علاقے اور راہ داریوں پر ناصرف قبضہ کرلیا ہے بلکہ کئی مکانات کی دیواریں اس تاریخی عمارت کے بالکل ساتھ جوڑ دی گئی ہیں اور کہیں کہیں تو اس کی چھوٹی اینٹ (نانک شاہی) کو اپنے مکانات میں استعمال کرلیا ہے۔ اس تاریخی دربار دھیان سنگھ کی عمارت میں کسی نے جوتے بنانے کا کام بھی شروع کر دیاہے۔ جب ہم اس دربار دھیان سنگھ کی حویلی کے ان حصوں کی طرف گئے جہاں لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں تو کئی لوگ اپنے گھروں سے باہر آگئے اور ہم سے سوالات شروع کردیئے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ان کے ارادے بھی کچھ نیک نہیں تھے۔خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں، پروفیسر ڈک جو کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انہیں سنٹرل ٹریننگ کالج کا پرنسپل مقرر کیاگیا۔ قیام پاکستان کے بعد 1976ء تک گورنمنٹ سنٹرل اسکول لوئر مال کا ہیڈ ماسٹر سنٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل کے ماتحت ہوتا تھا۔ 1976ء میں سنٹرل ٹریننگ کالج کا نام گورنمنٹ ایجوکیشن کالج فار بوائز کردیا گیا اور لیڈی میکلیگن کالج کا نام بھی تبدیل کرکے گورنمنٹ کالج ایجوکیشن برائے خواتین کردیا گیا۔ اس کے بعد 2005ء میں یہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے کیمپز بنا دیئے گئے۔یاد رہے یہ کوئی روایتی ماتحتی نہیں تھی۔ دونوں اداروں کا آپس میں کوآرڈی نیشن بہت مضبوط تھا۔ پرنسپل سنٹرل ٹریننگ کالج، گورنمنٹ سنٹرل اسکول کے معاملات میں اپنی رائے اور مشورے دیتے رہتے تھے۔
قارئین کیلئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کی ابتدائی کلا سیں ، گورنمنٹ کالج لاہور کی عمارت میںہوتی رہی ہیں۔ ابتدائی دنوں میں سنٹرل ٹریننگ کالج کے طلباء کو وظیفہ بھی ملتا تھا۔ دوسری طرف گورنمنٹ کالج کے ابتدائی طلبا کو بھی وظیفہ ملتا تھا۔ انگریزوں نے ان دونوں کالجوں کے طلباء کو وظیفہ دینے کی روایت کا آغاز اس لئے کیا تھا تاکہ لوگ تعلیم کی طرف راغب ہوں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلمان برصغیر میں تعلیم کے معاملے میں ہندوئوں سے پیچھے رہے۔ خیر اب صورتحال یہ تھی کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے جن طلبا کی کلاسیں گورنمنٹ کالج میں ہو رہی تھیں وہ یہاں سے بھی وظیفہ لے لیتے تھے۔ چنانچہ حکومت نے 1888ء میں سنٹرل ٹریننگ کالج کی اپنی خوبصورت عمارت میں ان طلبا کو منتقل کردیا۔
یہ لاہور کا پہلا کالج تھا جہاں 1896ء میں ڈرائنگ تعلیم کو لازمی کردیا گیا اور شاید یہ وجہ تھی کہ سنٹرل اسکول میں بھی ڈرائنگ کی کلاسیں چھوٹے اسکول یعنی جونیئر ماڈل اسکول میں بھی ہوتی تھیں۔ ہمیں یاد ہے گورنمنٹ جونیئر ماڈل اسکول میں ہمارے ڈرائنگ کے دو بڑے شفیق استاد تھے، ماسٹر ناصراور ماسٹر شوکت۔ یہ علیحدہ بات کہ ہم نے دونوں سے خراب ڈرائنگ کرنے پر کئی مرتبہ مار کھائی۔ دونوں ٹیچر چوتھی اور پانچویں جماعت میں ہمیں ڈرائنگ پڑھایا کرتے تھے۔ ماسٹر ناصر مرحوم لڑکھڑا کے چلا کرتے تھے، ایک مرتبہ لڑ کھڑاتے لڑکھڑاتے گربھی پڑے تھے۔ پان ہمارے دونوں اساتذہ بہت کھاتے تھے۔ ماسٹر شوکت ذرا تیز تیز چلنے والے تھے۔
اس زمانے میں بڑے اسکول میں یعنی سنٹرل ماڈل سکول میں جے سی سی ہوتی تھی۔ جسے جونیئر کیڈٹ کور کہتے تھے یہ نویں جماعت اور دسویں جماعت دونوں سال لازمی کرنا پڑتی تھی۔ باقاعدہ خاکی یونیفارم، بھاری فوجی بوٹ، مکمل فوجی وردی تھی۔ کالج کے دو استاد محمد عظیم اور کیپٹن محمد اشرف دونوں اس فوجی ٹریننگ کے ذمہ دار تھے۔ ہائے کیا زمانہ تھا۔ فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی تھی۔ کسی اونچی عمارت سے رسے کی مدد سے لوگوں کو اتارنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ لاہور میں دو اسکول تھے جہاں جے سی سی ہوتی تھی۔جے سی سی یعنی جونیئر کیڈٹ کور۔ سنٹرل ماڈل اسکول اور سینٹ انتھونی اسکول لارنس روڈ۔ این سی سی تو بعد میں کالجوں میں آئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سنٹرل ٹریننگ کالج میں بھی فوجی پریڈ کرائی جاتی تھی ہم تو اکثر جے سی سی کے پریڈ میں غائب ہو جاتے تھے۔ بہر حال یہ ایک بہترین تربیت تھی اور ہمارا سیشن غالباً آخری تھا جب جے سی سی بند کردی گئی۔سنٹرل ماڈل اسکول پہلا اسکول تھا جہاں سوشل ویلفیئر آفیسر مسٹر عارف کا تقرر ہوا۔ ان کا باقاعدہ ایک آفس ہوسٹل کی عمارت میں تھا جہاں وہ اسکول کے بچوں کے مختلف مسائل سنا کرتے تھے اور انہیں حل کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ اسکول لاہور کیا بلکہ پورے پاکستان کا پہلا اسکول تھا جہاں طلباء کی کونسلنگ کی جاتی تھی۔ کیا کیا اچھی روایات تھیں، کیا ڈسپلن تھا، ارے سب کچھ تو ختم ہوگیا۔
دوسری طرف سنٹرل ٹریننگ کالج پہلا تعلیمی ادارہ تھا جہاں نفسیات کا مضمون باقاعدہ پڑھانا شروع کیا گیا۔ سنٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل ایچ ٹی ٹولٹن کا خیال تھا کہ اگر ایک استاد تعلیمی نفسیات کا ماہر نہیں ہوگا وہ کبھی بھی ایک اچھا استاد ثابت نہیں ہوسکتا۔ انکا یہ خیال تھا کہ استاد صرف نصاب/ کتابیں نہ پڑھائے بلکہ اپنے تجربے، مشاہدے اور اپنے علم سے بچوں کو نالج دے تاکہ بچے اسکے تجربے اور مشاہدے سے فائدہ اٹھائیں۔ چنانچہ سنٹرل ٹریننگ کالج اور سنٹرل ماڈل اسکول میں اس طرف بہت توجہ دی گئی۔ یہاں ہم سنٹرل ماڈل اسکول کی ایک اور اچھی روایت کا ذکر کریں گے کہ دوران کلاس اگر کسی بچے کو واش روم یا پانی پینے جانا ہوتا تھا تو ایک لکڑی کا پاس اسکے پاس ہوتا تھا جس پر کلاس کا نام اور انگریزی میں PASS لکھا ہوتا تھا۔ (جاری ہے)