• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں جہاںمختلف سائنسدانوں اور سیاست دانوں کا کر دار ہے وہاں ڈاکٹر عبد القدیر خان کا کلیدی کردار ہے ۔جب امریکہ نے پاکستان پر ایران اور لیبیا کو ایٹمی ٹیکنالوجی اسمگل کرنے کا الزام عائد کیا تو جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قربانی کا بکرابنا دیا اورساری ذمہ داری ان پر عائد کر دی ۔ڈاکٹرخان نے پاکستان کو بچانے کیلئے سارا بوجھ اپنے سرلے لیا ۔ڈاکٹرخان نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل مجھے ٹیلی فون پر دئیے گئے ا نٹرویو میں بتایاکہ’’ میں ایک سرکاری ملازم تھا بھلا کس طرح از خود ایٹمی ٹیکنالوجی بیرون ملک بھجوا سکتا تھا‘‘ ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹریز کی حفاظت کا فول پروف سسٹم تھا ،جہاںسے سوئی تک بھی باہر نہیں جا سکتی ،زبردستی کے ’’اعتراف جرم ‘‘ کے بعد ہل سائیڈ روڈ پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کی رہائش گاہ کو ’’غیر علانیہ‘‘ زندان میں تبدیل کر دیا گیا جس میں ڈاکٹر عبد القدیر خان اپنی زندگی کی آخری سانس تک ’’قید‘‘ رہے بظاہر عدلیہ کے حکم پر ڈاکٹر عبد القدیر خان پر پاکستان کے آزاد شہری کی حیثیت سے نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن یہ کیسی آزادی تھی کہ جب کبھی وہ’’زندان‘‘ سے باہر کھلی فضا میں سانس لینا چا ہتے تو ’’اوپر‘‘ سے کلیئرنس درکار ہوتی۔ ڈاکٹر خان نے1976ء کے بعد سے شاید ہی کوئی دن ’’آزاد شہری‘‘ کے طور پر گزارا ہو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نےپاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے جس کام کی بنیاد رکھی تھی اس کا تقاضا بھی تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دنیا کی’’نظروں‘‘ سے اوجھل رکھا جائے لیکن کے آر ایل سے ریٹائر ہونے کے بعد انہیں کئی سال تک ’’حفاظتی تحویل‘‘ میںرکھا گیا، انہوں نے کئی بار اس بات کا بھی گلہ کیا کہ ان کے احباب کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی ۔

چار عشرے قبل مغرب کو ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ’’سن گن‘‘ ملی تو بی بی سی کا نمائند ہ ڈاکٹر خان تک رسائی اور کہوٹہ پلانٹ کا سراغ لگانے کی کوشش میں اپنی درگت بنوا بیٹھا ،جب کہ ایک فرانسیسی کہوٹہ جانے کے’’شوق‘‘ میں اپنے دانت تڑوا بیٹھا پھر کسی نے کہوٹہ کا رخ نہ کیا ۔پاکستان نے بھارت کے ’’جارحانہ عزائم‘‘ کو بھانپ لیا تو روزنامہ مسلم کے ایڈیٹر مشاہد حسین سید کی وساطت سے بھارتی صحافی کلدیپ نیر کی ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ملاقات کرائی گئی،باتوں باتوں میںڈاکٹر خان نے باور کرادیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان اپنی سلامتی کیلئے ایٹم بم کا استعمال کرکے بھارت کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ اسی طرح جب جنرل ضیاالحق نئی دہلی پہنچے تو انہوں نے باتوں باتوں میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو باور کرا دیا کہ ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ہمارے پاس بھی’’چھوٹا سا ہتھیار‘‘ موجود ہے جو پورے خطے کو دنیا کے نقشے سے مٹا سکتا ہے،اس کے بعد بھارت نے اپنی افواج کو پاکستان کی سرحدوں سے واپس بلا لیا۔ مسلسل نظر بندی سے ڈاکٹر خان کی طبیعت میں چڑچڑاپن آگیاتھا وہ حکومتی طرز عمل سے سخت ’’نالاں‘‘ تھے۔ڈاکٹر خان البتہ سابق صدر غلام اسحق کے معترف تھے ان کا کہنا تھا اگر غلام اسحقٰ خان اس پروگرام سے وابستہ نہ ہوتے تو پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا ۔بھٹو کے دور میں کہوٹہ میںیو رینیم افزودہ کرنے کا پلانٹ لگانے کیلئے جگہ کا انتخاب کیا گیا ،جسے جنرل ضیاالحق کے دور میں کامیابی سے ہمکنار کیا گیا جب کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا باضابطہ اعلان کیاگیا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ(ق) کا طوطی بولتا تھا، مسلم لیگ(ق) کے سیکریٹریٹ میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے دفتر میں بیگم عابدہ حسین براجمان تھیں، وہ ذاتی طور پر میری بڑی عزت کرتی ہیں، میں نے اسی تعلق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے شکوہ کیاکہ ’’ محترمہ آپ یہاں بیٹھی اچھی نہیں لگتیںآپ نے نواز شریف کو مشکل وقت میں چھوڑ کر اچھا نہیں کیا ‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ کون سی خوبی ہے کہ میں نواز شریف کو نہ چھوڑتی انہوں نے تو مجھے ’’بجلی چور‘‘ بنا دیا تھا‘‘ میں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا وزیر اعظم بتا دیں جس نے صدر مملکت ، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کو گھر بھجوا یاہو گو کہ آرمی چیف کو گھر بھجوانے کے نتیجے میں نواز شریف کو جیل جانا پڑا ،میں نے کہا کہ ’’ایسا وزیر اعظم کہیں سے ڈھونڈ لائیں جس نے امریکی صدر کی پانچ ٹیلیفون کالز کی پروا کئے بغیر بھارت کے 5ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 6ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ایٹمی کلب میں شامل کرا دیا ‘‘ اس پر بیگم عابدہ حسین نے برملااعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اتنا بڑا ’’ جگرا‘‘ تو نواز شریف کا ہی ہو سکتا ہے جس روز وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا اس معاملے پر ان کی کابینہ منقسم تھی کچھ وزراء انہیں ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں لگائی جانے والی پابندیوں سے خوفزدہ کر رہے تھے ایک وزیر ملک سے دبئی فرار ہو گئے تھے لیکن میاں نواز شریف نے تمام تر خطرات مول لے کر ایٹمی دھماکے کرنے کا وہ فیصلہ کر دیا جس کی کسی حکمران میں جرات نہ تھی۔

میرے ساتھی دفاعی رپورٹر سہیل عبد الناصر اور میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کے بعد ’’ایٹمی دھماکہ‘‘ سے ایک روز قبل مشترکہ ایکسکلوسو اسٹوری فائل کی تھی ، ہاتھ سے لکھی ہوئی خبر کا مسودہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، راقم نے1985ء میںڈاکٹر عبد القدیر خان کے اعزاز میں راولپنڈی اسلام آبادپریس کلب میں ’’تقریب پذیرائی‘‘ منعقد کر کے ڈاکٹر خان کی خدمات کا پوری قوم سے اعتراف کرایا۔ ان کو ’’گولڈ میڈل ‘‘ دیا گیا اسی طرح جب میں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کا صدر تھا تو ڈاکٹر خان کو پریس کلب کی جانب سے ان کی قومی خدمات پر سونے کا تاج پہنایا گیا، نواز شریف کے دو ادوار میں ڈاکٹر خان ایٹمی پروگرام سے وابستہ رہے لیکن ان کی آپس میں کبھی نہ بنی تاہم ایٹمی پروگرام کے حوالے سے میاں نواز شریف ڈاکٹر خان کی خدمات کے معترف رہے،جب کہ ڈاکٹر خان پرویز مشرف کے ستائے ہوئےتھےجب ان کے سامنے کوئی پرویز مشرف کا نام لیتا ہے تو گویاان کا خون کھول اٹھتا ۔ڈاکٹر خان کے ساتھ پرویز مشرف دور میں جو سلوک روارکھا گیا وہ کسی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ڈاکٹر خان کی اپنی زندگی میں سب سے بڑی غلطی سیاست کی خار دار وادی میں کودناتھا۔ ان کو ’’سیاسی بونوں‘‘ نے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جب ڈاکٹر خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے تحریک تحفظ پاکستان کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہی سیاسی عناصر ان کے اور نواز شریف کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کا باعث بھی بنے۔

تازہ ترین