• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

باپ دنیا کی وہ عظیم ترین ہستی ہے، جو اپنے بچّوں کی پرورش، ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیارِ زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکیں۔ میرے والد شفیق احمد شیخ بھی اپنے نام کی طرح ہم درد، محبت کرنے والے، ہر ایک کا دُکھ درد بانٹنے اور بلا تفریق ہر کسی کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والے انتہائی سادہ طبیعت کے قناعت پسند انسان تھے۔ وہ ایک شجرِ سایہ دار تھے، جس کی چھائوں میں ہم سب بھائی، بہن ہرغم و فکر سے آزاد تھے۔ اُن کی موجودگی ہمیں ایسا حوصلہ بخشتی، جس میں کوئی ڈر، خوف نہیں تھا۔

میرے والد اپنے تین بھائیوں اور چار بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ بڑے ہونے کے سبب گھر کی کئی ذمّے داریوں کا بوجھ بھی اُن کے کاندھوں پر آپڑا تھا۔ اُس وقت ان کی بہنیں بہت چھوٹی تھیں، لہٰذا ان کی دیکھ بھال میں بھی اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتے۔

1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ہمارا خاندان بھی بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔ میرے دادا، ہائی کورٹ کے وکیل اور مسلم لیگ کے عہدے دار تھے، مگر سرزمینِ پاکستان میں قدم رکھنے کے کافی عرصے بعد تک ہمارا خاندان سخت آزمائش کا شکار رہا۔ روزی، روزگار نہ ہونے کی وجہ سے میرے والد انڈے اور دودھ کی سپلائی کا کام کرکے کسی نہ کسی طرح گھر کے اخراجات پورے کرنے میں حصّہ ڈالنے لگے۔ اپنی والدہ یعنی میری دادی کے ساتھ مل کر بہن بھائیوں کا خیال بھی رکھتے۔

اس دوران حصولِ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پھر 1967ء میں ہمارا خاندان کراچی منتقل ہوگیا اور اچھے دن شروع ہی ہوئے تھے کہ اچانک دادا کا انتقال ہوگیا۔ دادا کے انتقال کے بعد والد صاحب نے اپنی تمام بہنوں کی شادیاں خود کیں اور ترکے میں ملنے والی زمینیں بیچ کر1970ء میں اپنا ذاتی مکان تعمیر کروایا۔ بعدازاں، 1975ء میں والد صاحب کو ان کی والدہ اور بہن بھائیوں کی دعائوں سے ایک ملٹی نیشنل آٹو موبائل کمپنی میں اچھی پوسٹ پر ملازمت مل گئی، جہاں سے تیس برس ملازمت کے بعد ریٹائر ہوئے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد دو حج کیے، اور یکے بعد دیگرے اپنے تمام بچّوں کی شادیاں بھی کیں۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے بھرپور حامی، جب کہ ان کی کم عمری کی شادیوں کے سخت خلاف تھے۔ قصّہ مختصر، میرے والد نے اپنی پوری زندگی ہر رشتے کو خوب نبھایا۔ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے بعد اپنی اولاد اور پھر ان کے بچّوں یعنی نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو خوب پیار و محبت سے نوازا اور ان کی محبتیں اور چاہتیں بھی سمیٹیں۔ وہ بچّوں کی نفسیات کو خوب سمجھتے تھے، اسی لیے ان کے ساتھ بچّہ بن جایا کرتے، خوب ہنسی مذاق کرتے، کھیل کود میں شامل ہوتے اورخوش ہوتے۔

2012ء میں جب والد صاحب کا انتقال ہوا، تو احساس ہوا کہ ان کی جدائی، ہماری زندگی کاکس قدر تکلیف دہ اور ناقابلِ برداشت درد ہے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی بہنیں، جنھیں انھوں نے باپ بن کر پالا، خود کو یتیم محسوس کرنے لگیں۔ آج ان کے داغِ مفارقت کو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی خاندان کے تمام افراد اور ملنے جلنے والے انھیں بہت اچھے الفاظ سے کرتے ہیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ شفیق صاحب واقعی بہت شفیق اور ہم درد انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ (ریحان احمد شیخ، کراچی)