تاریخ نے عروج اور اقتدار میں دوام نہیں دیکھا اور اس کے اوراق یہی ثابت کرنے کی کوششوں سے بھرے پڑے ہیں کہ عروج اور اقتدار ہمیشہ ساتھ نہیں رہتے اور یہی نظام قدرت ہے!
تاریخ نے عروج اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے انگنت متکبر افراد کو تنزلی اور تذلیل کی دلدلوں میں گرتے دیکھا ہے۔
انتہائی مختصر دورانیے میں عروج پانے والے عمران خان نے اتنی سرعت کے ساتھ تنزلی کا سفر شروع کرنے کے بعد کیا یہ تسلیم کیا کہ عروج و زوال اور عزت و ذلت دینے کا اختیار صرف اس ذات اقدس کے پاس ہے جو نظام کائنات چلا رہا۔ عزت، ذلت، زندگی اور موت جس کے دست قدرت میں ہے۔کیا ان حالات میں عمران خان نے اپنی ان غلطیوں پر غور کیا جس کے پس منظر میں انہوں نے ان سے محبت اور ان کی پیروی کرنے والی نوجوان نسل کو گمراہ کر کے انہیں ملک اور فوج کر خلاف بغاوت پر آمادہ کیا اور جو سرکشی، غداری اور بغاوت کے جرائم کی پاداش میں جیلوں میں ہیں۔یہ کیسا لیڈر ہے جس نے صرف اقتدار کی ہوس میں قوم کے بیٹوں کو قربان کر دیا اور اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ پر فضا مقام پر وقت گزارنے کی خواہش ظاہر کی؟
وہ وقت دور نہیں جب قوم حقیقت سے آگاہ ہوگی اور اس قدر بیدار ہوگی کہ تحریک انصاف کا ہر رکن خود کو عمران خان کا پیروکار کہلانے میں شرم محسوس کرے گا۔
عمران نیازی نے سب سے پہلا دھوکہ خیبر پختونخواہ کے نوجوانوں کو دیااور انقلاب یا بغاوت کے نام پر نوجوان نسل کو گمراہ کرکے حساس فوجی تنصیبات پر حملے کروائے اور اس لیڈر نے ناصرف مشکلات کا شکار ان نوجوانوں کو لاوارث چھوڑ دیا بلکہ بغاوت، بلووں اور حساس تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری بھی انہی نوجوانوں پر ڈال کر اذیتیں برداشت کرنے کے لئے جیلوں میں پھینک دیا اور دھیان کرنے کی بجائے خود کو بچانے کے حربے تلاش کر رہا ہے۔لیکن اب عمران خان کے سحر میں مبتلا نوجوان رفتہ رفتہ حقائق سے آگاہ ہو رہے ہیں اور پاکستان دشمن مشن کی تکمیل کے لئے کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کی خواہش رکھنے والے ’’راہنما‘‘ کا اصل چہرہ بےنقاب ہو رہا ہے کہ وہ ’’رونگ نمبر‘‘ ہے جس کا اندازہ ان نوجوانوں کے سوشل میڈیا پر بدلتے ہوئے خیالات کے اظہار سے کیا جاسکتا ہے۔خیبر پختونخواء کا ایک نوجوان بدلتی ہوئی سوچ کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’اللّٰہ کا شکر ہے اس جہالت سے میری جان بروقت چھوٹ گئی ورنہ آج مجھے بھی میرے والدین تورا بورا کے پہاڑوں میں تلاش کررہے ہوتے کیونکہ میں بھی ورغلائے جانے والوں میں شامل تھا جب مراد سعید انجنیئر لوگوں کو کہتا تھا 'خان آئیگا دو سو ارب ڈالر فلاں کے منہ پر اور دو سو ارب فلاں کے منہ پر دے مارے گا‘‘ لیکن حقیقت کا پتہ چلا کہ خان تومسجد کا چندہ بھی جیب میں ڈال رہا تھا۔اس وقت ایک پاگل پن تھا آج یوتھیوں کی حالت دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں۔ کاش یہ ہم سے کچھ سیکھ لیتے اس اناپرست خود غرض انسان کے لئے ہم نے اپنی جوانی اور دولت برباد کر دی لیکن آخر میں ذلالت کے سوا کچھ نہیں ملا، آج کل کے یوتھئیے تو زندہ باد مردہ باد کی حد تک ہیں، ہم تو 2007 میں اس وقت کے شدید ترین یوتھیوں میں شامل تھے جو لوگوں کو منت سماجت کرکے پارٹی میں شامل کرتے تھے، جگہ جگہ کیمپ لگا کر ممبر شپ کرتے تھے اور بھوکے پیاسے یہ مشقت اور مشکلیں برداشت کرتے تھے۔اللّٰہ تعالیٰ سب کو گمراہی سے بچائے اور سیدھا راستہ دکھائے‘‘۔
پنجاب کے ایک نوجوان کہتا ہے’’شہیدوں کی روحوں کو زخم زخم کرنے والے اب پناہ کی تلاش میں ہیں‘‘۔
ادھر مستقبل بعید کے وزیر اعظم شاہ محمود قریشی نے اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر بنانے کے لئے "بندر والی جدوجہد" اور بھاگ دوڑ تیز کر دی ہے۔بندر والی جدوجہد اس لئے کہ وہ عمران خان کو اپنی حرکتوں سے بےوقوف بنانے کی کوششوں میں ہیں ورنہ شاہ صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ایک اشارے پر عمران خان کا ساتھ چھوڑنے والوں کی دوڑ میں پہلے نمبر پر ہوتے لیکن پھر بھی وہ ا ڈیالہ جیل سے رہائی پاتے ہی میڈیا کے سامنے یہ دعویٰ کرنے کے بعد کہ’’انصاف کا جھنڈا‘‘ میرے ہاتھ میں ہے، عمران خان سے ان کے گھر پر ملاقات کے لئے پہنچ گئے لیکن (بقول شخصے) ان سے جھاڑ کھائی کیونکہ ان کے علم میں بات لائی جا چکی تھی کہ شاہ صاحب کی رہائی ’’ ڈیل‘‘ کا نتیجہ ہے اور وہ ’’انصاف کا جھنڈا‘‘ کسی اور کے لئے لہرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔بقول راوی، عمران خان نے شاہ صاحب کو تنبیہ کی کہ وہ ’’حد میں رہیں‘‘ اور جتنا کہا جاتا ہے اتنا ہی کریں کیونکہ ان کا نعم البدل یا نائب صرف مراد سعید ہو سکتا ہے کوئی اور نہیں۔کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے جب قائد تحریک انصاف کو یہ مشورہ دیا کہ وہ پارٹی کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ’’روزمرہ‘‘ کے بیانیہ یا تقاریر کے دوران جیلوں میں قید پارٹی نوجوانوں کی رہائی کی کوششوں کا ’’ٹچ‘‘ دیں تو جواب ملا کہ وہ فی الحال موت کے خوف سے گھر سے نکلنے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ وہ ان حالات میں’’لائف سیونگ بالٹی‘‘ پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
عمران خان کو گمان ہے کہ ماضی کی طرح ملک کے خلاف عملی بغاوت کے باوجود انہیں نہ تو گرفتار کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں نااہل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اگر 2014 میں ہی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی باغیانہ سوچ کو بھانپ کر گمراہی کا یہ راستہ روک لیتی تو یہ’’رونگ نمبر‘‘ کبھی انسٹال نہ ہوتا اور اس ملک کے چہرے پر اس قدر سیاہی نہ ملی جاتی جتنی آج ہے۔